Ads

Thursday, August 15, 2019

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی = حصہ اول

<حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی  <حصہ اول
      
اولیا کرام اور صوفیا عظام جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں ان پر کب اور کس وقت جلال اور جمال کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب اور کیسے وہ حالت وجد میں آتے ہیں اور کب مکاشفہ اور کب مشاہدہ اور الہام یا القاء کے ذریعے ان پر غیب
کے پردے کھلتے ہیں،ہماری ہمت نہیں کہ اس پر کرید کریں۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ”میری امت کے بعض علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی مثل ہونگے۔“ صوفیاء کرام کے نزدیک علماء سے مراد یہی گروہ اولیاء مراد ہے۔(ضعیف حدیث
بعض ولی اللہ کو الله کی طرف سے ایسی فراست عطا کی جاتی ہے کہ وہ کم ازکم مستقبل قریب کے حالات کے متعلق بہت ٹھیک اندازہ لگا سکتے ہیں.
ہم یہاں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے کچھ اشعار پیش کرتے ہیں، جو انھوں نے آج سے تقریبا نو سو پچاس سال کہے جن کے ہزاروں فارسی اشعار پر مشتمل دیوان کے علاوہ ایک قصیدہ بہت مشہور ہے جس میں اس برگذیدہ ولی اللہ نے آنے والے حوادث کی پیشن گوئی فارسی اشعار کی صورت میں کی ہے، جو آج تک حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی چلی آرہی ہے۔ قصیدے کے اشعار مختلف حوالوں سے دو ہزار کے قریب بتائے جاتے ہیں لیکن ہمیں کافی کوشش کے باوجود کم و بیش تین سو اشعار سے زیادہ دستیاب نہ ہو سکے۔ لہذا پیشن گوئی کا یہ انمول قصیدہ ہم سے مزید تحقیق اور جستجو کا مطالبہ کرتا ہے۔تھے۔ جن میں ماضی، حال، اور مستقبل میں پیش آنے واقعات کی طرف اشارہ ہے۔
انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جب ہم حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے قصیدے لکھنے کی تاریخ سے ١٠٠ تا ٧٠٠ سال بعد آنیوالے بر عظیم پاک و ہند میں آنیوالے بادشاہوں کے نام ترتیب وار ان کے قصیدے کے اشعار میں پڑھتے ہیں جبکہ وہ حکمران ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ سب سے پہلے مشہور مغل بادشاہ امیر تیمور کا نام اسکی پیدائش سے تقریبا ٢٠٠ سال قبل اپنی پیشن گوئی کے ایک ابتدائی شعر میں لکھتے ہیں۔ اسکے بعد لودھی خاندان کے حکمران سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں۔پھر ان کے بعد آنے والے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمران بابر ،ہمایوں (درمیان میں شیر شاہ افغان) اکبر، جہانگیر، شاہجہاں کے نام ان کے اشعار میں آتے ہیں اور یوں خاندان مغلیہ کے ٣٠٠ سالہ دور حکومت کی ترتیب وار پیشن گوئی کرتے ہوئے وہ انگریزوں کی ہند میں آمد تک خاندان مغلیہ کے قریبا تمام حکمرانوں کو اور ان کی مدت حکمرانی بیان کر دیتے ہیں۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی تمام حجابات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کرہءارض پر تا قیامت نمودار ہونے والے کم و بیش تمام بڑے واقعات و حوادث کو اپنے قصیدے میں بیان کرتے ہیں جو ماضی کی تاریخ کی روشنی میں بالکل صحیح، واضع اور عام فہم ہیں۔جبکہ مستقبل میں ظہور پانے والے تمام واقعات کے لئے انتظار کرنا ایک فطری امر ہے۔
اس کتاب میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے قصیدے کے تمام اشعار موجود نہیں۔ بلکہ اس میں ان کی وسیع پیشن گوئی کے چیدہ چیدہ فارسی اشعار اور ان کے ترجمے، توضیح اور تشریح پیش کی گئی ہے،تا کہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا میں بالعموم اور بر صغیر پاک و ہند میں بالخصوص گزرے ہوئے اور مستقبل قریب یا بعید میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات، حادثات اور انقلابات کے پردوں میں جھانک کر مسلم امہ مادی،سیاسی یا روحانی طور پر عدم توجہی سے گریز کرتے ہوئے عالم غیب کے اس نایاب خزانے کی راہنمائی میں پر آشوب مستقبل سے نمٹنے کیلئے ابھی سے تیاری کریں کہ یہی پیش بینی، دور اندیشی اور دانشمندی اس قصیدے کی غرض و غایت اور مطلب و مدعا نظر آتا ہے۔ بقول اقبال:
کھول کر آنکھیں میرے آئینہء گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
شاہ نعمت اللہ ولی کے تفصیلی حالات زندگی ایران اور افغانستان ی قدیم لائبریریوں میں موجود ہیں۔ آپ کا پورا اسم گرامی سید نورالدین نعمت اللہ ہے۔ آپ پانچویں امام سیدنا حضرت باقر اور اس واسطے سے حضرت علی مرتضیٰ ابن ابی طالبؓ کی اولاد ہیں۔ چوبیس سال کی عمر میں آپ مکہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے مشہور صوفی بزرگ شیخ عبداللہ ایفائی کے ہاتھ پر روحانی بیعت کی اور سات برس تک وہیں ان کی خدمت میں قیام کیا۔ مکہ شریف سے آپ واپس عراق تشریف لائے تو یہ امیر تیمور کا زمانہ تھا۔ آپ امیر تیمور کی حکومت کو برملا ظالمانہ کہتے تھے۔
آپ نے ہندوستان میں پیش آنے والے واقعات کی بھی پیش گوئیاں کی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ پیش گوئیاں 790ہجری کی دہائی میں کہی گئی تھیں۔
قارئین کرام یہ پیش گوئیاں قرآن و حدیث نہیں ہیں، یہ ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہیں، ہر زمانے صاحبان کشف گذرے ہیں، میں نے ان کی باتوں کا حصہ جو ہمارے حالات سے مطابقت رکھتا ہے پیش کیا ہے، کیونکہ اس میں مسلمانوں کی بہتری کی طرف اشارہ ہے، انشاءاللہ نشاة ثانیہ کا دور آئے گا۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے پیشنگوئی کے قصیدے میں ”پیدا شود“ (پیدا ہو گا) میں مستقل میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کو ایسے بے باکانہ طور پر بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، انسان کا علم محدود ہے، علم نجوم میں دھوکہ بہت ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے قصیدے میں تین مختلف قسم کے ردیف اور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ بعض اشعار کی ردیف ”مے بینم“(میں دیکھ رہا ہوں) اور بعض کی ردیف ”پیدا شود“(پیدا ہو گا) اور بعض اشعار میں قافیہ زمانہ،بہانہ اور غائبانہ وغیرہ استعمال ہوا ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی عالم غیب کی پردہ کشائی سے پہلے کچھ یوں فرماتے ہیں
قدرت کرد گار مے بینم
حالت روز گار مے بینم
ترجمہ: میں اللہ تعالی کی قدرت دیکھ رہا ہوں، میں زمانہ کی حالت دیکھ رہا ہوں۔
از نجوم ایں سُخن نمے گویم
بلکہ از کردگار مے بینم​
ترجمہ: میں یہ بات علم نجوم کے ذریعے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ذات باری تعالی کی طرف سے دیکھ رہا ہوں۔
لہٰذا نعمت اللہ شاہ ولی علم اور عقل کی سرحدوں سے آگے نکل کر علم روحانی کی بنا پر درون خانہ ہنگاموں کی پردہ کشائی کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں:
پارینہ قصہ شوئم از تازہ ہند گوئم
افتاد قرن دوئم کہ افتد از زمانہ​
ترجمہ: میں قدیم قصہ کو نظرانداز کرتا ہوں، میں ہندوستان کےمتعلق تازہ بیان کرتاہوں کہ دوسرا قرن جو زمانہ میں آئےگا۔

ماضی میں پیش آنےوالےواقعات سےمتعلق نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی جو پیدا شد ردیف کےساتھ اپنےاشعاروں کی گئ
اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی ”پیدا شود“(پیدا ہو گا) کی ردیف میں ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمرانوں کی پیشن گوئی کی ابتدا اس شعر سے کرتے ہیں:
راست گوئیم بادشاہے درجہاں پیدا شود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود​
ترجمہ:میں سچ کہتا ہوں کہ ایک بادشاہ دنیا میں پیدا ہو گا۔اس کا نام تیمور ہو گا اور وہ صاحبقراں ہو گا۔​
تشریح:تیمور شاہ نے ١٣٩٨ء میں ہندوستان کے بادشاہ محمد تغلق کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔اسکے چند غیر اہم جانشینوں کے بارے اشعار کو اختصار کی خاطر نظر انداز کیا گیا ہے۔
از سکندر چوں رسد نوبت بہ ابراہیم شاہ
ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود
ترجمہ: جب سکندر لودھی سے ابراہیم تک نوبت پہنچ جائے گی، تو اس بات کو یقین سے سمجھ کہ اس کی حکومت میں فتنہ پیدا ہو گا۔
تشریح: ہندوستان میں خاندان مغلیہ کے بانی حکمران ظہیر الدین بابر نے جو امیر تیمور یا تیمور شاہ کی پانچویں پشت میں سے تھے،١٥٢٦ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں لودھی خاندان کے آخری حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا تھا۔بابر کے متعلق حضرت نعمت اللہ شاہ بابر کے اقتدار میں آنے سے ٣٥٠ سال قبل اپنے ایک شعر میں مندرج تاریخ ٥٧٠ ھ بمطابق ١١٧٤ عیسوی میں پیشن گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شاہ بابر بعد ازاں در ملک کابل بادشاہ
پس بہ دہلی والئی ہندوستاں پیدا شود​
ترجمہ: اس کے بعد ملک کابل کا بادشاہ بابر دہلی میں ہندوستان کا والی ظاہر ہو گا۔
بابر کے بیٹے ہمایوں اور اس دوران ایک افغان کے ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
باز نوبت از ہمایوں مے رسد از ذوالجلال
ہم درآں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
ترجمہ:پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے بادشاہی ہمایوں تک پہنچے گی۔جبکہ اسی دوران قدرت کی طرف سے ایک افغان (شیرخان) ظاہر ہو گا۔
حادثہ رُو آورد سوئے ہمایوں بادشاہ
آنکہ نامش شیر شاہ اندر جہاں پیدا شود​
ترجمہ: پھر ہمایوں بادشاہ کو حادثہ پیش آ جائیگا کیوں کہ شیر شاہ (سُوری) نام کا ایک شخص دنیا میں ظاہر ہو گا۔
تشریح: تاریخ ہند بتاتی ہےکہ شیر خان سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں نے نظام سقہ کے ذریعے دریائے گنگا پار کر کے جان بچائی اور ایران کے بادشاہ کے پاس پناہ لی۔ جس نے اس کی بڑی قدرومنزلت کی اور چند سال بعد جب شیر شاہ سوری چل بسا تو ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے ١٥٥٥ء میں دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور ١٥٥٦ء تک حکومت کی۔
پس ہمایوں بادشاہ بر ہند قابض مے شود
بعد ازاں اکبر شاہ کشور ستاں پیدا شود​
ترجمہ: اس طرح ہمایوں بادشاہ ہندوستان پر قبضہ کر لے گا اور اکبر (بیٹا) ملک کا بادشاہ بن جائے گا۔(چنانچہ جلال الدین محمد اکبر نے قریبا پچاس سال تک ہندوستان پر بادشاہت کی۔)
بعد از شاہ جہانگیر است گیتی راہ پناہ
اینکہ آید در جہاں بدرِ جہاں پیدا شود
ترجمہ: اس کے بعد جہانگیر عالم پناہ ہو گا۔ یہ مہتاب کامل کی طرح تخت پر جلوہ افروز ہو گا۔​
تشریح: نور الدین جہانگیر نے ١٦٠٥ء سے ١٦٢٧ء تک ہندوستان پر حکومت کی۔ جہانگیر اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں ہے جس سے دو تین سو گز کے فاصلے پر اس کی بیوی ملکہ نور جہاں کا مزار ہے۔
چوں کند عزم سفر آں ہم سوئے دار البقاء
ثانی صاحب قراں شاہجہاں پیدا شود
ترجمہ: جب وہ دار البقاء کی طرف سفر کرے گا۔تو اس کے بعد شاہجہاں (بیٹا) تخت نشین ہو گا۔
بیشتر از قرن کمتر از چہل شاہی کند
تاکہ پسرشی خودبہ پیشش آں زماں پیداشود​
ترجمہ:وہ قرن سے زیادہ اور چالیس سال سے کم بادشاہی کرے گا جبکہ اس کا بیٹا(اورنگ زیب) اس کے سامنے ہی اس وقت تخت پر جلوہ افروز ہو جائیگا۔
تشریح: یہاں یہ بات کسی قدر قابل توجہ ہےکہ قصیدہ ہذاٰ میں جہاں ”پیدا شود“ کی ردیف کے دستیاب اشعار میں امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر سے لے کر خاندان مغلیہ کے آخیر تک تمام حکمرانوں کےناموں کا ترتیب وار ذکر موجود ہے وہاں صرف محی الدین اورنگ زیب کا نام کسی بھی شعر میں نہیں ہے۔ اگر چہ اس کے مخصوص نام ”اورنگزیب“ کے بغیر اس کا ذکر اپنے باپ شاہجہاں کے بعد موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے نام سے متعلقہ شعر قصیدے کے باقی سینکڑوں اشعار کی طرح دستیاب نہ ہو۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اورنگزیب جس نے قریبا ٥٠ سال ہندوستان پر بادشاہی کی، واحد حکمران ہے جس نے تخت نشینی کی صدیوں پرانی روایات سے انخراف کرتے ہوئے نہ صرف اپنے باپ شاہجہاں کو گوالیار کے قلعے میں قید کیا بلکہ تخت کے اصل وارث اپنے بڑے بھائی شہزادہ دارا شکوہ کو شکست دینے کےبعد اسے ہاتھی کے پیچھے باندھ دیا اور اسے گھسیٹتےہوئےہزاروں مرد وعورتوں کی آہوں اورسسکیوں کےدرمیان ان کے سامنے قتل کروایا۔ دارا شکوہ اولیاء کرام اور صوفیا عظام کا نہایت قدردان تھا۔ دنیائےاسلام کےسینکڑوں نامور اولیاء اور بزرگان دین کےحالات پر مشتمل دارا شکوہ کی کتاب سفینتہ الاولیاء (اردو ترجمہ) تصوف کی معروف و مستند کتاب کےطورپرمشہور ہے۔

اورنگزیب کے بعد خاندان مغلیہ کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ لٰہذا اورنگ زیب عالمگیرکے بعد آنے والے بہت سے غیر معروف جانشینوں کے نام اگر چہ اشعار میں موجود ہیں لیکن ہم ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ١٧٣٩ء میں دہلی کے قتلِ عام کے تذکرہ کی طرف آتے ہیں۔جس کی پیشن گوئی حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے قریبا چھ سو سال قبل ٥٤٨ ہجری بمطابق ١١٥٤ عیسوی میں کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں:
نادر آید زایراں مے ستاند تخت ہند
قتل دہلی پس بہ زور تیغ آں پیدا شود​
ترجمہ: نادر شاہ ایران سے آکر ہندوستان کا تخت چھین لے گا، لہذا اس کی تلوار کے زور سے دہلی کا قتل عام ہو گا۔
تشریح: نادر شاہ نے ١٧٣٩ء میں ہندوستان پر حملہ کر کے قریبا دو ماہ تک دہلی میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا۔ جب ایک دن کسی نے نادر شاہ کے قتل کی افواہ اڑائی تو دہلی کے سپاہیوں نے نادر شاہ کے بہت سے سپاہی قتل کر ڈالے۔ اس پر نادر شاہ نے آگ بگولا ہو کر دہلی کے قتل عام کا حکم دیا اور یوں مورخین کے مطابق بارہ گھنٹے کے اندر اندر ڈیڑھ لاکھ کے قریب باشندگان دہلی قتل ہوئے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے پیشن گوئی قصیدے کے دستیاب اشعار کا متعدد بار بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اشعار جا بجا غائب ہو گئے ہیں جبکہ بعض اشعار کی سلسلہ وار ترتیب میں فرق پڑ گیا ہے۔ کیونکہ اشعار کے بہت قدیم دور سے تعلق رکھنے کی بناء پر ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی ایک مرتبہ پھر بابر کے دور حکومت کی طرف پلٹتے ہوئے سکھوں کے بانی پیشوا گرو نانک کا ذکربھی کرتے ہیں۔
شاہ بابر پادشاہ باشد پس ازوے چند روز
درمیانش یک فقیر از سالکاں پیدا شود​
ترجمہ: بابر بادشاہ جو ہو گا اس کے بعد چند سالکوں کے درمیان ایک فقیر پیدا ہو گا۔
نام او نانک بود آرد جہاں باوے رجوع
گرم بازار فقیر بیکراں پیدا شود۔۔​
ترجمہ: اس کا نام نانک ہو گا۔ بہت سے لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔اس بے اندازہ فقیر کا بازار گرم ہو گا اور خوب چرچا ہو گا۔
دلمیان ملک پنجابش شود شہرت تمام
قوم سکھانش مرید و پیراں پیدا شود​
ترجمہ: ملک پنجاب کے درمیانی حصہ میں اس کی بڑی شہرت ہو گی۔سکھ قوم اس کی مرید ہو گی اور وہ ان کے پیر کے طور پر نمایاں ہو گا۔
تشریح:گرو نانک ١٤٤١ء میں پیدا ہوئے اور ١٥٣٨ء میں میں ان کا انتقال ہوا۔
قوم سکھا نش چیرہ دستی ہا کند در مسلمین
تا چہل ایں جورو بدعت اندر آں پیدا شود​
ترجمہ: سکھ قوم مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم کرے گی۔ یہ ظلم و بدعت چالیس سال تک اس میں ظاہر ہوتا رہے گا۔
بعد ازاں گیرد نصاریٰ ملک ہندویاں تمام
تا صدی حکمش میاں ہندوستاں پیدا شود​
ترجمہ:اس کے بعد عیسائی تمام ملک ہندوستان پر قبضہ کر لیں گے۔ ایک سو سال تک ان کا حکم ہندوستان پر چلتا رہے گا۔
ظلم و عداوت چوں فزوں گردوبر ہندوستانیاں
از نصاریٰ دین و مذہب رازیاں پیدا شود​
ترجمہ: جب اہل ہند پر ظلم اور عداوت کی زیادتی ہو جائے گی تو عیسائیوں کی طرف سے دین اور مذہب کو بہت نقصان پہنچ جائیگا۔
تشریح: ہندوستان کے انگریز وائسرائے لارڈ کرزن نے یہ پیشن گوئی اس وجہ سے قانونا ممنوع قرار دی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں صرف ایک سو سال رہے گی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ دین اسلام میں فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے انگریزوں نے مسلمانوں کے اندر مرزائیوں اور قادیانیوں کا بیج بویا جس سے دین اسلام کو بہت نقصان پہنچا اور بہت سے مسلمان گمراہ اور مرتد ہو گئے۔
آحتواء سازد نصاریٰ را فلک در جنگ جیم
نکبت و ادبا را ایشاں رانشاں پیدا شود​
ترجمہ: جنگ جیم (یعنی جرمن کی جنگ) میں آسمان عیسائیوں کو مبتلا کر دے گا اور ان کے لئے تباہی و بربادی کا نشان ظاہر ہو گا۔
تشریح: یہ جنگ عظیم اول ١٩١٤ء سے ١٩١٨ء تک رہی ۔ پھر اکیس سال بعد دوبارہ ١٩٣٩ء سے ١٩٤٥ء تک جنگ عظیم دوئم جرمنوں سے عیسائیوں کی طرف لڑی گئی۔
فاتح گردد نصاریٰ لیکن از تا راج جنگ
ضعف بیحد در نظام حکم شاں پیدا شود​
ترجمہ: اگر چہ اہل برطانیہ جرمنوں پر فتح پا لیں گے لیکن جنگ کی تباہ کاریوں سے ان کے نظام حکم میں بہت زیادہ کمزوری پیدا ہو جائیگی۔
تشریح: یہاں یہ حقیقت بیان کرنا ضروری ہے کہ جنگ عظیم اول، جنگ عظیم دوئم، انگریزوں کا ہندوستان دو حصوں میں تقسیم کرنا اور خود ہندوستان کو چھوڑ کر چلے جانے اور اس کے پیچھے اور اس کے آگے رونما ہونے والے واقعات،حالات اور حادثات کو حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے دوسرے قافیہ مثلا زمانہ، تاجرانہ اور حاکمانہ میں زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن فی الحال ”پیدا شود“ کے ردیف میں ہی ان کی پیشن گوئی کو اختتام تک پہنچاتے ہیں۔ جس کے بعد دوسرے قافیہ کے ذریعے پیشن گوئی کو زیادہ تفصیل اور طوالت کے ساتھ پر اسرار انجام تک پہنچاتے ہیں جہاں قربت قیامت کی نشانیاں صاف اور واضع طور پر سامنے آجاتی ہیں۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنے ”پیدا شود“ ردیف کے اشعار کو آگے بڑھاتے ہوئے انگریزوں کے بارے اپنی پیشن گوئی میں فرماتے ہیں:
واگزارند ہندرا از خود مگر از مکرشاں
خلفشار جانگسل در مرد ماں پیدا شود​
ترجمہ: اگرچہ انگریز ہندوستان کو خود ہی چھوڑ جائیں گے لیکن وہ اپنے مکر و فن سے لوگوں میں ایک جان لیوا جھگڑا چھوڑ جائیں گے۔
تشریح: قیاس و قرائن کی رو سے یہ جھگڑا مسئلہ کشمیر ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ پیشن گوئی میں بعض مقامات پر اشارہ و کنایہ کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
دو حصص چوں ہند گردد،خوں آدم شد رواں
شورش و فتنہ فزوں از گماں پیدا شود​
ترجمہ:جب ہندوستاں دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔انسانوں کا خون بے دریغ جاری ہو گا۔ شورش و فتنہ انسانی سوچ سے بعید ہو گا۔
لامکاں باشد ز قہر ہندواں مومن بسے
غیرت و ناموس مسلم رازیاں پیدا شود​
ترجمہ: اکثر مسلمان ہندوؤں کے غیظ و غضب سے بے گھر ہو جائیں گے یعنی مہاجرین کی شکل اختیار کر لیں گے۔ مسلمانوں کی غیرت و ناموس کو نقصان پہنچے گا۔گویا مسلمانوں سے ان کی بہن، بیٹیاں اور عورتیں چھین لی جائیں گی۔
مومناں یابند اماں در خطہء اسلاف خویش
بعد از رنج و عقوبت بخت شاں پیدا شود​
ترجمہ: مسلمان اپنے اسلاف کےعلاقے (پنجاب، سندھ،سرحد، بلوچستان) میں پناہ حاصل کر لیں گے۔اس رنج اور مصیبت کے بعد ان میں بخت آوری ظاہر ہو گی۔
تشریح: موجودہ اور آنیوالی نسلوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ پاکستان دس لاکھ شہیدوں کے خون سے بنا ہے۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ء کو پاکستان کا معرض وجود میں آنے کے ساتھ پاکستان آنے والے مہاجرین نے اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں جبکہ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ مسلمان مہاجرین کی پاکستان آمد کے دوران ”بہار کا قتل عام“ ایک دردناک داستان اور خونیں منظر پیش کرتا ہے۔ لیکن سرفروشانِ اسلام نے لاشوں کے ڈھیر اور خون کے دریاؤں کا نذرانہ پیش کر کے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت، پاکستان کو حاصل کیا۔
نعرہء اسلام بلند شد بست وسہ ادوار چرخ
بعد ازاں بار دگر یک قہرشاں پیدا شود​
ترجمہ: اسلام کا نعرہ تئیس سال (١٩٤٧ء تا ١٩٧٠ء) تک بلند رہے گا۔ اس کے بعد دوسری بار ان پر ایک قہر ظاہر ہو گا۔
تنگ باشد بر مسلمانان زمین ملک خویش
نکبت و ادبار در تقدیر شاں پیدا شود​
ترجمہ: مسلمانوں پر اپنے ملک کی زمین تنگ ہو جائے گی اور تباہی و بربادی ان کی تقدیر میں ظاہر ہو گی۔
تشریح: یاد رہے کہ یہ قہر الٰہی پیشن گوئی کے عین مطابق ١٩٧١ء میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت کے بعد سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ جنگ در حقیقت شیخ مجیب الرحمٰن اور بھاشانی کی علیحدگی پسندی کے ناپاک عزائم کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی جس میں پندرہ لاکھ غیر بنگالی اور وہ بنگالی جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے، نہایت بے دردانہ اور ظالمانہ طور سے مار ڈالے گئے۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی جبکہ ایک لاکھ پاکستانی فوج جنگی قیدی بنی اور یوں قائد اعظم کا پاکستان آدھا ہو کر رہ گیا۔ اس عظیم سانحہ سے سبق حاصل کرنا تو کجا، ہمارے بعض قوم پرست اور علیحدگی پسند سیاستدان باقی رہے سہے پاکستان کو بھی پختونستان، گریڑ بلوچستان، سندھو دیش، مہاجرستان اور جناح پور میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسلامی دنیا کی یہ واحد ایٹمی طاقت اور دنیا کے ١٩٢ ممالک میں ساتویں بڑی فوجی اور ایٹمی طاقت مملکت خداداد پاکستان خدانخواستہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہمسایہ دشمن اسے آسانی سے ہڑپ کر سکے۔ اسی لئے تو دانائے راز فقیر ، ترجمانِ حقیقت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے پہلے ہی سے مسلم امہ کو اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہوئے کہا:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی ، نہ افغانی ، نہ تورانی​
دوبارہ فرمایا
یہ ہندی ، وہ خراسانی، یہ فغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہء ساحل، اُچھل کر بیکراں ہو جا​
پھر فرمایا
غُبار آلودہء رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم! اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا​
آگے چل کر فرمایا
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
تیرا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لئے​
حالتِ وجد میں پھر پُکار اُٹھے
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا دِلی، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند​
بلا آخر یہ کہنے پر اُتر آئے
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو؟​
جبکہ ایران کی طرف سے خصوصی طور پر بھیجے گئے علامہ اقبالؒ کے مزار پر نصب قیمتی سنگ مرمر کے کتبے پر اسلامی دنیا کو پیغام دینے والے یہ دو آفاقی شعر کندہ ہیں:
نے آفغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم
تمیز و رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردہ ء یک نو بہاریم​
ترجمہ: ہم نہ افغان ہیں نہ ترک اور تاتار ہیں۔ ہم باہم ایک گلستان کی مانند ہیں اور ایک ہی شاخسار میں سے ہیں۔ رنگ و نسب کی بناء پر امتیاز روا رکھنا میرے اوپر حرام ہے کیونکہ ہم ایک ہی نو بہار (دین اسلام ) کے پروردہ ہیں۔



**************************


2 comments:

Unknown said...

یہ تحریر مجھے کو پی ڈی ایف میں مل سکتی ہے
کیا ؟

Anonymous said...

ھففھ

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |