Ads

Tuesday, August 30, 2022

شیرشاہ سوری (فرید خان)

 شیرشاہ سوری (فرید خان)

وہ پٹھان سردار جس نے ہندوستان پر5 سال حکومت کی۔ اور ایسی حکمرانی کی جو 6 صدیوں بعد بھی  بھی اچھی حکمرانی کیلئے ایک معیار ہے۔

یہ 1528 کی بات ہے، ہندوستان کے دارالحکومت آگرہ میں گہما گہمی ہے۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر چندیری کی فتح کے بعد آگرہ لوٹ آئے ہیں اور بابر کی حکمرانی ہندوستان پر قائم ہو چکی ہے۔فتوحات کے ساتھ شاہی ضیافت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امرا اور سرداروں کی دعوت میں طرح طرح کے کھانے آئے دن لگائے جاتے ہیں۔ ایک دن اسی قسم کی ایک ضیافت میں 


مرغ،مچھلی، ہرن کےگوشت، کباب، پلاؤ، نان کےساتھ مختلف کھابوں میں ماہیچےبھی دسترخوان پررکھےگئ

بادشاہ بابر بھی اپنے امیروں اور وزیروں کے ساتھ وہاں موجود ہیں کہ ان کی نگاہ ایک  پٹھان سردار پر پڑتی ہے جو  اپنے انداز میں خنجر نکال کر اس کی قاش کر کے اسے آرام سے کھا رہا ہے۔

بادشاہ بابر کےدل میں اس کے چہرے کے اطمینان اور اس کے کھانے کے انداز کو دیکھ کر تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے پاس موجود اپنےوزیراعظم اور افغان سردار شاہ جنید کے بھائی میرخلیفہ وزیراعظم سےکہتے ہیں کہ اس شخص کے آثار سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ خلفشار کا باعث بنےگا،اسے فورا گرفتار کرلیا جائے۔

خلیفہ وزیر اعظم نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس کو گرفتار کروانا خلاف مصلحت ہو گا اورپٹھان سرداروں میں یہ تاثر جائے گا کہ بادشاہ پختونوں کےخلاف ہے۔

گرفتاری کاحکم تو منسوخ کر دیا گیا لیکن بابر کو تسلی نہ ہوئی اور انھوں نے کہا کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے اور اس کے احوال سےانھیں باخبرکھا جائے کیونکہ ’وہ بہت چالاک آدمی ہے اور اس کی پیشانی پر حکومت کے آثار نمایاں ہیں۔‘میں نے کتنے ہی افغان سورما دیکھے ہیں لیکن کسی نے بھی مجھےپہلی ملاقات میں اتنا متاثر نہیں کیا جتنا اس شخص نےکیا ہے۔اس کےجاہ و جلال کے آثار ہمارے لیےخطرناک ہو سکتے ہیں۔‘

ادھر اس پٹھانسردار نے بادشاہ کو اپنی جانب کینہ توز نظروں سے دیکھتے اور اپنے وزیر سے بات کرتے دیکھا۔ فاصلے کی وجہ سے باتیں تو نہیں سن سکا لیکن جہاندیدہ سردار نے سمجھ لیا کہ بات اسی کے بارے میں ہو رہی ہے اور بادشاہ کی نیت ٹھیک نہیں۔

چنانچہ کھانے سے فراغت کے بعد وہ وہاں سے نکلا اور پھر اس نے کسی کو بتائے بغیر ہی آگرہ چھوڑ دیا۔ یہ سردار کوئی اور نہیں بلکہ مغلوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور اور ہندوستان سے بے دخل کرنے والا پٹھان اور سلطنت سور کا بانی شیر شاہ سوری تھا۔     

شیرشاہ سوری (فرید خان) سے متعلق بادشاہ ظہیرالدین بابرکا خدشہ ان کی موت کے بعد درست ثابت ہوا اور دس سال بعد تو وہ کسی پیشگوئی کی طرح بالکل سچ ثابت ہوا جب شیر شاہ سوری نے بابر کے جانشین اور مغل حکمران ہمایوں کو ہندوستان سے بے دخل کر دیا۔

شیر شاہ سوری نے شمالی ہندوستان پر مکمل طور پر فقط پانچ سال (17 مئی 1540 سے 22 مئی 1545) حکومت کی لیکن انھوں نے تاریخ میں اپنا ایک ان مٹ نقش چھوڑا۔

 میں ان کا حسن انتظام ایک ایسا روشن مینارہ ہے جس سے ان کے بعد آنے والے بادشاہوں بطور خاص مغل بادشاہ اکبر نے رہنمائی حاصل کی اور ملک گیری میں ان کی ڈالی طرز کو پروان چڑھایا۔

ان کا چلایا ہوا روپیہ آج نہ صرف انڈیا اور پاکستان میں رائج ہے بلکہ کئی اور ممالک میں بھی اسی نام کی کرنسی زیر استعمال ہے۔ روپیہ تو پہلے بھی رائج تھا لیکن اس کی مقدار طے نہ تھی۔

شیرشاہ سوری کی ابتدائی حالات زندگی

شیرشاہ کی پیدائش کے بارے میں تاریخ دانوں میں اتفاق نہیں لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ وہ 1486 میں حصار یعنی آج کی انڈین ریاست ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ اس طرح وہ بادشاہ بابر سے تقریباً تین سال چھوٹے تھے لیکن کئی جگہ آتا ہے کہ وہ ان کے ہم عمر تھے۔

شیرشاہ کا اصل نام فرید خان تھا او حسن خان کے پہلے بیٹے تھے۔ حسن خان کے والد ابراہیم خان سلطان بہلول لودھی کے دور میں ہندوستان آئے تھے اور اور جاگیر حاصل کی تھی۔

فرید خان کے والد حسن خان نے کالکاپور کے مسند اعلیٰ اور سلطان بہلول کے منظور نظر وزیر عمر خان سروانی کے یہاں ملازمت اختیار کی جنھوں نے پرگنہ شاہ آباد میں کئی گاؤں حسن خان کو بطور جاگیر عطا کیے۔ سکندر لودھی کے عہد میں جب جمال خان کا اقبال بلند ہوا تو انھوں نے حسن خان کو ان کے والد ابراہیم خان کی جاگیر کے علاوہ 500 گھڑ سواروں کا افسر مقرر کیا اور ان کی ملکیت میں بنارس کے پاس سہسرام، حاجی پور اور ٹانڈہ کی جاگیریں عطا کیں۔

فرید خان کے والد حسین خان نے تین شادیاں کررکھی تھی۔ جن میں دو پختون تھی اور ایک ہندو تھی۔ فریدخان سے حسن خان کی پہلی بیوی سے ان کا سب بڑا بیٹا تھا۔

حسن خان اپنی محبوب نظر بیوی کی خوشی کے لیے اپنے بیٹے فرید خان سےدور رہنے لگے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ حسن خان نےجائیداد کے اختیارات فرید خان کو دے رکھی تھی۔ لیکن حسن خان کی ہندو بیوی یہ اختیارات اپنے بیٹھوں کو دینا چاہتی تھی۔ جس کیلئے حسن کی اس کی بیوی کی بار بار اس پر بحث نے حسن خان کی زندگی اجیرن کررکھتی تھی۔ 

جس کا احساس فرید خان کو ہو گیا اور وہ روٹھ کر جونپور جمال خان کے ہاں چلے گئے، جہاں انھوں نے اپنی نوجوانی تعلیم کے حصول میں لگائی اور اس کی بدولت ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔

شیر شاہ سوری کے دور پر نظر رکھنے والے اہم تاریخ داں کالکا رنجن قانون گو نے شیر شاہ کے علمی شغف اور کثیرالمطالعہ ہونے کی خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بچپن میں ادب کے مطالعے نے اسے اس کی فوجی زندگی کی راہ میں ممتاز کر دیا جس پر چل کر شیواجی، حیدرعلی اور رنجیت سنگھ جیسے ان پڑھ بہادر عام انسان اور معمولی سطح سے اونچے اٹھ کر شہنشاہ بننے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں کوئی دوسرا ایسا شخص نہیں ملتا جس نے اپنی ابتدائی زندگی میں غیر فوجی ہوتے ہوئے کسی حکومت کی بنیاد رکھی ہو۔‘

فرید خان کی ابتدائی حالات اور سوتیلی ماں کے سلوک نے غور و خوض اور فکر و تدبر کی طرف مائل کیا تھا۔ بہت سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں سوتیلی ماں نہ ہوتی تو ان میں اتنی اولوالعزمی پیدا نہیں ہوتی اور ان کی فطرت میں وہ لچیلاپن نہیں ہوتا جو ان کی ترقی کا ضامن بنا۔

شیرشاہ سوری فرید خان سے شیر خان اور اور پھر شیر سوری کیسے بنے۔

فرید خان کو ان کے والد حسن خان نے کئی قصبوں کا انتظام سونپا اور فرید کے حسن انتظام کا جب چرچا عام ہوا تو والد کو خوشی ہوئی لیکن سوتیلی والدہ کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔

فرید خان نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فرائض سے دستبرداری کا اعلان کیا اور اپنی جداگانہ راہ اختیار کی۔ اس وقت ہندوستان میں ابراہیم لودھی کی حکومت تھی لیکن بہت سے علاقوں میں شورش تھی اور باغی افغانوں کے سردار دریا خان لوہانی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بہار خان لوہانی نے اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا۔

فرید خان کے پرگنے بہار خان کی سلطنت میں شامل تھے اس لیے انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ان کی بقا بہار خان کے ساتھ ہے۔

تاریخ داں ودیا بھاسکر نے اس وقت فرید خان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے ’شیر شاہ سوری‘ نامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’فرید خان فطرتاً وفادار، جفاکش اور جانثار انسان تھے، انھیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ بہار خان لوہانی کی خدمت گزاری میں ہی ان کا فائدہ ہے۔۔۔ بہار خان کو بھی جلد ہی معلوم ہو گیا کہ فرید خان لائق، محنتی، وفادار اور جانثار ہونے کے ساتھ ساتھ ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہیں۔‘

چنانچہ دونوں کے درمیان قربت بڑھتی گئی اور دوستی مضبوط تر ہوتی گئی۔ اس دوران بہار خان نے سلطان محمد کا لقب اختیار کر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور بہار کو آزاد صوبہ قرار دے کر اپنا سکہ جاری کیا۔

اس سے ذرا قبل ہی پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر نے ابراہیم لودھی کی بڑی فوج کو شکست دے کر ہندوستان کا تخت حاصل کر لیا تھا۔اسی ہم نشینی کے دوران ایک بار بہار خان کے ساتھ فرید خان شکار پر گئے۔

جنگل میں گھومتے تھے کہ اچانک ان کی جانب شیر آ گیا اور شیر نے فرید کی طرف چھلانگ لگا دی، فرید نے شیر کا وار خالی جانے دیا اور اسی دوران تلوار سے ایسا وار کیا کہ ایک ہی ضرب میں شیر ڈھیر ہو گیا۔ چاروں طرف سے مرحبا اور آفریں کی صدائیں بلند ہونے لگی۔

بہار خان فرید خان کی اس بہادری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس نے انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کر دیا۔ لوگ پھر فرید خان کو شیر خان کے نام سے ہی پکارنے لگے اور اس کے بعد یہی ان کی شناخت بن گئی۔

مغلوں کی ملازمت

چنانچہ بہار خان کی بادشاہت کے اعلان کے بعد بابر نے مشرق میں سرکوبی کے لیے روانگی کا ارادہ کیا تو ہمایوں نے اس مہم کے لیے اپنا نام پیش کیا اور بابر نے ہمایوں کو اجازت دی اور ہمایوں نے باغی پٹھانوں کی سرکوبی کی لیکن اس دوران شیر خان نے اپنا اعتماد کھو دیا اور اپنی جاگیر اپنے سوتیلے بھائیوں کے حوالے کر کے مغلوں کی حکومت کے گورنر جنید برلاس کو امان کی یقین دہانی کے بعد ان کے پاس جونپور پہنچے۔

16 مارچ سنہ 1527 میں کھانوا (کنوا) کی جنگ کے بعد جنید برلاس کے ساتھ شیر خان بھی بابر کے دربار میں پہنچے جہاں انھوں نے تقریباً سوا سال تک مغل فوج میں خدمات انجام دیں۔ اسی دوران جنید اور وزیر اعظم کے کہنے پر بابر بادشاہ نے شیر خان کو سہسرام میں ان کی جاگیر عطا کی۔

لیکن بابر کے دسترخوان پر شیر خان کی اُس حرکت نے بابر کے دل میں تشویش پیدا کر دی لیکن یہاں ماہیچہ کھانے کی وضاحت ضروری ہے جس سے کوئی بھی پریشان ہو سکتا ہے تو پھر بادشاہ بابر جیسا شخص کیوں نہ تشویش کا شکار ہوتا۔

لکھنؤ کی خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں پروفیسر ثوبان سعید نے فارسی لغات کے حوالے سے بتایا کہ ماہیچہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ اسے سویوں اور دودھ سے بنائی جانے والی فیرنی جیسی چیز کہا گیا ہے جبکہ ایک جگہ اسے آٹے کے اندر گوشت یا مچھلی ڈال کر بنائے جانے والی ڈش کہا گیا ہے۔ ان دونوں کو چمچے سے کھایا جاتا ہے نہ کہ کٹار یا خنجر سے کاٹ کر۔

انھوں نے بتایا کہ خان صاحب کے غصے کا ذکر کئی جگہ آیا ہے کہیں مذاقاً تو کہیں واقعتاً۔ انھیں بہت جلد بازی تھی اور وہ بہت تپاکی بھی تھے لیکن بعض مؤرخین انھیں معاملہ فہم اور سلجھا ہوا کہتے ہیں۔

بادشاہ اکبر کے دربار میں افغانوں کی تاریخ رقم کرنے پر مقرر کیے جانے والے درباری عباس خان سروانی کی شیر شاہ سے رشتہ داری تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ وہ شروع سے حوصلہ مند تھے اور مغلوں سے حکومت حاصل کرنے کا خیال رکھتے تھے جبکہ دوسرے افغان انھیں سرپھرا اور شيخی باز سمجھتے تھے۔

وہ شیر شاہ کو سکندر ثانی کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’چندیری کی مہم میں سکندر ثانی (شیر شاہ) ظل سبحانی بابر بادشاہ کے لشکر کے ساتھ تھا۔ شیخ ابراہیم سروانی نے مجھ سے آ کر کہا آؤ شیر خان سور کے پاس چلیں اور باتیں وہ اپنے مرتبے سے ایسی زیادہ کرتا ہے کہ لوگ ہنستے ہیں۔‘

’ہم سوار ہو کر اس کے ڈیرے گئے۔ باتوں باتوں میں شیخ ابراہیم نے کہا مشکل ہے کہ ملک ہندوستان پھر پٹھانوں کے ہاتھ آئے اور مغل ہندوستان سے خارج ہوں۔ شیر خان نے شیخ محمد کو کہا تو گواہ رہیو کہ میرے اور شیخ ابراہیم کے درمیان جو بات ہوتی ہے۔ اگر میرے طالع نے یاوری کی تو تھوڑے دنوں میں مغلوں کو ہند سے نکال دوں گا۔‘

’اس لیے کہ مغل تلوار کی لڑائی میں پٹھان سے زیادہ نہیں ہیں۔ آپس کی مخالفت کے سبب پٹھانوں نے ہند کا ملک اپنے ہاتھ سے دیا۔ جب سے میں مغلوں میں آیا اور ان کی لڑائی کا معلوم کیا تو پایا کہ ان کے پاؤں لڑائی میں نہیں ٹھہرتے اور بادشاہ ان کا اعلیٰ نسبی اور بلند مرتبے کے باعث اپنی ذات سے تدبیر ملک میں متوجہ نہیں ہوتا اور امور مملکت کی مہمات کو اپنے امرا اور ارکان دولت کو سونپ دیتا ہے۔

’اور ان کے قول و فعل پر اعتماد کرتا ہے اور دے رعیت اور سپاہی اور زمیندار جو حرام خور ہیں ان کے برآمد کار کے لیے دام رشوت میں گرفتار ہیں۔ بھلا برا سب پیسے کے زور سے اپنے کام نکالتا ہے۔۔۔ زر کی طمع کے سبب سے دوست و دشمن میں آپ فرق نہیں کرتے۔ اگر اقبال نے یاوری کی تو شیخ جی دیکھو گے یا سنو گے کہ پٹھانوں کو اس طرح قابو میں کروں کہ متفرق نہ ہونے دوں۔‘

اور شیر خان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ اس سے قبل جب پہلی بار اسے اپنے پرگنے کا انتظام سونپا گیا تھا تو اس نے دوٹوک ریا کی خاطر زمین دار اور پٹواریوں پر لگام ڈالی تھی۔

ادھر بادشاہ بابر کے انتقال کے بعد شیر خان پٹھانوں کو یکجا کرنے میں اور اپنی طاقت کو بڑھانے لگ گیا۔ ان کی پہلی اہم جنگ بنگال کے سلطان محمود کے خلاف تھی۔اور اس میں شیر شاہ نے منفرد جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ بنگال پر شیر شاہ کے قبضے نے ہمایوں کو خواب غفلت سے جگایا جو کہ بابر کی جگہ ہندوستان کے بادشاہ تھے۔

چنار کی فتح

شیر خان کی دوسری اہم فتح چنار کا قلعہ تھا جسے بابر نے پہلے فتح کیا تھا لیکن وہ اس پر تسلط قائم نہ کر سکے اور تاج خان نے بابر کی اطاعت قبول کر کے اس قلعے پر اپنا اقتدار قائم رکھا۔

تاج خان نے ایک پری جمال لاڈ ملکہ کو دل دے دیا اور ان سے شادی کر لی لیکن ان سے کوئی بچہ نہ ہوا جبکہ ملکہ کے پہلے سے تین بیٹے تھے جو اپنے والد کے ساتھ لاڈ ملکہ سے بھی بدظن تھے کہ انھوں نے ان کے باپ کو کٹھ پتلی بنا رکھا تھا۔

چنانچہ لاڈ ملکہ سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک بیٹے نے حملہ کر دیا جب تاج خان کو علم ہوا تو وہ تلوار لے کر نکل آئے۔ عباس خان سروانی کے مطابق اس نے کہا ’تو نے لاڈ پر حملہ کیا ہے اب تو میری تلوار کا مزہ چکھ۔ بیٹے نے یہ سمجھا کہ اب اس کی جان جانے والی ہے تو وہ تلوار کا زخم دے کا بھاگ نکلا لیکن تاج خان جانبر نہ ہو سکے۔‘

اس کے بعد چنار کے قلعے میں انتشار پھیل گیا۔ شیر خان کی نظر اس قلعے پر تھی کیونکہ یہ اس وقت ملک کے گنے چنے قلعوں میں سے ایک تھا اور مشرق کی فتوحات اسی کے راستے تھی۔

اب لاڈ ملکہ قلعے کی مختار کل تھی اور تین سرداروں نے مرتے دم تک ان کی اطاعت کا دم بھرا تھا لیکن شیر خان نے انھیں یہ باور کرایا کہ جب تاج خان کی موت کی خبر بادشاہ کو پہنچے گی تو وہ لاڈ ملکہ کو برطرف کر دے گا اور ان کی جان بھی سلامت نہ رہے گی۔

ودیا بھاسکر لکھتے ہیں کہ ’شیر خان کی باتیں ان سرداروں کی سمجھ میں آ گئیں اور انھوں نے شیر خان سے معاہدہ کر لیا اورلاڈ ملکہ سے کہا کہ بادشاہ سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ قلعہ شیر خان کے حوالے کر دیا جائے بلکہ اس سے نکاح کا بھی مشورہ دے ڈالا۔ وہ اس پر رضا مند ہو گئیں اور شیر شاہ کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جس لڑکے نے اس کے خاوند کو ہلاک کیا اس کے ناک کان کاٹ دیے جائیں۔‘

اس سے قبل کہ تینوں بیٹوں کو ان معاہدوں کی خبر ملتی شیر خان بارات لے کر چنار پہنچ گ

تاریخ شیر شاہی کے مصنف عباس سروانی کے مطابق ’دلہن کی جانب سے شیر شاہ کو ڈیڑھ سو نایاب ہیرے، سات من موتی، ڈیڑھ سو من سونا اور طرح طرح کے قیمتی زر و جواہرات ملے۔ تھوڑے عرصے بعد شیر خان نے قرب و جوار کے پرگنوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور ناصر خان کی بیوہ گوہر حسین سے بھی شادی کر لی جہاں سے اسے آٹھ من سونا حاصل ہوا۔‘

شیر خان نے فوج کو سارے مال و دولت کو منظم کرنے پر لگایا۔ جب ہمایوں کو شیر خان کی فتوحات کا علم ہوا تو اس نے فوراً آگرہ سے فوج لے کر لکھنؤ کی طرف کوچ کیا جہاں شیر شاہ نے ہمایوں کو ہندو بیگ کے ہاتھ خفیہ پیغام بھیجا کہ سلطان محمود نے اسے زبردستی اپنی جانب ملا لیا ہے اور جب جنگ اپنے عروج پر ہو گی تو وہ میدان سے نکل جائے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ سلطان محمود کو شکست ہوئی اور جونپور اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔

شیر خان کو مطالعے کا بہت شوق تھا اور ان کی طبیعت میں لوگوں سے ملنا اور دیس دنیا کی خبر رکھنا سرایت کر چکا تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب دوسرے سرداران عیش و عشرت میں مصروف رہتے تھے شیر خان مختلف درباروں سے حالات کے بارے میں آگاہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔

چنانچہ جب افغان سرداروں نے شیر شاہ کو قتل کرانے کا منصوبہ بنایا تو انھوں نے اس کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا کہ جونپور کے دربار میں ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ چونکہ صوبیدار بھی اس میں شریک تھا لہذا وہ خفت محسوس کرتا رہا۔ اسی طرح جب ہمایوں نے چنار کا محاصرہ کر رکھا تو شیر شاہ نے پتا لگایا کہ دوسری جگہ کیا احوال ہیں اور انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہمایوں وہاں زیادہ دن نہیں ٹھہرے گا۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا۔

کس جگہ کتنا مال و دولت ہے اس کا بھی انھیں علم رہتا چنانچہ انھوں نے کئی پرگنوں کو اپنی نگرانی میں صرف اس لیے لیا کہ اس کی دولت پر اس کا تصرف ہو سکے۔

جب شیر شاہ بابر کے ہاں تھے تو وہ فرائض کے انجام دینے کے علاوہ لوگوں سے ملنے ان سے قربت پیدا کرنے میں وقت صرف کرتا تھا۔ بہرحال انھوں نے اپنی جان پہچان اور دوستی سے افغانوں میں اتحاد پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی اور 26 جون سنہ 1539 کو چوسا کی جنگ میں جب اس نے ہمایوں کو شکست دی تو انھوں نے فریدالدین شیر شاہ کا لقب اختیار کیا اور اپنے نام پر سکے ڈھلوائے۔

اس کے اگلے سال یعنی سنہ 1540 میں قنوج کی جنگ میں ہمایوں کو ایسی شکست فاش دی کہ ہمایوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔

سنہ 1539-40 کے درمیان شیر خان نے ہمایوں کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا۔ وہ اپنے عمل میں اس قدر موقع شناس تھا کہ جب تک ہمایوں کو ہوش آتا بہت دیر ہو چکی تھی۔

اس سے قبل سنہ 1537 میں ہمایوں اس کی قابلیت کا اندازہ لگائے بغیر آگرے سے نکل پڑے۔ انھوں نے پہلی عسکری غلطی یہ کی کہ شیرخان کو بنگال میں کچلنے کے بجائے وہ بنارس کے پاس چنار کے محاصرے کے لیے رک گئے اور بنگال کو پوری طرح قبضہ کرنے کے بجائے اس کی سرحد پر وقت ضائع کرتے رہے۔

اس بات کا ذکر دوسرے تاریخ دانوں نے بھی کیا ہے۔ شیر شاہ کے پہلے تذکرہ نویس عباس خان سروانی نے لکھا ہے کہ شیر خان نے اپنے بیٹے کو احکامات دے کر قلعے میں چھوڑ دیا اور خود پاس کی ایک پہاڑی پر خمیہ زن ہو گئے جہاں سے انھوں نے ہمایوں کے سارے ذرائع کاٹ دیے اور ان کی فوج کو تقریباً مفلوج کر دیا۔

شیر خان کے مقابلے میں ہمایوں سست جنگجو تھے اور وہ شیر شاہ کی جانب سے لاحق خطرات کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے یہاں تک کہ شیر شاہ نے ہمایوں کی نہ صرف رسد بلکہ خط و کتابت کا راستہ بھی منقطع کر دیا۔

ہمایوں کی شکست کا سبب ان کی نااہلی یا فوج کی پست ہمتی نہیں تھی جیسا کہ تاریخ داں مرزا حیدر نے کہا بلکہ یہ شیر شاہ کی لچکدار جنگی حکمت عملی کی مغلوں کی سخت جنگی حکمت عملی پر فتح تھی۔‘

ہمایوں کو شکست دینے کےبعد شیر شاہ نےاس وقت تک اپنی فوج کےساتھ ہمایوں کا پیچھا کیا جب تک کہ انھوں نے ہندوستان نہ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد شیر شاہ نے کسی دوسرے بادشاہ کی طرح اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور راجپوتوں کےخلاف محاذ آرائی کی یہاں تک کہ وہ پورے شمالی ہندوستان کےبادشاہ قرار پائے۔

انتظامی صلاحیتیں

شیرشاہ کی جنگی مہمات سے کہیں زیادہ ان کی انتظامی صلاحیتوں کی تعریف ہوتی ہے۔ اگرچہ ان سے قبل علاؤالدین خلجی، محمد بن تغلق اور فیروز شاہ نے اس جانب کچھ توجہ مبذول کی تھی لیکن شیر شاہ نے انتہائی کم عرصے میں بہت ہی انمٹ نقش چھوڑے۔

ودیا بھاسکر کے مطابق انگریز مورخ کین نے شیر شاہ کے انتظام سلطنت کی خاص طور پر تعریف کرتے ہوئے لکھا: ’کسی حکومت نے، یہاں تک کہ برطانوی حکومت نے بھی ملک کے نظم و نسق میں اتنی مہارت کا ثبوت نہیں دیا جتنا شیر شاہ نے دیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ بہتر نظم و نسق اور عمدہ فوجی تنظیم کے لیے صرف کیا۔ وہ شاہی شان و شوکت کے قائل نہ تھے اور عیش و عشرت کی محفلوں سے کوسوں دور رہتے تھے۔‘

’کہا جاتا ہے کہ ایک بار ہمایوں کا سفیر شیر شاہ سے مل کر واپس آیا تو اس نے بتایا کہ شیر شاہ کڑی دھوپ میں گڑھا کھود رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ زمین پر بیٹھ گئے اور مجھ سے باتیں کرنے لگے۔‘

واضح رہے کہ شیر شاہ نے آسام سے لے کر ملتان اور سندھ تک اور کشمیر سے سدپارہ کی پہاڑیوں تک اپنی حکومت قائم کی اور ایک جیسا نظام حکومت رائج کیا۔ پوری سلطنت کو سرکاروں اور پرگنوں میں تقسیم کیا جو کہ آج کے دور میں کمشنری اور اضلاع ہیں۔

شیر شاہ نے شروع سے ہی حکومت کے زوال کی وجہ عدل کی کمی کو قرار دیا اور جب بھی انھیں کہیں سربراہی ملی تو انھوں نے نظام عدل کو قائم کرنے کی کوشش کی اور ہر شہر میں عدالت قائم کی۔

انھوں نے بنگال سے لے کر افغانستان تک ایک ایسی شاہراہ بنائی جسے گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) کے نام سے جانا گیا۔ یہی نہیں انھوں نے آگرہ سے جنوب کی سمت میں برہان پور تک اور دوسری آگرہ سے جودھ پور اور چتور تک اور تیسری لاہور سے ملتان تک سڑک بنائی اور ان سڑکوں پر تقریباً 1700 کاروان سرائے بنوائیں جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے قیام و طعام کے علیحدہ انتظامات تھے۔

یہاں ٹھنڈے اورگرم پانی کےانتظامات تھے۔ سرائے میں گھوڑوں کےکھانے پینےکابھی نظم تھا اور حکومت کی جانب سے مسافروں کو مفت کھانا ملتا تھا۔ سرائے میں مسجد کی تعمیر اور اس میں امام و موذن کی تقرری بھی کی گئی۔ مسافروں کے مال واسباب کی حفاظت کےلیے چوکیدارہوتا اور ان سب پر ایک شحنہ یعنی مینیجر ہوتا تھا۔

شیر شاہ نے سڑک کے کنارے درخت بھی لگوائے تھے تاکہ مسافر گرمیوں میں اس کی چھاؤں تلے آرام کر سکیں۔ سرائے کے انتظامات کے لیے اطراف کے کئی گاؤں کے محصول وقف تھے۔

شاہراہوں کی حفاظت کے لیے انتظامات تھے اور عامل یا شقدار کو حکم جاری کیا گیا تھا کہ ان کے علاقے میں کہیں بھی چوری یا راہ زنی ہوتی ہے اور مجرموں کا پتا نہیں چلتا تو لازم ہے کہ قریبی گاؤں کے مقدم (مکھیا) کو گرفتار کر لیں اور ان سے نقصان کی تلافی کرائی جائے لیکن اگر وہ مجرموں کا پتا چلانے میں معاونت کرتے ہیں تو انھیں کوئی سزا نہ دی جائے۔

گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے ہمارے اس بلاگ کو پڑھئے۔

شیر شاہ نے سہسرام کے قلعے کو تو مضبوط کیا ہی، انھوں نے روہتاس کا قلع بھی بنوایا جو اب پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم میں ہے جبکہ بہار میں بھی روہتاس ایک جگہ ہے جہاں شیر شاہ نے تعمیرات کروائیں۔ اس کے علاوہ دلی کے پرانے قلعے کی کئی عمارتیں بھی ان کی یادگار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ نے کالنجر کے قلعے کا محاصر کر رکھا تھا اور اس قلعے کے سامنے اتنا بلند پشتہ تیار کروایا کہ قلعے کے اندر جو نظر آتے ان کا شکار کر لیتے تھے۔

شیر شاہ کا مزار سہسرام میں ہے جو ان کے بیٹے سلیم شاہ نے ایک مصنوعی جھیل کے کنارے تعمیر کرایا ہے جو آج تک سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

کالم نگار عرفان حسین نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ ’ہم ہندوستان میں اچھی حکمرانی کے ابتدائی تصورات کے ساتھ انگریزوں کو جوڑنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہم اس انتہائی پرعزم حکمران کی منصفانہ اور اچھی حکمرانی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘

’شیر شاہ نے ثابت کیا کہ وہ ہندوستان کی طویل اور داغدار تاریخ میں سب سے کامیاب حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ صرف پانچ سال حکومت کی لیکن تقریباً پانچ صدیوں قبل حکمرانی کے وہ معیار قائم کیے کہ ان کے بعد آنے والے اس عرصے میں بنی نوع انسان کی پیشرفت کے باوجود ان تک پہنچنے میں بڑی حد تک ناکام رہے۔‘

ان کے مخالف مغل بادشاہ ہمایوں انھیں ’استاد بادشاہان‘ یا بادشاہوں کے استاد کہتے تھے۔ آروی سمتھ کے مطابق ہمایوں کے بیٹے مغل شہنشاہ اکبر نے اپنی حکمرانی کے اصولوں کی بنیاد شیر شاہ کی پالیسیوں پر رکھی اور زبردست کامیابی حاصل کی۔

اپنی کتاب ’اگر تاریخ نے ہمیں کچھ سکھایا‘ میں فرحت نسرین لکھتی ہیں کہ اگرچہ شیر شاہ کا دور حکومت چند سال ہی رہا لیکن ہندوستان کے انتظامی نظام پر اس کا اثر دیرپا تھا۔

شیرشاہ سوری کا انتقال

شیر شاہ اپنی عمر کے 60ویں برس میں تھے جب انھوں نے مہوبا کے راجپوتوں کے خلاف بندیل کھنڈ میں کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ عباس سروانی بتاتے ہیں کہ ان کی موت جمعے کے دن 22 مئی سنہ 1545 کو قلعے کی دیوار سے ٹکرا کر آنے والے ایک بارود کے گولے سے ہوئی کیونکہ جہاں وہ کھڑے تھے وہاں بارود کے بہت سے گولے تھے جس میں شیر شاہ کے ہمراہ بہت سے دوسرے افراد بھی شہید ہو گئے لیکن ان کا ایک بچہ اس بارود کے ڈھیر میں بھی زندہ سلامت رہا۔

***********                                                               

Thursday, September 9, 2021

جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا

 جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا


ویسے تو ایسٹ انڈیا کمپنی 1603 میں ہندوستان آمد کے بعد مسلسل فتوحات حاصل کرتی چلی گئی اور اس دوران دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک کمپنی نے ایک ملک پر قبضہ کر لیا۔

لیکن اسی سفر کے دوران ایک موڑ پر انھیں ایسی شرمناک شکست ہوئی تھی جس نے کمپنی کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا تھا۔

بعد میں کمپنی نے اپنے ماتھے سے یہ داغ دھونے کی سرتوڑ کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان پر فتح حاصل کرنے سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اورنگ زیب عالمگیر سے بھی جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں بری شکست کھانے کے بعد انگریز سفیروں کو ہاتھ باندھ کر اور دربار کے فرش پر لیٹ کر مغل شہنشاہ سے معافی مانگنے پھر مجبور ہونا پڑا تھا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر کے تجارت شروع کر دی تھی۔ ان علاقوں میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع سورت اور بمبئی، اور مشرق میں مدراس اور موجودہ کلکتہ شہر سے 20 میل دور دریائے گنگا پر واقع بندرگاہیں ہگلی اور قاسم بازار اہم تھے۔

انگریز ہندوستان سے ریشم، گڑ کا شیرہ، کپڑا اور معدنیات لے جاتے تھے۔ خاص طور پر ڈھاکے کی ململ اور بہار کے قلمی شورے (جو باردو بنانے میں استعمال ہوتا ہے) کی انگلستان میں بڑی مانگ تھی۔

انگریزوں کے سامانِ تجارت پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان کے کل سامان کی قیمت کا ساڑھے تین فیصد وصول کر لیا جاتا تھا۔

اسی زمانے میں صرف انگریز نہیں، بلکہ پرتگیزی اور ولندیزی تاجروں کے علاوہ کئی آزاد تاجر بھی اسی علاقے میں سرگرم تھے۔ انھوں نے مغل حکام سے مل کر اپنے لیے وہی تجارتی حقوق حاصل کر لیے جو انگریزوں کے پاس تھے۔

جب یہ خبر لندن میں کمپنی کے صدر دفتر پہنچی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ جوزایا چائلڈ کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ ان کے منافعے میں کوئی اور بھی حصہ دار بنے۔

اس موقعے پر جوزایا چائڈ نے جو فیصلہ کیا وہ عجیب ہی نہیں، غریب ہی نہیں بلکہ پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مقیم کمپنی کے حکام سے کہا کہ وہ بحیرۂ عرب اور خلیجِ بنگال میں مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ دیں، اور جو جہاز ان کے ہتھے چڑھے، اسے لوٹ لیں۔

یہی نہیں بلکہ 1686 میں چائلڈ نے انگلستان سے سپاہیوں کی دو پلٹنیں بھی ہندوستان بھجوا دیں اور انھیں ہدایات دیں کہ ہندوستان میں مقیم انگریز فوجیوں کے ساتھ مل کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیں۔

ان کے نام کی مناسبت سے اس جنگ کو ’جنگِ چائلڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اب اسے چائلڈ کا بچگانہ پن کہیں یا پھر اس کی دیدہ دلیری، کہ وہ مبلغ 308 سپاہیوں کی مدد سے دنیا کی سب سے طاقتور اور مالدار سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ہمت کر رہا ہے۔

اس زمانے میں ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ یہیں پیدا ہوتا تھا۔ معاشی طور پر اسے تقریباً وہی مقام حاصل تھا جو آج امریکہ کو ہے۔

اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کی سرحدیں کابل سے ڈھاکہ تک اور کشمیر سے پانڈی چری تک 40 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی نہیں، اورنگ زیب کی فوجیں دکن کے سلطانوں، افغانوں اور مرہٹوں سے لڑ لڑ کے اس قدر تجربہ کار ہو چکی تھیں وہ اس وقت دنیا کی کسی بھی فوج سے ٹکرا سکتی تھیں۔

دہلی کی فوج تو ایک طرف رہی، صرف بنگال کے صوبہ دار شائستہ خان کے فوجیوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق مغل فوج کی کل تعداد نو لاکھ سے بھی زیادہ تھی اور اس میں ہندوستانی، عرب، افغان، ایرانی، حتیٰ کہ یورپی تک شامل تھے۔

جب لندن سے مغلوں کے خلاف طبلِ جنگ بجا تو بمبئی میں تعینات کمپنی کے سپاہیوں نے مغلوں کے چند جہاز لوٹ لیے۔

اس کے جواب میں سیاہ فام مغل امیر البحر سیدی یاقوت نے ایک طاقتور بحری بیڑے کی مدد سے بمبئی کا محاصرہ کر لیا۔

اس موقعے پر الیگزینڈر ہیملٹن نامی ایک انگریز بمبئی میں موجود تھے جنھوں نے بعد میں ایک کتاب لکھ کر اس واقعے کا واحد آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔

وہ لکھتے ہیں: 'سیدی 20 ہزار سپاہی لے کر پہنچ گیا اور آتے ہی آدھی رات کو ایک بڑی توپ سے گولے داغ کر سلامی دی۔ انگریزوں نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ افراتفری کے عالم میں گوری اور کالی عورتیں، آدھے کپڑے نیم برہنہ پہنے ہوئے، صرف بچے اٹھائے ہوئے بھاگی چلی جا رہی تھیں۔'

ہیملٹن کے مطابق سیدی یاقوت نے قلعے سے باہر کمپنی کے علاقے لوٹ کر وہاں مغلیہ جھنڈا گاڑ دیا، اور جو سپاہی جو سپاہی مقابلے کے لیے گئے انھیں کاٹ ڈالا، اور باقیوں کو گلے میں زنجیریں پہنا کر بمبئی کی گلیوں سے گزارا گیا۔'

بمبئی کا علاقہ خاصے عرصے سے پرتگیزیوں کے قبضے میں تھا۔ جب انگلستان کے بادشاہ نے پرتگالی شہزادی سے شادی کی تو یہ بندرگاہ اس کے جہیز میں انگریزوں کو مل گئی اور انھوں نے وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کر کے تجارت شروع کر دی۔

رفتہ رفتہ نہ صرف سمندر پار سے انگریز تاجر، سپاہی، پادری، معمار اور دوسرے ہنرمند یہاں آ کر آباد ہونے لگے، بلکہ ہہت سے ہندوستانیوں نے بھی یہاں رہائش اختیار کر لی اور شہر کی آبادی تیزی سے پھیلنے لگی۔

اب یہی آبادی بھاگ کر قلعے میں پناہ گزین تھی اور قلعہ سیدی یاقوت کے نرغے میں تھا۔ جلد ہی اشیائے خورد و نوش ایک ایک کر کے ختم ہونے لگیں۔ دوسری طرف بیماریوں نے ہلہ بول دیا اور قلعے میں محصور انگریز بمبئی کے مسموم موسم کا شکار ہو کر یکے بعد دیگرے مرنے لگے۔

ایک اور سانحہ یہ گزرا کہ کمپنی کے ملازم آنکھ بچا کر بھاگ نکلتے تھے اور سیدھے جا کر سیدی یاقوت سے جا ملتے تھے۔ یہی نہیں، بلکہ ہیملٹن کی گواہی کے مطابق ان میں سے کئی مذہب تبدیل کر کے مسلمان بھی ہو گئے۔

سیدی اگر چاہتے تو حملہ کر کے قلعے پر قبضہ کر سکتے تھے، لیکن انھیں امید تھی کہ جلد ہی قلعہ پکے ہوئے آم کی طرح خود ہی ان کی جھولی میں آ گرے گا، اس لیے انھوں نے دور سے گولہ باری ہی پر اکتفا کی۔

یہ صورتِ حال ملک کے مشرقی حصے میں بھی پیش آئی جہاں بنگال کے صوبے دار شائستہ خان کے دستوں نے ہگلی کے مقام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قلعے کو گھیرے میں لے لیا اور آمد و رفت کے تمام راستے مسدود کر دیے۔

بنگال کا محاصرہ تو جلد ہی ختم ہو گیا اور دونوں فریقوں نے صلح کر لی، لیکن بمبئی میں یہ سلسلہ 15 ماہ تک دراز ہو گیا۔ آخر انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے اپنے دو سفیر اورنگ زیب کے دربار میں بھجوا دیے تاکہ وہ شکست کی شرائط طے کر سکیں۔

ان سفیروں کے نام جارج ویلڈن اور ابرام نوار تھے۔ یہ کئی ماہ کی بےسود کوششوں کے بعد بالآخر ستمبر 1690 کو آخری طاقتور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار تک رسائی حاصل کرنے کامیاب ہو گئے۔

دونوں اس حال میں پیش ہوئے کہ دونوں کے ہاتھ مجرموں کی طرح سے بندھے ہیں، سر سینے پر جھکے ہیں، اور حلیہ ایسا ہے کہ کسی ملک کے سفارتی نمائندوں کی بجائے بھکاری لگ رہے ہیں۔

دونوں سفیر مغل شہنشاہ کے تخت کے قریب پہنچے تو عمال نے انھیں فرش پر لیٹنے کا حکم دیا۔

سخت گیر، سفید ریش بادشاہ نے انھیں سخت ڈانٹ پلائی اور پھر پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

دونوں نے پہلے تو گڑگڑا کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جرائم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی، پھر کہا کہ ان کا ضبط شدہ تجارتی لائسنس پھر سے بحال کر دیا جائے اور سیدی یاقوت کو بمبئی کے قلعے کا محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔

ان کی عرضی اس شرط پر قبول ہوئی کہ انگریز مغلوں سے جنگ لڑنے کا ڈیڑھ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کریں، آئندہ فرماں برداری کا وعدہ کریں اور بمبئی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر جان چائلڈ ہندوستان چھوڑ دے اور دوبارہ کبھی یہاں کا رخ نہ کرے۔

انگریزوں کے پاس یہ تمام شرائط سر جھکا کر قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، سو انھوں نے تسلیم کر لیں اور واپس بمبئی جا کر سیدی یاقوت کو اورنگ زیب کا خط دیا، تب جا کر اس نے محاصرہ ختم کیا اور قلعے میں بند انگریزوں کی 14 مہینوں بعد گلوخلاصی ہوئی۔

ہیملٹن نے لکھا ہے کہ جنگ سے قبل بمبئی کی کل آبادی 700 سے 800 کے درمیان تھی، لیکن جنگ کے بعد '60 سے زیادہ لوگ نہیں بچے تھے۔ بقیہ تلوار اور طاعون کی نذر ہو گئے۔'

آنے والے برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس خجالت آمیز جنگ کے واقعات کو انگلستان کے عوام تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ چنانچہ کمپنی کے پادری جان اوونگٹن نے چھ سال بعد جب اس جنگ کا احوال لکھا تو اس نے تمام تر ملبہ مغلوں کی وعدہ خلافی پر ڈال دیا۔ اس پر کمپنی نے اسے 25 پاؤنڈ کا انعام بھی دیا جو اس زمانے میں خاصی بڑی رقم تھی۔

اوونگٹن اپنی کتاب میں جگہ جگہ انگریزوں کی بےجگری کا احوال بیان کرتا ہے جنھوں نے دس گنا بڑے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہی نہیں، اور دعویٰ کرتا ہے کہ سیدی یاقوت کو شکست ہوئی تھی۔ یہی نہیں، بلکہ اس نے اپنے تذکرے میں مغل دربار میں انگریز سفیروں کے برتاؤ کا ذکر بھی سرے سے گول کر دیا ہے۔

ہیملٹن نے کتاب تو لکھی لیکن اسے شائع ہوتے ہوئے 40 برس بیت گئے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے اس قدر پانی بہہ چکا تھا کہ اسے کچھ زیادہ توجہ نہیں مل سکی۔

یہاں ایک دلچسپ سوال اٹھتا ہے کہ اگر اورنگ زیب انگریزوں کو معافی نہ دیتے اور انھیں ہندوستان سے نکال باہر کرتے تو آج برصغیر کی تاریخ کیا ہوتی؟

Thursday, June 17, 2021

ہندوستان کے پہلے مسلمان سلطان قطب الدین ایبک

    ہندوستان کے پہلے مسلمان  سلطان قطب الدین  ایبک

یہ یہ تقریبن نو آٹھ سو سال قبل کی بات ہے جب سلطان معزالدین (شہاب الدین) غوری افغانستان کے شہر اور اپنے دارالحکومت غزنی میں عیش و نشاط کی محفلیں آراستہ کیا کرتے تھے اور مصاحبوں کے ہنر اور ان کی عقل و دانش کی باتیں سُنتے تھے۔

اسی قسم کی ایک مجلس میں روایتی محفل سجی ہوئی تھی اور حاضرین اپنی اپنی کارگزاریوں اور حاضر جوابیوں اور ابیات و غزل سے بادشاہ کو محظوظ کر رہے تھے، اور انعام و اکرام سے نوازے جا رہے تھے۔اس شب سلطان غوری اپنے درباریوں اور اپنے غلاموں کو تحفے تحائف، زر و جواہرات اور سونے چاندی سے مالا مال کر رہے تھے۔ ان میں ایک درباری اور غلام ایسا تھا جس نے دربار سے باہر آنے کے بعد اپنا سارا انعام اپنے سے کم حیثیت ترکوں، پردہ داروں، فراشوں، غلاموں اور ديگر کارپردازوں کو بخش دیا۔

جب اس کا چرچاعام ہوا تو یہ بات ہوتے ہوتے سلطان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اوران کےدل میں اس دریا دل صفت انسان کے بارےمیں جاننےکی خواہش پیدا ہوئی کہ آخر یہ کون فیاض شخص ہے۔سلطان کو بتایا گیا کہ یہ ان کاغلام (قطب الدین) ایبک ہے۔

غوری سلطنت کےتاریخ داں منہاج السراج (ابو عثمان منہاج الدین بن سراج الدین) نےاپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ میں بھی اس واقعےکا ذکر کیا ہے۔انھوں نے نہ صرف ایبک کا دور دیکھا بلکہ ان کےبعد سلطان شمس الدین التتمش اور غیاث الدین بلبن کا دور بھی دیکھا تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ محمد غوری کو ایبک کی فراخدلی نے بہت متاثر کیا اور انھوں نے ایبک کو اپنے مقربین میں شامل کر لیا، اور انھیں تخت گاہ اور ایوان دربار کے اہم کام سونپے جانے لگے۔ یہاں تک کہ وہ سلطنت کے بڑے سردار اور کارپرداز بن گئے۔ انھوں نے اپنی لیاقت سے اس قدر ترقی کر لی کہ انھیں امیر آخور بنا دیا گیا۔امیر آخور اس زمانے میں شاہی اصطبل کے سردار کا عہدہ ہوتا تھا اور اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ انسائکلوپیڈیا آف اسلام (دوسری اشاعت) میں اسے ایک ہزار کا سردار کہا گیا ہے جس کے ماتحت تین سردار ہوتے تھے جو کہ 40 کے سردار کہے جاتے تھے۔

قطب الدین ایبک وہ مسلم حکمراں ہیں جنھوں نے ہندوستان میں ایک ایسی سلطنت کی بنا ڈالی جس پر مسلم حکمراں آنے والے 600 سال تک یعنی سنہ 1857 کی غدر تک حکومت کرتے رہے۔انھیں غلام سلطنت یا خاندانِ غلاماں کا بانی کہا جاتا ہے لیکن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں عہد وسطی کی تاریخ کے ماہر اور پروفیسر نجف حیدر کا کہنا ہے کہ انھیں یا ان کے بعد آنے والوں کو غلام سلاطین نہیں کہا جا سکتا۔ انھیں ترک یا مملوک کہا جا سکتا ہے۔

دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر رحما جاوید راشد بتاتےہیں کہ مسلم حکومتوں میں غلام کا تصور بازنطینی غلام کےتصورسےبہت مختلف ہوتا تھا اور یہی وجہ ہےکہ مسلم دور میں غلاموں کا مرتبہ بعض اوقات جانشین کیطرح ہوتا تھا۔چنانچہ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محمود اور ایاز نظر آتے ہیں جس کو محمود غزنوی اپنی اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔علامہ اقبال کی معروف نظم ’شکوہ‘ کا ایک شعر اس جانب اشارہ کرتا ہےکہ اسلام میں غلاموں کی کیا حیثیت تھی۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

جن لوگوں نے فلم رضیہ سلطانہ، باہو بلی، یا ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی دیکھ رکھا ہے، ان کے لیے غلاموں کے حالات اور اہمیت کو سمجھنا آسان ہوگا۔

'رضیہ سلطانہ' میں رضیہ کا محافظ یاقوت ایک حبشی غلام ہے جو اپنی جانثاری سے ملکہ کے دل میں جگہ بناتا ہےجبکہ 'باہو بلی' میں 'کٹپپا' اپنے غلامی کےتقاضوں کے تحت شہزادے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جبکہ ارطغرل غازی میں بازنطینی غلام اور سونے کی کان کنی کے ماہر حاجا توریان کی خرید و فروخت اور آزادی کے ساتھ خود ارطغرل کا غلاموں کی تجارت کرنےوالےسمکو کے ہاتھ لگنےکا منظر اور پھر تمام غلاموں کی رہائی دکھائی گئی ہے۔بہرحال نجف حیدر بتاتے ہیں کہ 'یہ کہا جاتا ہے کہ جب محمد غوری سے کسی نےپوچھا کہ آپ کو تو کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے جس سے آپ کو آنے والے زمانےمیں یاد رکھا جائے گا تو انھوں نےکہا تھا کہ میرے پاس بہت ساری اولاد نرینہ ہیں اور وہ میرے نام کو باقی رکھنے کےلیےکافی ہیں۔'

پروفیسر نجف حیدر بتاتےہیں کہ ان کا اشارہ ان کےمخصوص غلاموں کی جانب تھا جن میں یلدوز، ایبک اورقباچہ شامل تھے۔رحما جاوید بتاتی ہیں کہ غوری نےان میں آپس میں رشتہ داری بھی قائم کی تھی اوریلدوز کی ایک بیٹی کی شادی ایبک سے کروائی تھی جبکہ ایک بیٹی کی شادی قباچہ سےکروائی تھی تاکہ ان میں گہرا تعلق قائم ہو اور وہ رشتےداری کےتحت ایک دوسرےکی مخالفت کےبجائےایک دوسرے کی معاونت کریں۔آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیزمیں ساؤتھ ایشین اسلام کے پروفیسرمعین احمد نظامی بتاتےہیں کہ ایبک کوغلام سلطنت کےبانی کےطورپرنہیں بلکہ انڈیا میں ترک یا مملوک سلطنت کے بانی کےطورپریاد کیاجانا چاہیے۔

معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ قطب الدین ایبک کا تعلق ترک قبیلے ایبک سے تھا اور بچپن میں ہی وہ اپنے کنبے سے علیحدہ ہو گئے اور انھیں غلام بازار میں بیچنے کے لیے نیشا پور لایا گیا۔ ایک تعلیم یافتہ شخص قاضی فخرالدین عبد العزیز کوفی نے انھیں خریدا اور اپنے بیٹے کی طرح ان کے ساتھ سلوک کیا اور ان کی تعلیم اور فوجی تربیت کی مناسب دیکھ بھال کی۔

تاریخ کی معرف کتاب 'طبقات ناصری' میں منہاج السراج لکھتے ہیں کہ ایبک کے نئے والی قاضی فخرالدین عبد العزیز کوئی اور نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ کی آل میں شامل تھے اور نیشاپور و مضافات کے حاکم تھے۔وہ لکھتے ہیں: 'قطب الدین نے قاضی موصوف کی خدمت گزاری کے ساتھ ان کے بیٹوں کی طرح کلام اللہ کی تعلیم حاصل کی اور سواری و تیر اندازی کی تعلیم بھی پائی۔ چنانچہ تھوڑی ہی مدت میں وہ صفت مردانگی سے متصف ہو گیا اور اس کی ستائش کی جانے لگی۔'

کہتے ہیں کہ قاضی کی موت کے بعد ان کے فرزندوں نے ایبک کو پھر سے ایک تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا جو انھیں غزنہ کے بازار لے آیا جہاں سے سلطان غازی معزالدین سام (سلطان محمد غوری) نے انھیں خرید لیا۔'طبقات ناصری میں لکھا ہے کہ 'اگرچہ ایبک قابل ستائش اوصاف اور برگزیدہ محاسن کا حامل تھا لیکن اس کی ایک کمزوری کے سبب اسے 'ایبک شل' کہا جاتا تھا یعنی ایسا شخص جس کی ایک انگلی کمزور ہو۔ اور درحقیقت ان کی ایک انگلی ٹوٹی ہوئی تھی

قطب الدین کے بارے میں کہاجاتا ہےکہ ترک قبیلے ایبک سےتعلق رکھتےتھےلیکن ان کے والد اور قبیلے کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا سن پیدائش 1150 درج ہے لیکن قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بہر حال ایبک کا مطلب ترکی زبان میں 'چاند کا آقا یا مالک' ہوتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ قبیلے کو یہ کنیت اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ملی تھی یعنی اس قبیلے کے لوگ مرد و زن دونوں انتہائی حسین و جمیل ہوتے تھے۔ لیکن قطب الدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے حسین نہیں تھے۔

لیکن اردو کے معروف شاعر اسد اللہ خان غالب نے اپنی ایک فارسی غزل میں خود کو ترکی کے ساتھ ساتھ ایبک بھی کہا ہے اور ایک طرح سے چاند سے زیادہ خوبصورت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ غالب نے لکھا:

ایبکم از جماعۂ اتراک

در تمامی ز ماہ دہ چندیم

ان کا کہنا ہے کہ ہم ترکوں کے ایبک قبیلے سے آتے ہیں اس لیے ہم چاند سے دس گنا زیادہ خوبصورت ہیں

بہر حال معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ ایبک کا عروج تیزی سے ہوا اور انھوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کے بدولت معزالدین کی توجہ جلد ہی اپنی طرف مبذول کرلی۔

نھوں نے بتایا کہ ایبک کو پہلے ہی امیر آخور بنایا جا چکا تھا لیکن جب محمد غوری نے ہندوستان کی جانب اپنی مہمات کا آغاز کیا تو ایبک نے ترائن کی دوسری جنگ میں اپنی جنگی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے سلطان غوری کو فتح نصیب ہوئی اور انھیں دو اہم فوجی عہدوں ’کہرام‘ اور ’سمانہ‘ کا کماندار بنایا گیا۔

ترائن کی پہلی جنگ میں تو محمد غوری کو شکست ہوئی تھی لیکن دوسری جنگ کئی لحاظ سے فیصلہ کن رہی۔

کہا جاتا ہے کہ اس میں چہامن یعنی راجپوت راجہ پرتھوی راج چوہان کو شکست ہوئی۔ پہلی شکست کے ایک سال بعد غوری ایک لاکھ سے زیادہ افغان، تاجک اور ترکوں پر مبنی بڑی فوج کے ساتھ ملتان اور لاہور کے راستے ترائن (آج دہلی سے ملحق ہریانہ کے کرنال ضلعے میں تروری کا علاقہ کہلاتا ہے) پہنچا جہاں پرتھوی راج کی تین لاکھ گھڑ سواروں اور تین ہزار ہاتھیوں پر مشتمل فوج نے اس کا راستہ روکا اور شدید جنگ ہوئی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق معروف پروفیسر اور تاریخ داں محمد حبیب اور خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب 'اے کمپریہینسو ہسٹری آف انڈیا' (جلد پنجم) میں لکھا ہے کہ اس تعداد میں غلو کا عنصر ہے کیونکہ اس زمانے میں کسی چیز کی اہمیت کے لیے تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رواج تھا۔

بہر حال ترائن کی دوسری جنگ (1192) میں محمد غوری نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ اپنی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا اور انھیں مختلف پوزیشن پر تعینات کر دیا جبکہ 12 ہزار افراد پر مشتمل فوج کو جنگ میں اتارا جس نے حکمتِ عملی کے تحت پسپائی اختیار کی۔

پرتھوی راج کی فوج نے یہ سمجھا کہ انھیں فتح نصیب ہو گئی ہے اور وہ اس کے پیچھے ان کا کام تمام کرنے کے لیے چل پڑے۔لیکن پھر چار جگہ مختلف سپہ سالاروں کی قیادت میں تعینات فوج نے پرتھوی راج کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا جبکہ مراجعت کرنے والی فوج بھی واپس مڑ کر لڑنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ پرتھوی راج چوہان اپنے ہاتھی سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوا اور میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کی۔

معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ اس جنگ سے برصغیر میں ایبک کے سیاسی کریئر کا آغاز ہوا اور بالآخر وہ سنہ 1206 میں معزالدین غوری کی موت کے بعد دہلی کے تخت تک جا پہنچے۔

تاریخ دانوں کا متفقہ طور پر کہنا ہے کہ سلطان معزالدین محمد غوری کےاچانک مارے جانےکیوجہ سےوہ کسی کواپنا جانشین مقرر نہیں کرسکےتھے چنانچہ ان کی زندگی میں ان کا جو غلام جہاں جس اعلیٰ عہدے پر فائز تھا وہ وہاں کا حاکم بن بیٹھا لیکن ایبک اپنی فراست اور سیاسی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئےاصل جانشین کا عہدہ حاصل کرنےمیں کامیاب ہو گئے۔

انتقال کے بعد ان کے تین جانشینوں دہلی کے حاکم قطب الدین ایبک، ملتان کے حاکم ناصر الدین قباچہ اور غزنی کے حاکم تاج الدین یلدوز کے درمیان اقتدار کے لیے مقابلہ شروع ہو گیا۔ رحما جاوید کا کہنا ہے کہ ان کا ایک چوتھا غلام بختیار خلجی تھا جو کہ اس رسہ کشی میں شامل نہیں ہوا اور وہ بہار اور بنگال کی طرف چلا گیا اور خود کو وہاں کا فرمانروا کہا۔

اس بابت معین احمد نظامی کا کہنا ہے کہ یہ اس لیے تھا کہ وہ غلام تھے اور انھیں آزادی نہیں ملی تھی اس لیے انھیں سلطان کے طور پر قبول کیا جانا مشکل تھا۔

بہرحال انھوں نے سنہ 1208 میں غزنہ کا سفر کیا جہاں سے وہ چھ ماہ بعد واپس آئے اور اس دوران غزنہ میں محمد غوری کے ایک جانشین نے ان کی آزادی کا اعلان کیا اور پھر انھوں نے سنہ 09-1208 میں سلطان کی خطاب اپنایا۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہی انھوں نے اپنا نام قطب الدین (یعنی دین کا محور) رکھا۔

اس سے قبل ایبک اپنے آقا محمد غوری کی توسیع پسندانہ حکمت عملی پر عمل کرتے رہے اور اس دوران انھوں نے 1193 میں اجمیر اور اس کے بعد چار ہندو ریاستوں سرسوتی، سمانہ، کہرام اور ہانسی کو فتح کیا اور پھر قنوج کے راجہ جے چند کو چندوار کی جنگ میں شکست دے کر دہلی کو حاصل کیا۔ ایک سال کے اندر ہی محمود غوری کا تسلط راجستھان سے لے کر گنگا جمنا کے دوآبے کے علاقوں تک تھا۔

ایبک کی مزید فتوحات کے بارے میں منہاج السراج رقطراز ہیں: 'کہرام سےقطب الدین نے میرٹھ کی طرف پیش قدمی کی اور 587 ہجری میں اسے فتح کر لیا۔ میرٹھ سے اٹھا تو 588 ہجری میں دہلی پر قابض ہو گیا۔ 590 میں وہ سلطان کے ہم رکاب تھا اور بنارس کے راجہ جےچند کیجانب پیش قدمی کی۔ سنہ 591 میں ٹھنکر فتح کیا یہاں تک کہ مشرقی جانب اسلامی سلطنت چین تک پہنچ گئی۔

بہرحال ایبک کو دوسروں پر غلبہ حاصل ہوا اور 25 جون سنہ 1206 کو لاہور کے قلعے میں ان کی تاج پوشی ہوئی۔ لیکن انھوں نے سلطان کا خطاب نہیں اپنایا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی سکہ جاری کیا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی خطبہ پڑھایا۔

ایبک عہد وسطی کے دوسرے کسی بھی مسلم حکمراں کی طرح فن تعمیر میں شوق رکھتے تھے چنانچہ انڈیا میں غوری حکومت کی کامیابیوں کی یادگار کے طور پر انھوں نے دہلی میں سنہ 1199 میں ایک مینار کی تعمیر شروع کروائی۔ اس طرح کے مینار غزنی میں بھی ہیں اور غور صوبے میں دریائے ہاری کے کنارے جام مینار اس سے قبل تعمیر کیے جا چکے تھے۔

قطب مینار کے ساتھ قوۃ الاسلام مسجد کی بھی بنیاد انھوں نے ڈالی جبکہ اجمیر کی فتح کے بعد انھوں نے ایک مسجد کی تعمیر کروائی جسے ڈھائی دن کا جھونپڑا کہا جاتا ہے۔ یہ شمالی ہند میں بننے والی پہلی مسجد کہلاتی ہے جو آج تک موجود ہے۔ در اصل اسے جلدی جلدی ڈھائی دن میں کھڑا کیا گیا تھا لیکن پھر اس پر موجودہ افغانستان کے ہرات سے تعلق رکھنے اولے معمار ابوبکر نے مسجد کا نقشہ یا ڈيزائن تیار کیا اور یہ مسجد سنہ 1199 میں بن کر تیار ہوئی جسے ہند اسلامی طرز تعمیر کا پہلا شاہکار کہا جاتا ہے۔

قطب مینار

اسی طرح قطب الدین نےقطب مینار کی بنا ڈالی جسےانکےبعد شمس الدین التتمش کےزمانےمیں مکمل کیاجاسکا۔ یہ اینٹ سے تعمیردنیا کا سب سےبلند مینار ہےجس کی پانچ منزلیں ہیں اور ان پرآیات قرآنی کندہ ہے۔اس کےساتھ ہی ایبک نےقوت الاسلام مسجد کی بنا ڈالی جس کی باقیات آج بھی قطب مینارکےساتھ دیکھےجا سکتےہیں۔  تاریخ داں رحما جاوید اشرف کہتے ہیں کہ جتنے بھی فارسی ماخذ ہیں اس میں اسے جامع مسجد کہا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک جامع مسجد تھی جسے قبۃ الاسلام یعنی اسلام کی پناہ گاہ یا اسلام کا گنبد کا نام دیا گیا تھا لیکن سرسید احمد خان نے اپنی تصنیف ’آثار الصنادید‘ میں اسے قوت الاسلام مسجد کا نام دیا ہے۔

رحما جاوید  کہتے ہیں کہ جب منگولوں نے اسلامی دنیا کو تہ و بالا کر دیا تھا تو ہندوستان کی مسلم حکومت اس سے محفوظ تھی اور دنیا بھر کے صاحب علم اور ہنر ادھر کا رخ کر رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسے منہاج السراج نے دہلی کو قبۃ الاسلام یعنی اسلام کی پناہ گاہ بھی کہا ہے۔

اس مسجد میں ہند اسلامی طرز تعمیر نمایاں ہے اور اسے ہندوستان کے کاریگروں نے بنایا جو کہ عربی رسم خط سے نابلد تھے لیکن پتھروں پر کندہ کرنے کے ماہر کاریگر تھے۔ اس میں کچھ جین منادر کی باقیات بھی نظر آتی ہیں جنھیں ستون کے طور پر استعمال کیا گيا ہے اور اس میں مجسمے بھی بنے ہیں لیکن ان کے نقش کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ یہ مسجد بھی شمس الدین التتمش کے عہد میں مکمل ہوئی۔

سنہ 1208-09 میں سلطان بنے کے بعد ایبک کا زیادہ تر وقت لاہور میں گزار اور موسم برسات کے بعد گلابی جاڑے کی آمد کے وقت نومبر میں ایک روز وہ اپنے بہادر جنگجوؤں اور سپہ سالاروں کے ساتھ چوگان یعنی پولو کھیل رہے تھے کہ گھوڑے کی زین ٹوٹ گئی اور وہ زمین پر آ رہے۔

منہاج السراج نےاس کےمتعلق اس طرح لکھا ہے کہ 'جب موت آئی تو 607 ہجری (1210ء) میں چـوگان کھیلتا ہوا گھوڑے سے گرا، گھوڑا اس پرآ گرا، زین کےسامنے کا اوپر اٹھا ہواحصہ قطب الدین کےسینےمیں پیوست ہو گیا اور اس نے وفات پائی۔'

قطب الدین کو لاہور میں ہی دفن کر دیا گیا اور زمانے کے تغیر کے ساتھ آج بھی ان کا مزار لاہور میں موجود ہے جہاں ہر سال عرس بھی لگتا ہے۔

معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ 'عصری اور بعد کے تمام ذرائع نے ایبک کی فوجی صلاحیتوں کے علاوہ ان کی وفاداری، سخاوت، جرات اور ان کی انصاف پسندی جیسی خصوصیات کی تعریف کی ہے۔ وہ اپنی سخاوت کی وجہ سے لاکھ بخش (لاکھ دینے والے) کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی فیاضی کی کہانیاں 17 ویں صدی کے آخر میں دکن میں عام گردش میں تھیں جب معروف سیاح فرشتہ بتاتے ہں کہ فراخ دلی کے حامل لوگوں کو اس وقت کے ایبک کے نام سے جانا جاتا تھا۔'

کہا جاتا ہے کہ دہلی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ان کی فیاضی سے محروم رہا ہو۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حا‌فظ قرآن تھے اور اتنی اچھے لحن میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے کہ انھیں قرآن خوان بھی کہا گیا۔

ایبک نے داد و دہشت کا جو معیار قائم کیا اس پر بعد میں کوئی بھی پورا نہ اترا۔ چنانچہ معین احمد نظامی کا کہنا ہے ایبک کو سخاوت کا مترادف سمجھا جانا واقعی ایک ایسا خراج تحسین ہے جو کسی دوسرے فرمانروا کے حصے نہیں آیا۔ جنگ اور مہمات میں زندگی گزارنے کے باوجود انھوں نے تاریخ اور آنے والی نسلوں میں جو تاثر چھوڑا وہ ان کا انصاف اور ان کی سخاوت تھا۔'

***********

Sunday, June 13, 2021

آفریدی قبائل کا درہ خیبر اور سکندر اعظم کی پسپائی

 آفریدی قبائل کا درہ خیبر اور سکندر اعظم کی پسپائی

 آفریدی قبائل کا درہ خیبر  وہ علاقہ ہے ا، جہاں سے گزرنے والے آفریدی قبائل کو حراج اور بڑے بڑے فاتحین  کو بھی سر جکھانا پڑتا تھا

تقریباً تمام مؤرخین نے آفریدی قبائل کو وہ بلائیں لکھا ہے جو جنگ سے محبت کرتے ہیں اور یہی محبت ان کے دشمن کی بدترین شکستوں کا باعث بنتی رہی۔

درّہ خیبر، جہاں سے افغانستان جانے اور وہاں سے یہاں آنے والوں کو راستے کے حصول کے لیے یہاں پر آباد آفریدی قبائل کو خراج دینا پڑا اور دنیا کو فتح کرنے والے بڑے بڑے فاتحین کو بھی یہاں سر جھکانا پڑا۔

غیر ملکی اور مقامی لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ جتنے زیادہ حملے درّہ خیبر پر ہوئے اتنے شاید ہی دنیا کے کسی شاہراہ یا گزر گاہ پر ہوئے ہوں گے۔

دنیا کا یہ مشہور درّہ خیبر پشاور سے 11 میل کے فاصلے پر یہاں بنے تاریخی دروازے باب خیبر سے شروع ہوتا ہے اور یہاں سے اندازاً 24 میل یعنی طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد پر ختم ہوتا ہے جہاں سے لوگ ڈیورنڈ لائن عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔

باب خیبر اور طورخم کے بیچ کا یہ علاقہ یہاں کسی بھی بری نیت سے آنے والے کے لیے خطروں سے اتنا بھرپور ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ دنیا اور اس خطے میں فاتح کہلانے والا کوئی حکمران اس درّے اور اس کے مکینوں کو قابو نہیں کر سکا۔

اس راستے کے دونوں طرف تقریباً ڈیڑھ ہزار فٹ اونچی پہاڑی چٹانیں اور ان کے بیچ ناقابل دریافت غار واقع ہیں۔ یہ درّہ یہاں کے لوگوں کے لیے جنگی لحاظ سے ایک ایسا قدرتی حصار ہے جسے دنیا کے کسی جنگی ہتھیار سے فتح نہیں کیا جا سکتا۔

اس کا سب سے خطرناک حصہ تاریخی علی مسجد کا مقام ہے جہاں پر یہ درّہ اتنا تنگ ہوجاتا ہے کہ اس کی چوڑائی صرف چند میٹر رہ جاتی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کی پہاڑی چوٹیوں پر چھپے چند قبائل بھی سینکڑوں فٹ نیچے راستے سے گزرنے والے ہزاروں فوجیوں کے لیے قیامت بپا کرتے تھے اور اُنھیں زچ کرکے پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اُنھیں لاشیں اٹھانے کے لیے بھی ان قبائل کی بات ماننی پڑتی تھی۔

علی مسجد

پشاور شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تحصیل جمرود میں بنے اس دروازے کو اگر دشمن کے لیے موت کی وادی کا دروازہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

علی مسجد

اس دروازے سے ہی پورے درّہ خیبر کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے۔ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں یہ دروازہ بنایا گیا۔ جون 1963 میں مکمل ہونے والے اس دروازے کی تعمیر اس وقت کے کیمبل پور اور آج کے اٹک کے دو مستریوں گاما مستری اور اُن کے بھتیجے صادق مستری نے کی۔

یہ تعمیر تقریباً دو سال میں مکمل ہوئی۔ اس دروازے پر مختلف تختیوں پر ان حکمرانوں اورحملہ آوروں کے نام نصب ہیں جنھوں نے اس راستے کو استعمال کیا۔

اس دروازے کے قریب بحری جہاز نما قلعہ سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے تعمیر کروایا تھا تاکہ درہ خیبر پر نظر رکھنے کے لیے فوجی یہاں رکھے جا سکیں۔

اس علاقے کی زیادہ تر آبادی آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ کوکی خیل سے تعلق رکھتی ہے۔

پروفیسرڈاکٹر اسلم تاثیرآفریدی خیبر سے متصل ضلع اورکزئی میں گورنمنٹ ڈگری کالج غلجو کے پرنسپل ہیں اور یہاں کی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایران کو فتح کرنے کے بعد پختونوں کے صوبے گندھارا کا قصد کرنے والے سکندرِ اعظم کی فوجوں کو اسی درّہ خیبر پر سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اُنھیں اپنی ماں کی ہدایت پر راستہ بدلنا پڑا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ آفریدی قبائل کی اس سخت مزاحمت کی وجوہات جاننے کے لیے سکندرِ اعظم کی ماں نے اُنھیں ہدایت کی کہ اس علاقے کے چند مکینوں کو دعوت پر اس کے پاس بھیجا جائے۔

آفریدی قبائل کے یہ سردار سکندرِ اعظم کی ماں کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے جہاں پر اُنھوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ میں سے سردار کون ہے۔

اس پر ہر کسی نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہی سردار ہے اور یہ سب آپس میں الجھ پڑے۔ یہیں پر سکندرِ اعظم کی ماں کو احساس ہو گیا کہ یہ لوگ جب اپنوں میں سے کسی کو خود سے بڑا ماننے کو تیار نہیں تو وہ سکندرِ اعظم کو کیا مانیں گے۔

ماں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ وہ ہندوستان جانے کے لیے درّہ خیبر کے راستے کا خیال دل سے نکال لے، یوں سکندرِ اعظم کو اپنا راستہ بدلنا پڑا اور وہ باجوڑ کے راستے اپنی منزل کی طرف چلے۔

سکندرِ اعظم کے آج کے پاکستان کے علاقوں میں داخلے کے حوالے سے سابق انگریز گورنر سر اولف کیرو نے اپنی کتاب ’پٹھان‘ میں لکھا ہے کہ سکندر پشاور میں داخل نہیں ہوسکا اور اس نے جو دریا عبور کیے وہ کوس یوسپلا اورگوریس تھے جن کے درمیان ایک پہاڑی چشمہ واقع تھا جو صرف کونٹر یعنی پنج کوڑہ کا بالائی حصہ ہوسکتا ہے جہاں سے آج کل ڈیورنڈ لائن گزرتی ہے اور اس نے آج کے باجوڑ کے ایری گایوں کے مقام نواگئی کا راستہ اختیار کیا۔ 

معروف صحافی اللہ بخش یوسفی اپنی مشہور کتاب تاریخ آفریدی میں لکھتے ہیں کہ درّہ خیبر کے علاقے میں بڑی تعداد میں بدھ مت سے متعلق بہت زیادہ آثارِ قدیمہ نمودار ہوئے تاہم اپنے اعتقادات کی بدولت پختون ان مورتیوں کے خلاف تھے اور اُنھیں توڑ دیا کرتے تھے۔

اسی علاقے میں لنڈی خانہ کے قریب ایک پہاڑ پر عہد قدیم کی ایک قلعہ نما عمارت ہے جسے یہاں کےآفریدی ’کافر کوٹ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

اللہ بخش یوسفی لکھتے ہیں کہ سطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملوں میں پختونوں سے دشمنی مول لینے کے بجائے ان پر اعتماد کیا اور اُنھیں اپنا فخر کہہ کر متعارف کرواتے۔

جن سرداروں نے محمود غزنوی کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ان میں ملک خانو، ملک عامو، ملک داور، ملک یحییٰ، ملک محمود، ملک عارف، ملک غازی، ملک شاہد اور ملک احمد وغیرہ شامل ہیں۔ محمود غزنوی نے سومنات کو فتح کیا تو پختون بے جگری سے لڑے اور اس طرز لڑائی نے اُنھیں پختونوں کو خان کا نام دینے پر مجبور کیا اور کہا کہ صرف پختون ہی خان کہلانے کے لائق ہیں۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہندوستان فتح کرنے کی خواہش میں جب ظہیرالدین بابر اپنی طاقت کے بھروسے پر خیبر کی طرف چلے تو آفریدی اُن کے راستے میں لوہے کی دیوار بن گئے اور بابر کو یہ سمجھ آ گئی کہ طاقت کے بل پر وہ درّہ خیبر کو عبور نہیں کر سکتے اور اگر ایسا ہووبھی گیا تو اُنھیں افغانستان کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے عقب کے غیر محفوظ ہونے کی فکر لاحق رہے گی۔

لہٰذا اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے بعد اُنھوں نے ایک بار پھر 1519 میں دوبارہ خیبر کو فتح کرنے کی ٹھانی۔ ظہیرالدین بابر کو سخت لڑائی کے بعد صرف ایک رات علی مسجد میں گذارنے کا موقع مل سکا۔ وہ جمرود تو پہنچ گئے لیکن اُنھیں خیال آیا کہ اگر وہ پنجاب جاتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ واپسی پر یہ قبائل اُن کی راہ کاٹ لیں۔

سکھ حکمران رنجیت سنگھ کو یقین تھا کہ پختونوں پر اقتدار قائم رکھنے کے لیے کسی مضبوط ہاتھ کی ضرورت تھی، اس لیے سکھوں کے مشہورترین انتظامی جرنیل ہری سنگھ نلوہ کو بھاری لشکر کے ساتھ پشاور کا انتظامی افسر مقرر کیا گیا۔

ہری سنگھ نے پختونوں کو تو پریشان کیا تاہم وہ قبائلیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور ان قبائل کے اقدامات کی بدولت خود رنجیت سنگھ پر ان کی دہشت طاری ہوگئی۔

اسی دہشت کا اثر تھا کہ ان قبائلیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے باب خیبر کے مقام یعنی درہ خیبر کے دہانے پر قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور 1836 میں اس پر کام کا آغاز ہوا۔

یوں تو سکھوں نے یہ قلعہ قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے بنایا تھا تاہم افغانستان کے امیر دوست محمد خان نے اسے اپنے خلاف عزائم کا نشان سمجھا اور سکھ فوجوں پر حملہ آور ہوگئے جہاں پر ہری سنگھ نلوہ مارے گئے۔

انگریز سکھ لشکر کے افغانستان میں قیام کے وقت یہ ضروری تھا کہ ان کے پیچھے واپسی کا راستہ یعنی درہ خیبر کھلا رہے لیکن یہ آفریدی قبائل کو مواجب یعنی معاوضہ دیے بغیر ممکن نہ تھا۔

انگریزوں کو بھی پتہ تھا کہ آفریدیوں کو مواجب نہ ملا تو وہ خود بھی سکون سے نہ رہ سکیں گے، چنانچہ اُنھیں درّہ خیبر میں سکون رکھنے کے لیے آفریدیوں کو سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے مواجب دینا پڑا۔

افغانستان میں دو سال تک قیام کے بعد جب انگریزوں کو شکست ہوئی تو وہ اپنی حلیف فوج یعنی سکھوں کو لے کر واپس روانہ ہوئے تاہم درّہ خیبر کے اندر آفریدی قبائل نے اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اُن کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔

درّہ خیبر کے اندر علی مسجد کے مقام پر انگریزوں کی توپیں اور بندوقیں سب کچھ آفریدی قبائل نے چھین لیا۔

ان آفریدی قبائل کے ساتھ معاہدوں کی رو سے ان قبائل کو تحفظِ راہ اور قیام امن وغیرہ کے لیے یہ رقوم دی جاتی ہیں جسے مقامی زبان میں مواجب کہتے ہیں۔

یہ رقوم سال میں دو بار ادا کی جاتی ہیں اور اسے وصول کرنے والا فخر محسوس کرتا ہے۔ ایسے قبائلی ملک اور عمائدین بھی ہیں جو ان قبائلی علاقوں سے دور رہتے ہیں اور اکثر اوقات اُنھیں اپنے حصے کے مواجب کے چند روپوں کو لینے کے لیے ہزاروں روپے خرچہ کرنا پڑتا ہے تاہم وہ اس خراج سے دستبردار نہیں ہوتے۔

حکومتیں ان قبائلی عمائدین کو احترام کے طور پر لنگی (دستار) کے نام سے بھی رقم ادا کرتی ہے۔

آفریدی کب سے یہاں ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر اسلم تاثیر آفریدی کہتے ہیں کہ ان آفریدیوں کی اس علاقے جمرود سے لے کر تیراہ اور چورہ تک موجودگی اور ان کے لیے جلال آباد سے پاکستان کے موجودہ شہر مردان تک ایک پختون ریاست بھی قائم کی گئی تھی جس کے بنانے والے بایزید انصاری یا پیر روخان تھے اور اس میں وزیرستان کے علاقے بھی شامل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی زراعت اور سرسبز و شادابی ہی کی وجہ سے اسے سونے کی چڑیا سمجھا جاتا تھا اور اس لیے فاتحین نے ہمیشہ اس پر قبضہ کرکے اسے زیرِ نگیں کرنا چاہا اور ان فاتحین نے گندھارا یعنی پختونوں کے صوبے کا راستہ اختیار کیا جہاں پر درّہ خیبر ان کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بنا۔

وہ کہتے ہیں کہ باب خیبر کے ارد گرد کے علاقے میں قریبا 29 لڑائیاں خود ارد گرد کے مختلف قبائل کے مابین لڑی گئیں جس میں سکھوں، انگریز اور خود قبائل کے بیچ یہ جنگیں ہوئیں۔

آفریدی قبائل کی یوں تو اور بھی کئی شاخیں ہیں لیکن ہر شاخ الگ الگ علاقے میں آباد ہے۔ ان کی سب سے بڑی شاخ کوکی خیل باب خیبر سے لے کر درّہ خیبر اور پھر تیراہ کے بڑے علاقے میں آباد ہے۔

اس قبیلے کے ملک عطااللہ جان کوکی خیل کے بھتیجے اکرام اللہ کوکی خیل کا کہنا ہے کہ جمرود کا کنٹرول لینے کے لیے ان کے قبیلے کی مدد تہکال کے ارباب سرفراز خان نے کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں دنیا کے ہر حصے سے آنے والے جنگجوؤں نے اس علاقے کو فتح کرنا چاہا، وہیں پر اس علاقے میں اپنے قبائل کے مابین بھی اقتدار اور زمین کے لیے رسّہ کشی جاری رہی جس میں دشمنوں کے علاوہ اپنوں نے بھی کردار ادا کیا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب کافی عرصے سے علاقے میں امن ہے اور تمام قبائل اپنی اپنی حدود میں پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔

***********

Thursday, June 3, 2021

چین کی بحری تجارت کےماڈل کےموجد محمود شمس (زنگ خا) کون تھے؟

چین کی بحری تجارت کےماڈل کےموجد محمود شمس (زنگ خا) کون تھے؟

چین نے جنوب مشرقی ایشیا، بحرِ ہند، (گوادر، سی  پیک)، بحیرہ عرب، خلیج فارس، بحیرہِ احمر اور مشرق وسطیٰ کی دیگر بندرگاہوں کو جدید بنانے کا عمل کافی عرصے سے شروع کیا ہوا ہے اور وہ اسے ’تجارتی اور اقتصادی ترقی کا بنیادی انفراسٹرکچر‘ کہتا ہے مگر چین کے مخالف ممالک چین کی اس پالیسی کو فوجی قوت اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی ایک حکمتِ عملی قرار دیتے ہیں

مگر چین کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ اُس کے سڑکوں، ریلوے لائنوں اور بندرگاہوں جیسے بڑے منصوبوں کی تعمیر تجارتی اور اقتصادی مقاصد کے لیے ہے نہ کہ دیگر قوموں کو محکوم بنانے کے لیے۔

جب چین نے اپنے کھربوں ڈالر کے تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کیا تھا تو چین کی قیادت نے بندرگاہوں اور سمندر کے راستے سے تجارت کے لیے جو ماڈل پیش کیا تھا وہ 15ویں صدی کے چینی مسلمان ایڈمرل ژنگ خہ کا تیار کردہ تھا۔ ایڈمرل ژنگ نے اُس دور میں دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت تیار کی تھی لیکن اس کی مدد سے کسی بھی ملک کو زیرِ نگیں نہیں بنایا تھا۔ ماہرین اُن کی اس پالیسی کو اشتراک اور تعاون کی پالیسی قرار دیتے ہیں۔

ایڈمرل ژنگ خہ  کون تھا اور اسکا پس منظر کیا تھا

ژنگ خہ یا ماہو کہلائے جانے والے اس بچے کا مسلمان نام محمود شمس تھا۔ بعض کتابوں میں ان کا نام محمد بھی لکھا گیا ہے۔ ان کے والد کا نام میر تکین اور دادا کا نام خرم الدین بتایا جاتا ہے۔ ان کے پڑدادا کے دادا کا نام سید اجّل شمس الدین تھا (بعض تاریخی ذرائع میں سید اجّل شمس الدین عمر بھی لکھا گیا ہے)۔ سید اجّل کا تعلق وسطی ایشیا کے شہر بخارا سے تھا اور انھیں منگول حکمران قبلائی خان نے گورنر نامزد کر کے یوحنان بھیجا تھا۔تاریخ میں آج ژنگ خہ کہلانے والے چینی ایڈمرل یوحنّان نامی علاقے میں سنہ 1371 میں چین کی مسلمان برادری ’ہوئی‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ مسلم برادری آج بھی چین میں ’ہوئی‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور یہ وہ مسلمان تھے جو وسطی ایشیا کے مختلف خطوں سے چین میں یا تو خود سے پناہ لینے پہنچے تھے یا منگولوں کے ہمراہ حملہ آور بن کر آئے تھے۔


ژنگ خہ کا جنم اس دور میں ہوا تھا جب منگولوں کو مقامی مِنگ خاندان کے ہاتھوں شکست کا سامنا تھا۔ ژنگ خہ کا خاندان منگولوں کے لیے لڑا تھا۔ زنگ خہ کی عمر اس وقت 10 برس تھی جب مِنگ آرمی باغیوں کو ڈھونڈتی ہوئی اُن کے علاقے تک پہنچی۔ زنگ خہ کا خاندان مارا گیا مگر انھیں زخمی حالت میں حراست میں لے لیا گیا۔

ژنگ کے ساتھ بھی وہی کیا گیا جو اُس دور میں کم عمر مرد قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا تھا، یعنی اُن کی جنسی صلاحیت ختم کر دی گئی۔ننجینگ یونیورسٹی کے پروفیسر لوئی ینگ شینگ کہتے ہیں کہ ژنگ خہ کی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔اسی بچے نے بعد میں چین کی عظیم الشان بحریہ کا سربراہ بن کر انڈیا، خلیجِ فارس اور افریقہ تک اپنے وقت کے سب سے بڑے بحری بیڑے پر تجارتی، سفارتی اور ثقافتی نوعیت کے سات سفر کیے۔

13ویں صدی تک چین کے بیشتر حصوں پر منگولوں کا قبضہ تھا۔ وقت کے ساتھ جب منگولوں کی بد نظمی، بدعنوانی اور زیادتیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو چین کی مقامی قوم حاننی (ہنز) کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔

ان حالات میں مِنگ خاندان کے کسانوں نے منگول حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی اور چین کے اِس حصے پر قبضہ کر لیا۔ ان کی بغاوت اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ اُس وقت چین کے اس خطے میں فصلیں تباہ ہوئی تھیں اور قحط پیدا ہو گیا تھا۔مِنگ خاندان کے کسان جنگجو ’ہونگ وُو‘ نے 1368 میں منگولوں کے حمایت یافتہ یوآن خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے اپنی بادشاہت قائم کر لی۔ ہونگ وُو پیشے کے لحاظ سے ایک کسان تھے۔ یوآن خاندان کے زمانے کے کئی تاجر اور علما نے نئے خاندان کی حکومت سے تعاون کیا جن میں مسلمان ماہرین بھی شامل تھے جو چین کے اس خطے میں آباد ہو چکے تھے۔

برمنگھم یونیورسٹی کے قدیم چینی تاریخ کے پروفیسر یوہانس لوٹزے اپنی ایک تصنیف میں 1368 سے 1453 کے دور کے حالات پر کی جانے والی تحقیق میں بتاتے ہیں کہ ہونگ وُو کے جرنیلوں میں دس مسلمان بھی تھے۔بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ مِنگ خاندان کا پہلا شہنشاہ خفیہ طور پر مسلمان تھا تاہم کئی مؤرخین نے اس بات کو مسترد کیا ہے۔ ہنگ وُو کی ایک بیوی مسلمان تھی جبکہ اس نے اپنی ایک بیٹی وسطی ایشیا کے (بعض روایات کے مطابق سمرقند) کے علم الافلاک کے ماہر محمد شیحی سے بیاہی تھی۔لیکن مِنگ خاندان کو کچھ مسلمان جرنیل اور علما تو سابق حکمران خاندان یوآن کے ترکے میں ملے تھے اور کچھ انھوں نے خود بھرتی کیے۔

ہونگ وو کا انتقال سنہ 1398 میں ہوا لیکن اُس کی وصیت کے مطابق اُس کا جانشین اُس کے پوتے جیان وین کو بنایا گیا۔ تاہم جلد ہی وہ نااہل ثابت ہوا اور اس کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ اُس نے کنفیوشسزم کے حامی درباریوں کے ذریعے اپنی طاقت بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کے چچا ژو ڈی نے اُس کے خلاف بغاوت کر دی۔بغاوت میں اُس کے مسلمان سپاہی اور جرنیل دلیری سے اُس کے لیے لڑے اور بالآخر وہ کامیاب ہوا اور یونگ لی کے لقب کے ساتھ وہ شہنشاہ بن گیا۔ اور یہاں سے ایڈمرل ژنگ خہ کی عظمت کی کہانی شروع ہوتی ہے۔

جب 10 برس کی عمر میں یوحنّان میں ژنگ خہ کو جنسی صلاحیت سے محروم کیا گیا تو اُسے ژو ڈی کے حرم خانے میں ایک ملازم کے طور پر رکھا گیا تھا۔ تاہم ژو ڈی کے ہاں کام کرنے کی وجہ سے زنگ خہ کو بہتر تعلیم و تربیت، انتظامی امور کی سمجھ اور فنِ سپاہ گری سیکھنے کا اچھا موقع ملا۔ وہ تیزی سے ترقی پاتا ہوا ایک گھریلو ملازم سے آج کے عہدے کے لحاظ سے ژو ڈی کا (جو ابھی شہنشاہ نہیں بنا تھا) چیف آف سٹاف بن چکا تھا۔یعنی ژنگ خہ مِنگ خاندان کے تیسرے شہنشاہ ژو ڈی یا یونگ لی کے بادشاہ بننے سے پہلے ہی سے اُس کے معتمدِ خاص بن چکے تھے۔ یونگ لی کی اپنے بھتیجے شہنشاہ جیان وین کے خلاف بغاوت کے وقت ماہو نے اپنی دلیری کے جوہر دکھائے تھے اس پر نئے شہنشاہ نے اُسے ’ژنگ خہ‘ کا لقب دیا تھا۔

زنگ خہ نے بچپن میں اپنے والد اور دادا سے ان کے حج کے سفر کے قصے سُنے تھے۔ اس لیے اُسے حج کی کہانیاں متاثر کرتی تھیں۔ اُس زمانے کے ’ہوئی‘ مسلمانوں کی روایات کے مطابق وہ چینی زبان کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں کا بھی علم رکھتا تھا۔ ژنگ خہ نے شاہی تعلیمی ادارے ’نانجینگ ٹائیگژو‘ سے تعلیم حاصل کی تھی۔

شہنشاہ یونگ لی نے ایڈمرل ژنگ خہ کو ایک بہت بڑے بحری بیڑے کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ سنہ 1405 میں جب ژنگ خہ نے پہلا بحری سفر کیا تھا تو اُس کے پاس 317 بحری جہاز تھے اور اس کے ساتھ سفارتی، فوجی، تجارتی اور دیگر خدمات کے لیے افرادی قوت تقریباً 28 ہزار کے لگ بھگ تھی۔

ژنگ خہ کے اپنے مرکزی جہاز پر بادبانوں کو سہارا دینے کےلیےنو مستول لگے ہوئے تھے۔ بحری سفر کے دوران اتنی بڑی تعداد کا انتظام اتنی باریکی کےساتھ منظم کیا جاتا تھا کہ ایک بھی جہاز دوسرے سےٹکراتا نہیں تھا۔ یہ بحری جہاز ایک بیضوی شکل میں حرکت کرتےتھے۔بڑے سائزکےجہازمرکز میں ہوتےتھےاورچھوٹےجہازباہرکےدائرے کی جانب ہوتےتھے۔

چونکہ ژنگ خہ مسلمان تھا اور چین کی مغربی دنیا سے بہت زیادہ واقف تھا اور اُسے کئی ایک ایرانی اور عرب تاجروں کی خدمات بھی حاصل تھیں، اس وجہ سے شہنشاہ کا اُسے اس بڑے مشن کی ذمہ داری دینا ایک قدرتی امر تھا۔ اُس نے بحری راستوں کا بہت گہرا مطالعہ کیا، علم الافلاک کے ماہرین کے ذریعے سمندر کے راستوں کو سمجھنے کا علم بھی حاصل کیا، اس علم میں مسلمان پہلے ہی کمال حاصل کر چکے تھے۔ بحری جہازوں کی تعمیر کے لیے شپ بلڈنگ کی صنعت کو اپنی زیرِ نگرانی تعمیر کرایا۔ مقناطیسی قطب نما بھی بنوایا جو ک اُس وقت ایک جدید ٹیکنالوجی تھی۔ کئی کئی مستولوں کے جہاز بنائے گئِے۔

ژنگ خہ کے بحری بیڑے کے باقی جہازوں میں، جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے، ہزاروں کی تعداد کے عملے کی غذا، پانی، خدمت گزاروں کا عملہ، گھوڑے، توپ و تفنگ، ریشم اور دیگر قیمتی پارچاجات، چینی مٹی کے قیمتی برتن، سنہری روغن، لاکھ اور شراب سے بنے ہُوئے برتن، چائے، کالی مرچیں، سونا چاندی، لوہے سے تیار کرہ اشیا تھیں جو کہ دور دراز ممالک کے حکمرانوں کو تحفے میں دی جاتی تھیں۔یہ تحفے برونائی، انڈونیشا، جاوا، سماٹرا، ملاکا کے سلطانوں، ویت نام، بنگال، اور سری لنکا کے راجاؤں، انڈیا کی معروف بندرگاہوں، کالی کٹ، کوچن اور مالابار کے حکمرانوں، خلیج فارس کے منہ پر ہُرمُز نامی بندرگاہ کے حکمرانوں، یہاں تک کے بندرگاہوں سے دور ایران کے مختلف علاقوں کے حکمرانوں، ترکی کی ابھرتی ہوئی عثمانیہ سلطنت کے عہدیداروں، یمن کے علاقے میں حضرموت اور عدن کی بندرگاہوں کی مقامی حکومتوں، موغادیشو، موزمبیق، مالدیپ کے حکمرانوں کو دیے گئے۔ غرض کے بحرِ ہند کی کوئی ساحلی حکومت ایسی نہیں تھی جس سے ژنگ خہ نے براہِ راست خود یا اُس کے بیڑے کے کس اعلیٰ اہلکار نے رابطہ نہ کیا ہو۔

بعض مؤرخین نے ژنگ خہ کے جہازوں کا جدہ تک جانے کا ذکر کیا ہے جہاں ژنگ خہ اور اُس کے ساتھی مکہ و مدینہ تک پہنچے ہیں۔ مؤرخین کا اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا اُنھوں نے حج کیا تھا یا نہیں۔ تاہم اگر حالات اور ژنگ خہ کی اپنی زندگی کا اندازہ لگایا جائے تو کوئی سبب نہیں ملتا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ جائیں اور عمرہ یا حج نہ کریں۔وہ تو بچپن سے اپنے باپ اور دادا سے حج کی کہانیاں سنتا تھا جنھوں نے، بقول مؤرخین، اُس کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا

1424 میں شہنشاہ یونگ لی کا انتقال ہو گیا تھا اور نیا بادشاہ ایک برس بعد ہی انتقال کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یونگ لی کا پوتا بادشاہ بنا تو اُس کی بحری مہمات میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے ژنگ خہ کو ساتویں اور آخری بحری مہم کے لیے چھٹی مہم کے دس برس بعد اجازت دی۔ ساتویں مہم کا 1431 میں آغاز ہوا اور یہ سنہ 1433 میں مکمل ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ 62 برس کی عمر میں ژنگ خہ کا اس ساتویں مہم سے واپسی کے دوران بحری جہاز پر ہی انتقال ہو گیا تھا۔ ژنگ خہ کی قبر اُس وقت کے چینی دارالحکومت نانجِنگ میں بنائی گئی تھی جو آج بھی موجود ہے۔

؎چین میں ژنگ خہ کو تقریباً بھلا دیا گیا تھا۔ لیکن بیرون ممالک رہنے والی چینی کمیونیٹیز نے اُس کی یاد کو پھر سے زندہ کیا ہے، جس کی خاص وجہ جنوبی مشرقی چین کی بندرگاہیں ہیں جہاں اُس نے کبھی اپنے سفر کے دوران کئی یادگاریں چھوڑی تھیں۔ ان بندرگاہوں میں سے چند پر اُس نے لاٹیں (پتھر کے کتبے) تعمیر یا نصب کروائی تھیں جن پر مِنگ خاندان کے بادشاہ کے اُن ممالک کے لیے خیر سگالی کے پیغامات کُندہ کیے گئے تھے۔اُن ہی لاٹوں میں سے ایک سری لنکا کی ایک بندرگاہ گیل سے سنہ 1911 میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئی تھی جو آج بھی وہاں کے مقامی میوزیم میں محفوظ ہے۔ یہ لاٹ یا پتھر کی سِل پر کندہ کیا گیا کتبہ تین زبانوں میں مِنگ شہنشاہ یونگ لی کے پیغام پر مشتمل ہے۔

مِنگ خاندان کی حکومت نے ژنگ خہ کے بحری تجارتی مہمات کی وجہ سے کافی منافع بھی کمایا تھا جس کی وجہ سے شہنشاہ کو اتنے مالی وسائل حاصل ہو گئے کہ اُس نے ’ممنوعہ شہر‘ کی تعمیر کا حکم دیا۔ یہ وہی ممنوعہ شہر ہے جو بعد میں بیجنگ کے نام سے مشہور ہوا اور اب چین کا دارالحکومت ہے۔

انہی مہمات سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کی وجہ سے چین میں ایک بڑی نہر بھی کھودی گئی جس کا زرعی اور تجارتی فائدہ ہوا۔ مؤرخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دو بڑی تعمیرات ژنگ خہ کی مہمات کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔

تاریخ میں کئی بارایسا ہوا ہےکہ کامیابیاں شدت کےساتھ حسد کےجذبات بھی پیدا کردیتی ہیں، شاید ایسا ہی ژنگ خہ کے ساتھ ہوا۔

شہنشاہ یونگ لی کے 1424 میں انتقال کے بعد اُس کا بیٹا ہونگژو بادشاہ بنا۔ لیکن وہ اس کے بعد صرف ایک برس زندہ رہا۔ 1425 میں ہونگژو کا بیٹا ژوانڈو بادشاہ بنا۔ ژوانڈو 1435 تک بادشاہ رہا اور مجموعی طور پر ایک کامیاب بادشاہ نہیں تھا۔ سنہ 1433 میں وہ اس آخری مہم کے بعد 317 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑے کو جلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مؤرخین کے پاس اِس دور کی بہت کم معلومات ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اتنی سرمایہ کاری کے بعد مِنگ خاندان کے چین نے بحری مہمات کا خاتمہ کیوں کیا؟

*************

Wednesday, April 29, 2020

حج پہلے بھی کھبی موقوف ہوا۔۔۔؟

حج پہلے بھی کھبی موقوف ہوا۔۔۔؟

رمضان گزر گیا عید الفطر گزر گئی اگلی عیدعیدالعضیٰ ہے لیکن جب عید العضی کی بات ہوتی ہے تو قربانی کا خیال ضرور ذہن میں آتاہے۔ اس کے علاوہ اس عید پر حج کی بات کرنا تو لازم وملزوم ہے۔ آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون، پروازوں کی معطلی اور سعودی عربیہ مساجد کی بندش سے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال آتاہے کہ کیا اس سال حج ہو پائے گا؟ اگر نہ ہوسکا تو کیا ہوگا؟ اور کیا اسلامی 
تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ حج معطل یا موقوف یا منسوخہوجائیگی؟

آج ہم اسی پر بات کرینگے۔ اللہ کرے کہ حالات جلد ازجلد نارمل ہوجائے اور حج کیلئے تمام روکاوٹین دور ہوجائے۔لیکن اگر خدانخواسطہ اس سال حج نہ ہوکسی یا حج موقوف ہوا تو یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا پہلے بھی کئی بارمختلف وجوہات کے بناپر ہوچکاہے۔ آج ہم اسی بار میں تفصیلی گفتگو کرینگے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اب تک 57 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ لگ بھگ 3 لاکھ 55 ہزار کے قریب جان سے جا چکے ہیں۔سعودی عرب اب تک تقریبن 76 ہزار متاثر ہوئے اور400 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ اس پس منظر میں حج کو معطل کرنے کا فیصلہ ناگزیر اور غیر معمولی لگ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ صدیوں کے دوران ایسے حالات کے باعث جو حج کا انتظام کرنے والوں کے اختیار سے باہر تھے، حج کی ادائیگی میں خلل اور رکاوٹ پہلے بھی پڑی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق حج میں پہلی بار تعطل اس وقت ہوا جب 930 عیسوی میں خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سات اماموں کو ماننے والی اسماعیلی شیعہ کی قرامطہ شاخ نے حج کے آٹھویں دن حاجیوں پر حملہ کر دیا۔تیسری صدی ہجری کا اواخر اور چوتھی صدی ہجری کا شروع اہل قرامطہ کے غضب و عذاب کا دور تھا۔ 7 ذی الحجہ 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال 317ھ کو حج بیت اللہ شریف نہ ہو سکا کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا یہ اسلام میں پہلا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا. اسی ابو طاہر قرامطی نے ’’حجر اسود‘‘ کو خانہ کعبہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لےگیا. پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ فیصلہ کیا اور تیس ہزار دیناردیدیےتب حجراسود خانہ کعبہ کوواپس کیا گیا.

یہ واپسی 339ھ کو ہوئی گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ ’’حجر اسود‘‘ سے خالی رہا. جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث شیخ عبداللہ کو ’’حجر اسود‘‘ کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا. یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچ گئے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس ان کے لیے ایک پتھر خوشبودار، خوبصورت غلاف میں سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں. محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ’’حجر اسود‘‘ میں دو نشانیاں ہیں اگر یہ پتھر اس معیار پر پورا اترا تو یہ ’’حجر اسود‘‘ ہوگا اور ہم لے جائیں گے.

پہلی نشانی یہ کہ پانی میں ڈوبتا نہیں ہے دوسری یہ کہ آگ سے گرم بھی نہیں ہوتا. اب اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا تو سخت گرم ہو گیا. فرمایا ہم اصل ’’حجر اسود‘‘ کو لیں گےپھر اصل ’’حجر اسود‘‘ لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہی ہمارا ’’حجر اسود‘‘ ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے.اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور کہا: یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہ باتیں،ہمیں جناب رسول اللہؐ سے ملی ہیں کہ ’’ ’’حجر اسود‘‘ ‘‘پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہو گا‘‘ ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے. جب ’’ ’’حجر اسود‘‘ ‘‘ مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا. اس اونٹنی میں زبردست قوت آ گئی اس لیے کہ’’حجر اسود‘‘ اپنے مرکز بیت اللہ کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مر جاتا، حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مر گئے. (تاریخ مکہ محمد بن علی بن فضل الطہری المکی )

ان قرامطیوں نےجو اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ حج بت پرستی کا عمل ہے، اس حملے میں قرامطیوں نے تقریبن30 ہزار سے زیادہ حجاج کوشہیدکئے تھے، لاشوں سے چاہِ زمزم کی بے حرمتی کی اور حجرِ اسود لے کر اپنے دارالحکومت (موجودہ دور کے قطیف) فرار ہو گئےتھے۔اس خونی حملے کی وجہ سے آئندہ 10 سال تک حج ادا نہ کیا جا سکا۔

حج کی ادائیگی میں دوسرا خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کے مطابق مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی ہے۔اسی دوران حاجیوں کو مکہ لے کر جانے کے لیے استعمال ہونے والے اونٹ پانی کی قلت کے باعث مرگئے۔اور بہت سے لوگ جو بچ کر مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے تھے وہ حج کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے۔‘

اسکے29 سال بعد بھی مشرق یا مصر سے کوئی حاجی حج کے لیے نہیں آیا۔ 1030 عیسوی میں صرف چند عراقی زائرین ہی حج ادا کرنے مکہ مکرمہ پہنچے۔اس برس جو افراد مکہ حج کرنے آئے تھے ان میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی تھے لیکن 1000 عیسوی میں وہ اس سفر کے متحمل نہیں ہو سکے کیونکہ اس سال مصر میں مہنگائی بہت زیادہ تھی۔اس واقعے کے 9سال بعد عراقی، مصری،وسط ایشیائی اور شمالی عربی مسلمان حج کرنے سے قاصر رہے۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اورفرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔اسی طرح 1099 میں بھی جنگوں کےنتیجےمیں پوری مسلم دنیا میں خوف اورعدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ کی جا سکی۔سنہ 1099میں صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کےفقدان کےباعث مسلمان حج ادا کرنےمکہ نہ آ سکے۔سنہ1168 میں مصریوں اورکرد کمانڈراسد الدین (جوزنکیون حکومت کا دائرہِ کارمصر تک پھیلانا چاہتے تھے)کےدرمیان تنازعےکیوجہ سےمصری مسلمانوں کو حج کی اجازت نہ مل سکی۔

13ویں صدی میں بھی حج ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوا 1256 سے 1260 کے دوران کوئی بھی شخص خطۂ حجاز سے حج کی ادائیگی نہ کر سکا۔اس کے بعدسنہ 1798 سے 1801 کے دوران فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے مصر اور شام کے علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیں جن کی وجہ سے مکہ کے راستے زائرین کے لیے غیر محفوظ ہو گئے۔اس کے بعد 1831ء میں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی،جب اس خطے کے افراد حج کی ادائیگی کے لئے مکہ پہنچے تو ان متاثرہ افراد سے دیگر ہزاروں افراد میں بھی یہ وباء پھیل گئی۔تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہو گئے۔ ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے۔چھ سال بعد دوبارہ وباؤں نے سعودی عرب کا رخ کیا، مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق 1837ء سے 1858ء کے دو عشروں کے درمیان وقتاً فوقتاً وبائیں جنم لیتی رہیں، اس وجہ سے اس دوران سات بار حج کے مناسک ادا نہ ہو سکے۔ پہلے 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھُوٹی جس کے باعث 1840ء تک حج ادا نہ ہو سکا۔ 1846ء میں مکہ کے رہائشیوں کو ہیضہ کی وبا نے آن گھیر ا،اس وباء سے پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہو گئے، جس کی وجہ سے 1849ء تک حج کی ادائیگی روک دی گئی۔اس کے بعد 1850ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔1858ء میں بھی ہیضہ کی وباء سے کئی ہلاکتیں ہوئیں اس وجہ سے حج مکمل نہ ہو سکا۔اسرپورٹ کے مطابق 1865ء اور 1883ء میں بھی وباء کی وجہ سے لوگ حج ادا نہ کر سکے۔

اس تناظرمیں اس سال اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو اس سال بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا۔کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا'قرآنِ پاک میں  فرمان ہے کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اورپیغمبرِ اسلام ﷺ نے بھی اپنے صحابہ کو وباؤں سے خبردار کیا ہے۔'
حوالے سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ ’اگر آپ کسی جگہ طاعون پھیلنے کی خبر سنیں تو وہاں داخل نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ وبا کسی جگہ پر پھیل جاتی ہے جہاں آپ موجود ہیں تو اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔‘ان کے مطابق ’یہ حدیث طاعون سے بچنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔'

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |