مغل سلطنت کے پہلے سلطان ظہیر الدین محمد بابر
ظہیرالدین بابر، شیخ مرزا کے گھر 1483 کو پیدا ہوئے اور 1530 میں محض 47 برس کی عمر میں انتقال کیا۔ 1494 میں محض گیارہ سال کی عمر میں بابر اپنی چھوٹی سی سلطنت "فرغانہ" کا حکمران بنا۔ آئندہ 36 برسوں میں 31 برس تو وہ وسط ایشیا (ثمرقند، بخارا، بدخشاں وغیرہ) ہی میں اپنے ہی رشتے داروں اور دیگر طاقتور سرداروں سے لڑتا رہا جبکہ 1526 میں اس نے بہت دفعہ لشکر کشیاں کرنے کے بعد ہمارے علاقہ میں اقتدار سنبھالا۔
بابر کی سوانح 'تزک بابری' ایک ایسی دستاویز ہے جو نہ صرف ہمیں سولھویں صدی کے وسط ایشیا اور فارس کے بارے میں معلومات دیتی ہے بلکہ آج کے افغانستان و پاکستان میں شامل علاقوں کے بارے میں بھی پتہ کی باتیں بتاتی ہے۔
باپ کی طرف سے امیر تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے تعلق رکھنے والے بابر کے رشتہ دار وسط ایشیا کے بہت سے مقامات کے حکمران تھے۔ سلطان الغ بیگ مرزا بابر کا سب سے چھوٹا چچا تھا اور کابل و غزنی کا حاکم بھی۔ بڑ اچچا ثمرقند و بخارا کا حاکم۔ ایک ماموں تاشقند، سیرام جبکہ چھوٹا ماموں تاشقند اور ویلدوز کے درمیانی علاقے کا حاکم تھا۔ اسی طرح ایک چچا قندوز اور بدخشاں کا حاکم تھا اور خراسان و ہرات کا حاکم بھی تیموری خاندان ہی کا سردار مرزا بیقرہ تھا۔
بابر کی مادری زبان "ترکی" تھی اور اسے اپنے ترک ہونے پر فخر بھی تھا۔ تزک بابری یعنی بابر نے جو اپنی سوانح لکھی وہ بھی ترکی زبان ہی میں تھی۔ اس کا ترکی زبان میں نسخہ 'المنسکی' نے 1857 میں شائع کیا جبکہ مسز"اے ایس بیورج" نے ایک نسخہ حیدرآباد دکن سے حاصل کیا اور 1905 میں شائع کیا۔
ترکی زبان سے ان نسخوں کو فارسی میں ترجمہ کروایا گیا۔ ایک ترجمہ پائندہ حسن نے کیا ہے جبکہ دوسرا مرزا عبدالرحیم نے۔ ارسکن اور لیڈن نے مرزا عبدالرحیم کے فارسی ترجمہ سے انگریزی میں ترجمہ کیا جسے 1826 میں چھاپا گیا۔
1871 میں پاوے ڈی کورئیل نے المنسکی کے ترکی متن سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ مسز اے ایس بیورج نے حیدرآبادی نسخے سے ترجمہ کیا۔ ان کتب و تراجم کو سامنے رکھ کر لین پول، کیلڈی کاٹ وغیرہ نے بابر کی مختصر سوانح لکھی ہیں مگر اُردو میں ترکی زبان سے براہِ راست ترجمہ نہیں ہوا۔
تاہم تزک بابری بابر اور اس کے دور کو سمجھنے کے لیے واحد کتاب نہیں۔ بابر کے خالہ زاد بھائی مرزا حیدر دوغلت کی کتاب "تاریخ رشیدی" اسی دور میں لکھی گئی تھی۔ اس کے "ترکی" زبان میں نسخے کے بارے تو کچھ معلوم نہیں البتہ اس کا انگریزی میں ترجمہ این ایلیاس اور ڈینس راس نے کیا ہے۔ خواند میر کی کتاب "جیب السیر" بھی اسی دور کی ہے کیونکہ مصنف بابر سے ملا تھا۔ اس کے اصل نسخہے کے بارے میں بھی علم نہیں۔ ویسے تو یہ دنیا کی تاریخ ہے مگر بابر کے حوالہ سے اس میں مفصل تفصیلات ہیں۔
اسی طرح "احسن السیر" بھی اسی دور کی کتاب ہے جسے مرزا برخودار ترکمان نے لکھا ہے۔ اس کا نامکمل نسخہ رامپور کے نواب عبدالسلام کے کتب خانے میں تھا اور یہ "جیب السیر" کا جواب بھی ہے۔
اسی طرح مرزا محمد صالح نے بابر کے بدترین مخالف شیبانی خان پر کتاب لکھی تھی جو شاہناموں اور مہابھارت کی روایت پر منظوم تاریخ ہے جس کا نام "شیبانی نامہ" ہے۔ ازبک نقطہ نظر سے بھی اس کتاب کی اہمیت ہے اور اس لیے بھی کہ اس دور کی بہت سی حقیقتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اے ویمبری نے اس کو ترتیب و تدوین و ترجمہ کے بعد شائع کروایا تھا۔ اسی طرح مرزا سکندر منشی کی کتاب عالم آرائے عباسی اور ہمایوں نامہ از گلبدین بیگم بنت بابر بھی اسی دور کے آس پاس لکھی گئیں تھیں۔
0 comments:
Post a Comment