<حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی <حصہ دوئم
ماضی کے حوالے سے (قافیہ زمانہ ، بہانہ وغیرہ) کے ساتھ کی گئی کی پیشنگوئی
اولیا کرام اور صوفیا عظام جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں ان پر کب اور کس وقت جلال اور جمال کی کیفیت طاری ہوتی ہے،کب اورکیسےوہ حالت وجد میں آتےہیں او کب مکاشفہ اور کب مشاہدہ اور الہام یا القاء کے ذریعے ان پر غیب کےپردے کھلتےہیں اورکسطرح اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو لوحِ محفوظ میں جھانکنےکا اعلی و ارفع روحانی مرتبہ عطا کرتےہیں،ایسےبےشمارسوالات اوربہت زیادہ کرید سےاللہ اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ وآلِہٖ وسلم نےانسان کومنع فرمایا ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے پیشنگوئی کے قصیدے میں ”پیدا شود“ (پیدا ہو گا) کے ردیف میں خصوصی طور پر بر صغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات اور حوادث سے پردہ اُٹھایا ہے۔ لیکن اب ویرانہ، زاہدانہ، اور فاتحانہ وغیرہ قافیہ کے ذریعے حضرت نعمت اللہ شاہ کشمیری نے زیادہ وسعت اور وضاحت کے ساتھ برصغیر پاک و ہند اور ملحقہ علاقہ جات میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کو ایسے بے باکانہ طور پر بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل دہلنے لگتا ہے۔ موقعہ کی مناسبت سے عقل اور عشق(حقیقی) کے بارے فرماتے ہیں:
خرد سے راہ روشن ہے، بصر ہے
خرد کیا ہے ، چراغ راہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے
علامہ اقبال عشق حقیقی اور معرفت الٰہی کے بغیر عقل کو محدود قرار دیتے ہوئے دوبارہ فرماتے ہیں
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
اسی طرح علامہ اقبال علم کو بھی محدود تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں
علم کی حد سے پرے بندہء مومن کیلئے
لذت شوق بھی ہے، نعمت دیدار بھی ہے
لہٰذا نعمت اللہ شاہ ولی علم اور عقل کی سرحدوں سے آگے نکل کر درون خانہ ہنگاموں کی پردہ کشائی کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں
پارینہ قصہ شوئم از تازہ ہند گوئم
افتاد قرن دوئم کہ افتد از زمانہ
ترجمہ: میں قدیم قصہ کونظراندازکرتا ہوں،میں ہندوستان کےمتعلق تازہ بیان کرتا ہوں کہ دوسراقرن جوزمانہ میں آئےگا۔
صاحب قرن ثانی اولاد گور گانی
شاہی کندا ما شاہی چو رستمانہ
ترجمہ: خاندان مغلیہ میں سے صاحب قرن ثانی ہند پر بادشاہی کرے گا لیکن بادشاہی دلیرانہ طور پر ہو گی۔
عیش و نشاط اکثر گردد مکاں بہ خاطر
گم مے کنند یکسر آں طرز ترکیانہ
ترجمہ: ان کے دلوں میں عیش و عشرت گھر کر لے گا۔اور اپنے ترکیانہ طرز و انداز کو سراسر ترک کر دیں گے۔
تا مدت سہ صد سال در ملک ہند بنگال
کشمیر، شہر بھوپال ، گیرند تاکرانہ
ترجمہ: ان کی حکومت ہندوستان کےملک میں بنگال ،کشمیراورشہر بھوپال کےآخرتک تین سو سال تک رہے گی۔
گیرند ملک ایراں، بلخ و بخارا ، تہراں
آخر شوند پنہاں ، باطن دریں جہانہ
ترجمہ: یہ ملک ایران، بلخ، بخارا اور تہران پر بھی قابض ہو جائیں گے، لیکن آخر کار چھپ جائیں گے اور اس جہان کے اندر باطن ہو جائیں گے۔
تا ہفت پشت ایشاں در ملک ہندو ایراں
آخر شوند پنہاں در گوشہء نہانہ
ترجمہ: ان (مغل) کی سات پُشتیں ہندوستان اور ایران کے ملک پر حکومت کریں گی۔لیکن آخر کار ایک گمنام گوشہ میں چھپ جائیں گے۔
بعد از سہ صد نہ بینی تو حکم گورگانی
چوں اصحاب کہف گردد در کہف غائبانہ
ترجمہ: تو تین سو سال بعد خاندان مغلیہ کی حکومت نہیں دیکھے گا۔ یہ اصحاب کہف کی طرح غار میں غائب ہو جائیں گے۔
آں آخری زمانہ آید دریں جہانہ
شہباز سدرہ بینی از دست رائیگانہ
ترجمہ: اس دُنیا میں وہ آخری زمانہ آئیگا جب شہباز سدرہ( اولیاء جن کی پرواز سدرہ المنتہیٰ تک ہو)، تو دیکھے گا کہ وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
آں راجگانِ جنگی مئے خور مست بہنگی
در ملک شاں فرنگی آئند تاجرانہ
ترجمہ: وہ جنگجو راجے مہاراجے جو شراب اور بھنگ کے نشہ میں مست ہوں گے۔ ان کے ملک میں انگریز تاجرانہ انداز میں داخل ہوں گے۔
تشریح: انگریز شروع میں ہندوستان کے مشہور مرچ مصالحوں کی تجارت کے بہانے مغل حکمرانوں سے بحیرہ ہند کے ساحل کے قریب واقع گوا ، سورت اور پانڈی چری میں تجارتی کوٹھیاں بنانے کی اجازت ملنے پر داخل ہوئے۔ ہندوستان میں انگریزوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں قبضہ کرنے اور اہل ہند پر ایک سو سال سے زائد عرصہ تک حکومت کرنے کا پہلا بیج اس طرح بویا گیا۔ اسلئے شعر میں لفظ '' تاجرانہ'' استعمال کیا گیا ہے۔
رفتہ حکومت از شاں آید بہ غیر مہماں
اغیار سکہ را نند از ضرب حاکمانہ
ترجمہ: مغل حکمرانوں کی حکومت چلی جائے گی۔ غیر کے ہاتھوں میں آجائیگی۔ جو مہمان بن کر آئے ہونگے وہ آخرکار اپنا حاکمانہ سکہ چلائیں گے۔
بینی تو عیسوی را بر تخت بادشاہی
گیرند مومناں را از حیلہ بہانہ
ترجمہ: تو عیسائیوں کو بادشاہی کے تخت پر دیکھے گا۔ یہ مکر و فریب سے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کریں گے۔
صد سال حکم ایشاں در ملک ہند میداں
من دیدم اے عزیزاں! ایں نقطہء غائبانہ
ترجمہ: سو سال تک ہندوستان پر ان کی حکومت ہو گی۔ اے عزیزو میں نے یہ غیبی نقطہ دیکھا ہے۔
اسلام ، اہل اسلام گردد غریب و حیراں
بلخ و بخارا ، طہراں در سند ہند ہیانہ
ترجمہ: اسلام اور اسلام والے لاچار اور حیران ہو جائیں گے۔ بلخ، بخارا، طہران، سند اور ہند میں۔
در مکتب و مدارس علم فرنگ خوانند
در علم فقہ و تفسیر غافل شوند بیگانہ
ترجمہ: سکولوں اور درسگاہوں میں انگریزی علم پڑھیں گے جبکہ فقہ و تفسیر کے علم سے غافل اور بیگانہ ہو جائیں گے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی جو ٨٥٠ سال پہلے بیان کی گئی، وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اشعار کی ترتیب سے قطع نظر آج سے قریبا ١٠٠ سال قبل اور پیشنگوئی کی تحریر کے ٧٥٠ سال بعد یعنی بیسویں صدی کی ابتدا میں رو نما ہونے والے واقعات اور ایجادات سے متعلق درج ذیل دو اشعار پیشنگوئی کی سچائی اور سند پر مہر ثبت کرتے ہیں:
آلات برق پیما اسلاح حشر پربا
سازند اہل حرفہ مشہور آں زمانہ
ترجمہ: برق پیما آلات اور میدان جنگ میں حشر برپا کرنے والا اسلحہ اس زمانہ کے مشہور و معروف سائنسدان بنائیں گے۔
باشی اگر بہ مشرق، شنوی کلام مغرب
آید سرود غیبی بر طرز عرشیانہ
ترجمہ: اگر تم مشرق میں بیٹھے ہو گے تو تم مغرب کی باتیں سُن سکو گے۔ آسمان کی طرح غیب سے نغمے آیا کریں گے۔
تا چہار سال جنگے افتد بہ بر غربی
فاتح الف گردد بر جیم فاسقانہ
ترجمہ: مغربی ممالک (یورپ وغیرہ) پر چار سال کیلئے ایک جنگ واقع ہو گی۔ الف (انگلستان) جیم (جرمن) پر فاسقانہ طور پر فتح پا لے گا۔
تشریح: یہ شعر جنگ عظیم اول جو ١٩١٤ء سے ١٩١٨ء تک لڑی گئی، کو ظاہر کرتا ہے۔
جنگ عظیم باشد ، قتل عظیم سازد
یک صد و سی و یک لک باشد شمار جانہ
ترجمہ: یہ عالمگیر جنگ (اول) ہو گی جس میں بہت بڑا قتال واقع ہو گا۔ ایک کروڑ اکتیس لاکھ جانیں ضائع ہو جائیں گی۔
اظہار صلح باشد لیکن پنہاں کنند ساماں
جیم و الف مکرر رو در ، مبارزانہ
ترجمہ: بظاہر دونوں خاموش ہوں گے لیکن درپردہ جرمنی اور انگلستان بدستور جنگی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔
وقت کہ جنگ جاپاں با چین افتاباں شد
نصرانیاں بہ پیکار آیند باہمانہ
ترجمہ: جس وقت جاپان کی جنگ چین کے ساتھ واقع ہو گی، عیسائی آپس میں لڑائی کریں گے۔
قوم فرنسوی را بر ہم نمود اول
با انگلیس و اطالین گیرند خاصمانہ
ترجمہ: وہ سب سے پہلے فرانس پر حملہ آور ہو کر قبضہ کرے گا۔ برطانیہ اور اٹلی والے خاصمانہ جنگ اختیار کرلیں گے۔
پس سال بست و یکم آغاز جنگ دوئم
مہلک ترین اول باشد بہ جارحانہ
ترجمہ: (جنگ عظیم اول کے) اکیس سال بعد (یعنی جنگ عظیم اول کے اختتامی سال ١٩١٨ء کےبعد ١٩٣٩ء میں) دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گا۔ جو جنگ عظیم اول سے بہت زیادہ مہلک اور جارحانہ ہو گی۔
تشریح: یہ جنگ عظیم دوئم انگلینڈ کی طرف سے چرچل اور جرمنی کی طرف سے ہٹلر کی سربراہی میں ١٩٣٩ء سے ١٩٤٥ء تک عالمی سطح پر لڑی گئی۔ امریکہ کی طرف سے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم گرانے سے اس جنگ کا خاتمہ ہوا۔
نصرانیاں کہ باشند ہندوستاں سپارند
تخم بدی بکارند از فسق جاودانہ
ترجمہ: اس کے بعد عیسائی (انگریز) ہندوستان چھوڑ جائیں گے۔ لیکن جاتے ہوئے اپنے فسق سے ہمیشہ کے لئے بدی کا بیج بو جائیں گے۔
تشریح: انگریزوں نے یہ بدی کا بیج متعدد مسلم اکثریتی صوبوں ، اضلاع اور ریاست جموں کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے کی صورت میں بویا، جس پر آج تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ قائد اعظم کے الفاظ میں ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“۔ اور اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کا وصال بھی کشمیر ہی میں ہوا۔
آں مرد مانِ اطراف چوں مژدہ ایں شنودند
یکبار جمع آیند بر باب عالیانہ
ترجمہ: جب ارد گرد کے لوگ یہ خوشخبری سُنیں گے تو فورا ہی باب عالی پر اکٹھے ہو جائیں گے۔
تقسیم ہند گردد در دو حصص ہویدا
آشوب و رنج پیدا از مکر و از بہانہ
ترجمہ: ہندوستان دو حصوں میں واضح طور پر تقسیم ہو جائے گا۔ لیکن مکر و فریب سے آشوب و رنج پیدا ہو گا۔
تقسیمِ ہند کے بعد بے تاج بادشاہوں کے دور میں معاشرے کی زبوں حالی ، علماء کی ریا کاری، جنسی سیاہ کاری اور رشوت کی فراوانی کے بارے حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی آفاقی پیشنگوئی میں آگے چل کر فرماتے ہیں:
بے تاج بادشاہاں شاہی کنند ناداں
اجراء کنند فرماں فی الجملہ مہملانہ
ترجمہ: ہند و پاک پر بے تاج لوگ بادشاہی کریں گے، جبکہ نادان حکام احمقانہ احکام جاری کریں گے۔
از رشوتِ تساہل دانستہ از تغافل
تاویل یاب باشند احکامِ خسروانہ
ترجمہ: یہ رشوت لے کر سُستی کریں گے۔ جان بوجھ کر غفلت کریں گے۔ اپنے شاہی احکامات کے لئے بے سروپا جواز پیش کریں گے۔
عالم ز علم نالاں ، دانا ز فہم گریاں
ناداں بہ رقص عریاں مصروف والہانہ
ترجمہ: (حقیقی) عالم اپنے علم پر گریہ و زاری کریں گے۔ دانا لوگ اپنی فہم و فراست کا رونا روئیں گے جبکہ ناداں لوگ عریاں ناچ گانوں میں دیوانہ وار مصروف ہوں گے۔
شفقت بہ سرد مہری، تعظیم در دلیری
تبدیل گشتہ باشد از فتنہء زمانہ
ترجمہ: شفقت سرد مہری میں اور تعظیم دلیری میں تبدیل ہو جائیگی۔ یہ زمانہ میں فتنہ کے سبب سے ہو گا۔
ہمشیر با برادر، پسران ہم با مادر
نیزہم پدر بہ دختر مجرم بہ عاشقانہ
ترجمہ: بہن بھائی کے ساتھ، بیٹے ماؤں کے ساتھ اور باپ بیٹی کے ساتھ عاشقانہ فعل کے مجرم ہوں گے۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اس شعر میں ”مجرم بہ عاشقانہ“ کے الفاظ استعمال کر کے جنسی سیاہ کاری کی قبیح ترین حالت کو قدرے مہذب زبان میں بیان کرنے کی سعی فرمائی ہے جو اخلاقیات کے ارفع و اعلیٰ مراتب پر فائز صوفیاء اور اولیاء کا وطیرہ ہے۔
از امت محمدؐ سرزد دشوند بیحد
افعال مجرمانہ، اعمال عاصیانہ
ترجمہ: سرکارِ دو عالمﷺ کی امت سے بکثرت مجرمانہ افعال اور عاصیانہ اعمال سرزد ہوں گے۔
فسق و فجور ہر سُو رائج شود بہ ہر کُو
مادر بہ دختر خود سازد بسے بہانہ
ترجمہ: ہر طرف اور ہر گلی کوچہ میں فسق و فجور عام ہو جائے گا۔ماں اپنی بیٹی کے ساتھ بہت بہانہ سازی کرے گی۔
حلت رود سراسر حرمت رود سراسر
عصمت رود برابر از جبر مغویانہ
ترجمہ: حلال جاتا رہے گا، حرام کی تمیز جاتی رہے گی۔ عورتوں کی عصمت جابرانہ اغوائیگی سے جاتی رہے گی۔
بے مہر گی سر آید پردہ داری آید
عصمت فروش باطن معصوم ظاہرانہ
ترجمہ: نفرت پیدا ہو گی، بے پردگی آجائیگی۔عورتیں بےپردہ ہوں گی۔ بظاہرمعصوم لیکن اندرسےعصمت فروش ہوں گی۔
دختر فروش باشند عصمت فروش باشند
مردانِ سفلہ طینت با وضع زاہدانہ
ترجمہ: اکثر لوگ دختر فروشی اور عصمت فروشی کریں گے۔ بدکردار لوگ اپنی ظاہری وضع قطع زاہدوں جیسی رکھیں گے۔
بے شرم و بے حیائی درمرد ماں فزاید
مادر بہ دختر خود، خود را کند میزانہ
ترجمہ: لوگوں میں بے شرمی اور بے حیائی زیادہ ہو جائیگی، ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے آپ کا موازنہ کرے گی۔ گویا ماں حسن و جمال اور طرز و انداز میں خود کو اپنی بیٹی سے کم نہیں سمجھے گی۔
کذب و ریاء و غیبت ، فسق و فجور بیحد
قتل و زنیٰ و غلام ہر جا شوند عیانہ
ترجمہ: جھوٹ اور ریا کاری، غیبت اور فسق و فجور کی زیادتی ہو گی۔ قتل ، زنا اور اغلام بازی ہر جگہ عام ہو جائے گی۔
اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی پیشنگوئی کا رخ زمانے کے جاہل اور ریا کار علماء اور گمراہ مفتیان کی طرف موڑتے ہوئے ان کے تن بدن سے ظاہری زیب و زینت کا طرہ اور جبہ قبہ ہٹا کر انہیں اپنے اصلی رنگ و روپ میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آں مفتیانِ گمرہ فتو ے دہند بیجا
در حق بیان شرع سازند بسے بہانہ
ترجمہ: وہ گمراہ مُفتی غلط فتوے دیا کریں گے، شریعت کے حق بیان میں بہت بہانہ سازی کریں گے۔
فاسق کند بزرگی بر قوم از سترگی
پس خانہ اش بزرگی خواہد شود ویرانہ
ترجمہ: فاسق لوگ بڑی صفائی سے اپنی قوم پر بُزرگی کریں گے۔ پھر ان بُزرگوں کے گھروں میں ویرانی آئے گی۔
احکام دیں اسلام چوں شمع گشتہ خاموش
عالم جہول گردد جاہل بہ عالمانہ
ترجمہ: دینِ اسلام کے احکام شمع کی مانند خاموش ہو جائیں گے۔ عالم جاہل ہو جائیگا۔ جاہل گویا عالم بن جائے گا۔
آں عالمانِ عالم گردند ہمچوں ظالم
نا شستہ روئے خود را بر سر نہند عمامہ
ترجمہ: وہ دنیا کے عالم ظالموں کی طرح ہو جائیں گے۔ اپنے نہ دھوئے ہوئے چہرے کو سر پر دستار فضیلت رکھ کر سجائیں گے۔
زینت دہند خود را با طرہ و جبہ
گئو سالہ سامری را باشد درون جامہ
ترجمہ: اپنےآپ کوطرہ اورجبہ قبا کےذریعےعزت دیں گے۔گویاسامری جادوگر کےبچھڑے کولباس کےاندر چھپا لیں گے۔
زاہد مطیع شیطاں ، عالم عدو رحمٰن
عابد بعید ایشاں ، درویش با ریانہ
ترجمہ: زاہدشیطان کی اطاعت کرنےوالےاورعالم رحمان سےدشمنی کرنےوالےہونگے،جبکہ عابدعبادت سےدوراوردرویش ریا کاری کرنےوالے ہوں گے۔
رسم و رواج ترسا ، رائج شود بہ ہر جا
بدعت رواج گردد نیز سنت غائبانہ
ترجمہ: عیسائیوں جیسا رسم و رواج ہر جگہ رائج ہو گا۔ بدعت رواج پا جائیگی۔سنت پیغمبری غائب ہو گی۔
ناگاہ مومناں را شور پدید آید
با کافراں نمایند جنگے چوں رستمانہ
ترجمہ: اچانک مسلمانوں کو ایک ظاہر شور سنائی دے گا، کافروں کے ساتھ ایک دلیرانہ جنگ لڑی جائیگی۔
تشریح: یہ شعر اور اس کے بعد اگلے چار شعر واضح طور پر ٦ ستمبر ١٩٦٥ء کی پاک بھارت جنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔
شمشیر ظفر گیرند با خصم جنگ آرند
تا آنکہ فتح پابند از لطف آں یگانہ
ترجمہ: یہ (پاک فوج) فتح والی تلوار پکڑ کر دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتح حاصل کر لیں گے۔
از قلب پنج آبی خارج شوند ناری
قبضہ کنند مسلم بر شہر غاصبانہ
ترجمہ: پنجاب کے قلب سے ناری (جہنمی) لوگ بھاگ جائیں گے۔ مسلمان شہر پر غاصبانہ قبضہ کر لیں گے۔
تشریح: ایک لحاظ سے لاہور کو پنجاب کا دل کہا جاتا ہے، ٦٥ء کی جنگ میں دشمن کی فوجیں اچانک حملہ کر کے لاہور کے شالا مار باغ سے چند میل دور باٹا پور کے قرب و جوار تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن پاک فوج کی سخت مزاحمت سے وہ بی آر بی نہر کو کراس نہیں کر سکیں۔ بی -آر۔بی پُل کے ساتھ سڑک کے کنارے ان عظیم شہداء کی یادگار کھڑی ہے جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے لاہور کا دفاع کیا۔ دوسرے معنوں میں یہ شعر واہگہ سرحد کے قریب ہندوستان کے اندر کھیم کرن شہر پر پاک فوج کے قبضہ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
از لطف و فضل یزداں بعد از ایام ہفدہ
خوں ریختہء و قربان دادند غازیانہ
ترجمہ: سترہ روز کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام کے غازی خونریزی کر کے اور قربانی دے کر کامیاب ہونگے۔
تشریح: اس جنگ میں ”ایام ہفدہ“ (١٧ دن) کے الفاظ کہہ کر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے ٨٠٠ سال قبل ٦ ستمبر ١٩٦٥ء پاک بھارت کی سترہ روزہ جنگ، نہ ایک دن کم ، نہ ایک دن زیادہ، کی بات کرکے اپنی پیشنگوئی کا لوہا منوایا ہے۔
درحین بے قراری ہنگام اضطراری
رحمے کند چو باری بر حال مومنانہ
ترجمہ: اس بے قراری اور اضطراب کے وقت ذات باری تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائیں گے۔
مومنان میر خود را از سفینہ تنزیل سازند
بر مسلماں بیاید تذلیل خاسرانہ
ترجمہ: مسلمان اپنے امیر (صدر) کو اپنی حماقت سے (عہدہ صدارت) سے اتار دیں گے۔ اس کے بعد مسلمانوں پر خسارہ والی ذلت آئے گی۔
تشریح: ١٩٦٥ء کی جنگ کے تذکرے کے بعد اس شعر میں صدر محمد ایوب خاں کو مسند سے اتارنے کے عمل کو مسلمانوں کے لئے نقصان دہ امرقرار دیا گیا ہے۔
خونِ جگر بنوشم از رنج با تو گوئم
للہ ترک گردان آن طرز راہبانہ
ترجمہ: میں اپنےجگرکاخون پی کربڑے رنج وغم سےتجھےکہتا ہوں کہ خدا کےلئے وہ راہبوں والا طریقہ ترک کر دیں۔
قہر عظیم آید بہر سزا کہ شاید
آخر خدا بہ سازد یک حکم قاتلانہ
ترجمہ: ایک بہت بڑا قہر آئیگا جو سزا کے طور پر ہو گا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ ایک قاتلانہ حکم جاری کر دیں گے۔
کشتہ شوند مسلماں افتاں شوند خیزاں
از دست نیزہ بنداں یک قوم ہندوآنہ
ترجمہ: ایک اسلحہ بند ہندو قوم کے ہاتھوں مسلمان گرتے پڑتے اور اُٹھتے ہوئے جان سے مارے جائیں گے۔
مشرق شود خرابے از مکر حیلہ کاراں
مغرب دہند گریہ بر فعل سنگدلانہ
ترجمہ: مشرقی پاکستان حیلہ کاروں کے فریب سے تباہ ہو گا۔ جبکہ مغربی پاکستان والے اپنے سنگدلانہ فعل پر گریہ و زاری کریں گے۔
تشریح: اہل فہم و فراست پاکستان کے حکمرانوں اور مغربی پاکستان کے بااختیار بیوروکریسی کے متعصبانہ، جانبدارانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔
ارزاں شود برابر جائیداد و جان مسلم
خوں می شود روانہ چوں بحر بیکرانہ
ترجمہ: مسلمانوں کی جان اور جائیداد یکساں طور پر سستی ہو گی۔ایک بحر بیکراں کی طرح مسلمانوں کا خون رواں ہو گا۔
شہر عظیم باشد، اعظم ترین مقتل
صد کربلا چوں کربل باشد بخانہ خانہ
ترجمہ: ایک بہت بڑا شہر (ڈھاکہ) ایک بہت بڑا مقتل بنے گا۔کربلا کی طرح سینکڑوں کربلائیں گھر گھر سے رونما ہوں گی۔
رہبر ز مسلماناں در پردہ یار آناں
امداد دادہ باشد از عہد فاجرانہ
ترجمہ: مسلمانوں کے رہبر ( شیخ مجیب الرحمٰن وغیرہ) در پردہ بھارتی فوج کے دوست ہونگے اور اپنے فاجرانہ اقرار سے انہیں امداد دیں گے۔
ایں قصہ بین العیدین از شین و نون شرطین
سازد ہنود بدرا مغلوب فی زمانہ
ترجمہ: یہ واقعہ دو عیدوں کے درمیان رونما ہو گا جبکہ سورج پچاس درجہ پر ہو گا اور چاند شرطین کی منزل میں ہو گا۔ اس وقت ہندو ہر بڑے آدمی کو مغلوب کر دے گا۔ در اصل شین سے شمس مراد ہے اور نون سے پچاس درجہ، شرطین سے چاند کی دو تاریخ مراد ہے۔( یہ واقعہ ٢٢ نومبر ١٩٧١ء کو صدر یحییٰ خان کے دور میں رونما ہوا)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اب تک پچھلے صفحات میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کے جو چیدہ چیدہ اشعار گزرے ہیں۔ ان میں بعض مقامات پر واقعات کے لحاظ سے ترتیب اور تسلسل قائم نظر نہیں آتا ۔ بہ الفاظ دیگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درمیان سے کچھ اشعار غائب ہو گئے ہیں یا پھر صدیوں سے اصل قلمی نسخہ سے نقل در نقل کر کے کچھ اشعار آگے پیچھے ہو گئے ہیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ تمام اشعار ماضی قریب یا بعید کے واقعات اور حوادث بیان کرتے ہیں۔ جبکہ آج سے تقریبا ٧٠ برس پہلے کے واقعات کی تصدیق کیلئے ہمارے درمیان اب بھی ایسے ہزاروں بزرگ عینی شاہدین موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف قیام پاکستان بلکہ اس سے قبل جنگ عظیم دوئم وغیرہ کے واقعات بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے جو اس پیشنگوئی کی سچائی اور صداقت پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ اسی طرح پانچ چھ سو سال قبل کی تاریخ کے مطابق نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے گزرے ہوئے پیشنگوئی کے اشعار میں خاندان مغلیہ کے قریبا تمام بادشاہوں کے ناموں اور ان کی مدت حکمرانی کا ذکر کیا ہے۔
***************
0 comments:
Post a Comment