چین کی بحری تجارت کےماڈل کےموجد محمود شمس (زنگ خا) کون تھے؟
چین نے جنوب مشرقی ایشیا، بحرِ ہند، (گوادر، سی پیک)، بحیرہ عرب، خلیج فارس، بحیرہِ احمر اور مشرق وسطیٰ کی دیگر بندرگاہوں کو جدید بنانے کا عمل کافی عرصے سے شروع کیا ہوا ہے اور وہ اسے ’تجارتی اور اقتصادی ترقی کا بنیادی انفراسٹرکچر‘ کہتا ہے مگر چین کے مخالف ممالک چین کی اس پالیسی کو فوجی قوت اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی ایک حکمتِ عملی قرار دیتے ہیں
مگر چین کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ اُس کے سڑکوں، ریلوے لائنوں اور بندرگاہوں جیسے بڑے منصوبوں کی تعمیر تجارتی اور اقتصادی مقاصد کے لیے ہے نہ کہ دیگر قوموں کو محکوم بنانے کے لیے۔
جب چین نے اپنے کھربوں ڈالر کے تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کیا تھا تو چین کی قیادت نے بندرگاہوں اور سمندر کے راستے سے تجارت کے لیے جو ماڈل پیش کیا تھا وہ 15ویں صدی کے چینی مسلمان ایڈمرل ژنگ خہ کا تیار کردہ تھا۔ ایڈمرل ژنگ نے اُس دور میں دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت تیار کی تھی لیکن اس کی مدد سے کسی بھی ملک کو زیرِ نگیں نہیں بنایا تھا۔ ماہرین اُن کی اس پالیسی کو اشتراک اور تعاون کی پالیسی قرار دیتے ہیں۔
ایڈمرل ژنگ خہ کون تھا اور اسکا پس منظر کیا تھا
ژنگ خہ یا ماہو کہلائے جانے والے اس بچے کا مسلمان نام محمود شمس تھا۔ بعض کتابوں میں ان کا نام محمد بھی لکھا گیا ہے۔ ان کے والد کا نام میر تکین اور دادا کا نام خرم الدین بتایا جاتا ہے۔ ان کے پڑدادا کے دادا کا نام سید اجّل شمس الدین تھا (بعض تاریخی ذرائع میں سید اجّل شمس الدین عمر بھی لکھا گیا ہے)۔ سید اجّل کا تعلق وسطی ایشیا کے شہر بخارا سے تھا اور انھیں منگول حکمران قبلائی خان نے گورنر نامزد کر کے یوحنان بھیجا تھا۔تاریخ میں آج ژنگ خہ کہلانے والے چینی ایڈمرل یوحنّان نامی علاقے میں سنہ 1371 میں چین کی مسلمان برادری ’ہوئی‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ مسلم برادری آج بھی چین میں ’ہوئی‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور یہ وہ مسلمان تھے جو وسطی ایشیا کے مختلف خطوں سے چین میں یا تو خود سے پناہ لینے پہنچے تھے یا منگولوں کے ہمراہ حملہ آور بن کر آئے تھے۔
ژنگ خہ کا جنم اس دور میں ہوا تھا جب منگولوں کو مقامی مِنگ خاندان کے ہاتھوں شکست کا سامنا تھا۔ ژنگ خہ کا خاندان منگولوں کے لیے لڑا تھا۔ زنگ خہ کی عمر اس وقت 10 برس تھی جب مِنگ آرمی باغیوں کو ڈھونڈتی ہوئی اُن کے علاقے تک پہنچی۔ زنگ خہ کا خاندان مارا گیا مگر انھیں زخمی حالت میں حراست میں لے لیا گیا۔
ژنگ کے ساتھ بھی وہی کیا گیا جو اُس دور میں کم عمر مرد قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا تھا، یعنی اُن کی جنسی صلاحیت ختم کر دی گئی۔ننجینگ یونیورسٹی کے پروفیسر لوئی ینگ شینگ کہتے ہیں کہ ژنگ خہ کی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔اسی بچے نے بعد میں چین کی عظیم الشان بحریہ کا سربراہ بن کر انڈیا، خلیجِ فارس اور افریقہ تک اپنے وقت کے سب سے بڑے بحری بیڑے پر تجارتی، سفارتی اور ثقافتی نوعیت کے سات سفر کیے۔
13ویں صدی تک چین کے بیشتر حصوں پر منگولوں کا قبضہ تھا۔ وقت کے ساتھ جب منگولوں کی بد نظمی، بدعنوانی اور زیادتیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو چین کی مقامی قوم حاننی (ہنز) کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔
ان حالات میں مِنگ خاندان کے کسانوں نے منگول حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی اور چین کے اِس حصے پر قبضہ کر لیا۔ ان کی بغاوت اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ اُس وقت چین کے اس خطے میں فصلیں تباہ ہوئی تھیں اور قحط پیدا ہو گیا تھا۔مِنگ خاندان کے کسان جنگجو ’ہونگ وُو‘ نے 1368 میں منگولوں کے حمایت یافتہ یوآن خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے اپنی بادشاہت قائم کر لی۔ ہونگ وُو پیشے کے لحاظ سے ایک کسان تھے۔ یوآن خاندان کے زمانے کے کئی تاجر اور علما نے نئے خاندان کی حکومت سے تعاون کیا جن میں مسلمان ماہرین بھی شامل تھے جو چین کے اس خطے میں آباد ہو چکے تھے۔
برمنگھم یونیورسٹی کے قدیم چینی تاریخ کے پروفیسر یوہانس لوٹزے اپنی ایک تصنیف میں 1368 سے 1453 کے دور کے حالات پر کی جانے والی تحقیق میں بتاتے ہیں کہ ہونگ وُو کے جرنیلوں میں دس مسلمان بھی تھے۔بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ مِنگ خاندان کا پہلا شہنشاہ خفیہ طور پر مسلمان تھا تاہم کئی مؤرخین نے اس بات کو مسترد کیا ہے۔ ہنگ وُو کی ایک بیوی مسلمان تھی جبکہ اس نے اپنی ایک بیٹی وسطی ایشیا کے (بعض روایات کے مطابق سمرقند) کے علم الافلاک کے ماہر محمد شیحی سے بیاہی تھی۔لیکن مِنگ خاندان کو کچھ مسلمان جرنیل اور علما تو سابق حکمران خاندان یوآن کے ترکے میں ملے تھے اور کچھ انھوں نے خود بھرتی کیے۔
ہونگ وو کا انتقال سنہ 1398 میں ہوا لیکن اُس کی وصیت کے مطابق اُس کا جانشین اُس کے پوتے جیان وین کو بنایا گیا۔ تاہم جلد ہی وہ نااہل ثابت ہوا اور اس کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ اُس نے کنفیوشسزم کے حامی درباریوں کے ذریعے اپنی طاقت بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کے چچا ژو ڈی نے اُس کے خلاف بغاوت کر دی۔بغاوت میں اُس کے مسلمان سپاہی اور جرنیل دلیری سے اُس کے لیے لڑے اور بالآخر وہ کامیاب ہوا اور یونگ لی کے لقب کے ساتھ وہ شہنشاہ بن گیا۔ اور یہاں سے ایڈمرل ژنگ خہ کی عظمت کی کہانی شروع ہوتی ہے۔
جب 10 برس کی عمر میں یوحنّان میں ژنگ خہ کو جنسی صلاحیت سے محروم کیا گیا تو اُسے ژو ڈی کے حرم خانے میں ایک ملازم کے طور پر رکھا گیا تھا۔ تاہم ژو ڈی کے ہاں کام کرنے کی وجہ سے زنگ خہ کو بہتر تعلیم و تربیت، انتظامی امور کی سمجھ اور فنِ سپاہ گری سیکھنے کا اچھا موقع ملا۔ وہ تیزی سے ترقی پاتا ہوا ایک گھریلو ملازم سے آج کے عہدے کے لحاظ سے ژو ڈی کا (جو ابھی شہنشاہ نہیں بنا تھا) چیف آف سٹاف بن چکا تھا۔یعنی ژنگ خہ مِنگ خاندان کے تیسرے شہنشاہ ژو ڈی یا یونگ لی کے بادشاہ بننے سے پہلے ہی سے اُس کے معتمدِ خاص بن چکے تھے۔ یونگ لی کی اپنے بھتیجے شہنشاہ جیان وین کے خلاف بغاوت کے وقت ماہو نے اپنی دلیری کے جوہر دکھائے تھے اس پر نئے شہنشاہ نے اُسے ’ژنگ خہ‘ کا لقب دیا تھا۔
زنگ خہ نے بچپن میں اپنے والد اور دادا سے ان کے حج کے سفر کے قصے سُنے تھے۔ اس لیے اُسے حج کی کہانیاں متاثر کرتی تھیں۔ اُس زمانے کے ’ہوئی‘ مسلمانوں کی روایات کے مطابق وہ چینی زبان کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں کا بھی علم رکھتا تھا۔ ژنگ خہ نے شاہی تعلیمی ادارے ’نانجینگ ٹائیگژو‘ سے تعلیم حاصل کی تھی۔
شہنشاہ یونگ لی نے ایڈمرل ژنگ خہ کو ایک بہت بڑے بحری بیڑے کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ سنہ 1405 میں جب ژنگ خہ نے پہلا بحری سفر کیا تھا تو اُس کے پاس 317 بحری جہاز تھے اور اس کے ساتھ سفارتی، فوجی، تجارتی اور دیگر خدمات کے لیے افرادی قوت تقریباً 28 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
ژنگ خہ کے اپنے مرکزی جہاز پر بادبانوں کو سہارا دینے کےلیےنو مستول لگے ہوئے تھے۔ بحری سفر کے دوران اتنی بڑی تعداد کا انتظام اتنی باریکی کےساتھ منظم کیا جاتا تھا کہ ایک بھی جہاز دوسرے سےٹکراتا نہیں تھا۔ یہ بحری جہاز ایک بیضوی شکل میں حرکت کرتےتھے۔بڑے سائزکےجہازمرکز میں ہوتےتھےاورچھوٹےجہازباہرکےدائرے کی جانب ہوتےتھے۔
چونکہ ژنگ خہ مسلمان تھا اور چین کی مغربی دنیا سے بہت زیادہ واقف تھا اور اُسے کئی ایک ایرانی اور عرب تاجروں کی خدمات بھی حاصل تھیں، اس وجہ سے شہنشاہ کا اُسے اس بڑے مشن کی ذمہ داری دینا ایک قدرتی امر تھا۔ اُس نے بحری راستوں کا بہت گہرا مطالعہ کیا، علم الافلاک کے ماہرین کے ذریعے سمندر کے راستوں کو سمجھنے کا علم بھی حاصل کیا، اس علم میں مسلمان پہلے ہی کمال حاصل کر چکے تھے۔ بحری جہازوں کی تعمیر کے لیے شپ بلڈنگ کی صنعت کو اپنی زیرِ نگرانی تعمیر کرایا۔ مقناطیسی قطب نما بھی بنوایا جو ک اُس وقت ایک جدید ٹیکنالوجی تھی۔ کئی کئی مستولوں کے جہاز بنائے گئِے۔
ژنگ خہ کے بحری بیڑے کے باقی جہازوں میں، جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے، ہزاروں کی تعداد کے عملے کی غذا، پانی، خدمت گزاروں کا عملہ، گھوڑے، توپ و تفنگ، ریشم اور دیگر قیمتی پارچاجات، چینی مٹی کے قیمتی برتن، سنہری روغن، لاکھ اور شراب سے بنے ہُوئے برتن، چائے، کالی مرچیں، سونا چاندی، لوہے سے تیار کرہ اشیا تھیں جو کہ دور دراز ممالک کے حکمرانوں کو تحفے میں دی جاتی تھیں۔یہ تحفے برونائی، انڈونیشا، جاوا، سماٹرا، ملاکا کے سلطانوں، ویت نام، بنگال، اور سری لنکا کے راجاؤں، انڈیا کی معروف بندرگاہوں، کالی کٹ، کوچن اور مالابار کے حکمرانوں، خلیج فارس کے منہ پر ہُرمُز نامی بندرگاہ کے حکمرانوں، یہاں تک کے بندرگاہوں سے دور ایران کے مختلف علاقوں کے حکمرانوں، ترکی کی ابھرتی ہوئی عثمانیہ سلطنت کے عہدیداروں، یمن کے علاقے میں حضرموت اور عدن کی بندرگاہوں کی مقامی حکومتوں، موغادیشو، موزمبیق، مالدیپ کے حکمرانوں کو دیے گئے۔ غرض کے بحرِ ہند کی کوئی ساحلی حکومت ایسی نہیں تھی جس سے ژنگ خہ نے براہِ راست خود یا اُس کے بیڑے کے کس اعلیٰ اہلکار نے رابطہ نہ کیا ہو۔
بعض مؤرخین نے ژنگ خہ کے جہازوں کا جدہ تک جانے کا ذکر کیا ہے جہاں ژنگ خہ اور اُس کے ساتھی مکہ و مدینہ تک پہنچے ہیں۔ مؤرخین کا اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا اُنھوں نے حج کیا تھا یا نہیں۔ تاہم اگر حالات اور ژنگ خہ کی اپنی زندگی کا اندازہ لگایا جائے تو کوئی سبب نہیں ملتا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ جائیں اور عمرہ یا حج نہ کریں۔وہ تو بچپن سے اپنے باپ اور دادا سے حج کی کہانیاں سنتا تھا جنھوں نے، بقول مؤرخین، اُس کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا
1424 میں شہنشاہ یونگ لی کا انتقال ہو گیا تھا اور نیا بادشاہ ایک برس بعد ہی انتقال کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یونگ لی کا پوتا بادشاہ بنا تو اُس کی بحری مہمات میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے ژنگ خہ کو ساتویں اور آخری بحری مہم کے لیے چھٹی مہم کے دس برس بعد اجازت دی۔ ساتویں مہم کا 1431 میں آغاز ہوا اور یہ سنہ 1433 میں مکمل ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ 62 برس کی عمر میں ژنگ خہ کا اس ساتویں مہم سے واپسی کے دوران بحری جہاز پر ہی انتقال ہو گیا تھا۔ ژنگ خہ کی قبر اُس وقت کے چینی دارالحکومت نانجِنگ میں بنائی گئی تھی جو آج بھی موجود ہے۔
؎چین میں ژنگ خہ کو تقریباً بھلا دیا گیا تھا۔ لیکن بیرون ممالک رہنے والی چینی کمیونیٹیز نے اُس کی یاد کو پھر سے زندہ کیا ہے، جس کی خاص وجہ جنوبی مشرقی چین کی بندرگاہیں ہیں جہاں اُس نے کبھی اپنے سفر کے دوران کئی یادگاریں چھوڑی تھیں۔ ان بندرگاہوں میں سے چند پر اُس نے لاٹیں (پتھر کے کتبے) تعمیر یا نصب کروائی تھیں جن پر مِنگ خاندان کے بادشاہ کے اُن ممالک کے لیے خیر سگالی کے پیغامات کُندہ کیے گئے تھے۔اُن ہی لاٹوں میں سے ایک سری لنکا کی ایک بندرگاہ گیل سے سنہ 1911 میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئی تھی جو آج بھی وہاں کے مقامی میوزیم میں محفوظ ہے۔ یہ لاٹ یا پتھر کی سِل پر کندہ کیا گیا کتبہ تین زبانوں میں مِنگ شہنشاہ یونگ لی کے پیغام پر مشتمل ہے۔
مِنگ خاندان کی حکومت نے ژنگ خہ کے بحری تجارتی مہمات کی وجہ سے کافی منافع بھی کمایا تھا جس کی وجہ سے شہنشاہ کو اتنے مالی وسائل حاصل ہو گئے کہ اُس نے ’ممنوعہ شہر‘ کی تعمیر کا حکم دیا۔ یہ وہی ممنوعہ شہر ہے جو بعد میں بیجنگ کے نام سے مشہور ہوا اور اب چین کا دارالحکومت ہے۔
انہی مہمات سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کی وجہ سے چین میں ایک بڑی نہر بھی کھودی گئی جس کا زرعی اور تجارتی فائدہ ہوا۔ مؤرخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دو بڑی تعمیرات ژنگ خہ کی مہمات کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔
تاریخ میں کئی بارایسا ہوا ہےکہ کامیابیاں شدت کےساتھ حسد کےجذبات بھی پیدا کردیتی ہیں، شاید ایسا ہی ژنگ خہ کے ساتھ ہوا۔
شہنشاہ یونگ لی کے 1424 میں انتقال کے بعد اُس کا بیٹا ہونگژو بادشاہ بنا۔ لیکن وہ اس کے بعد صرف ایک برس زندہ رہا۔ 1425 میں ہونگژو کا بیٹا ژوانڈو بادشاہ بنا۔ ژوانڈو 1435 تک بادشاہ رہا اور مجموعی طور پر ایک کامیاب بادشاہ نہیں تھا۔ سنہ 1433 میں وہ اس آخری مہم کے بعد 317 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑے کو جلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مؤرخین کے پاس اِس دور کی بہت کم معلومات ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اتنی سرمایہ کاری کے بعد مِنگ خاندان کے چین نے بحری مہمات کا خاتمہ کیوں کیا؟
*************
Posted in: Columns & Articles,History,Personalities
Email This
BlogThis!
Share to Facebook
0 comments:
Post a Comment