Ads

Wednesday, August 28, 2019

جرنیلی سڑک یا گرینڈ ٹرنک روڈ جسے جی ٹی روڈ کہا جاتاہے

شیرشاہ سوری کی جرنیلی سڑک یا گرینڈ ٹرنک روڈ جسے جی ٹی روڈ کہا جاتاہے

بہار صوبے کے زمیندار ابراہیم خان سوری کے پوتے اور مغل دربار میں خاص اثر رکھنے والے فرید خان سوری کے بیٹے شیر شاہ سوری بلاشبہ ہندوستان کی تاریخ کے اک شاندار حاکم گزرے ہیں شیرشاہ سوری نے جب ۱۵۳۸ میں ظہرالدین بابر کے بیٹے ہمایون سے اقتدار لے ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ تھی، جو موجودہ افغانستان کے شہرکابل سے لے کرکلکتہ  تک پھیلی ہے، تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔

اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو بعد میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل سے ہوتا ہوا پہلے لاہور پھر دہلی سے ہو کر بالآخر کلکتہ جا کر ختم ہوتا ہے۔ کابل افغانستان میں حکومتوں کا مرکز رہا دہلی مغل بادشاہوں اور پھر کلکتہ انگریز سرکار کی حکومت کا ہیڈ کوارٹر بنا۔
یہ جرنیلی سڑک اٹھارویں صدی تک نقل و حمل اور تجارتی اعتبار سے انتہائی اہمیت اختیار کر گئی۔ جرنیلی سڑک کا گزر دو ہزار سال سے بھی زائد قدیم تہذیبی مرکز ٹیکسلا سے بھی ہوتا ہے۔ اس سڑک کے کناروں پر مسافروں کی سہولیات کی خاطر جگہ جگہ سرائے بنائے گئے اور سائے کے لیے درختوں سے سجایا گیا۔
شیر شاہ سوری نے مسافروں کی آسانی کی خاطر جرنیلی سڑک پر کم و بیش ہر دو کلومیٹر کے بعد کوس مینار بنائے جو سفر کے دوران مسافروں کی رہنمائی کرتے۔ یہ کوس مینار آج بھی دہلی، کابل اور لاہور کی اس جرنیلی سڑک کے قرب و جوار میں موجود ہیں۔

لاہور کے گنجان آباد علاقے مغل پورہ میں کراچی پھاٹک کے عقب میں کھڑا یہ قدیم کوس مینار آج بھی ماضی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ 
شیر شاہ سوری کی موت کے بعد جب مغل خاندان نے ہندوستان میں حکومت قائم کی تو بھی اس جرنیلی سڑک کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس جرنیلی سڑک کے ساتھ قدیم شہروں کے ساتھ ساتھ نئے شہر، نئی آبادیاں بنتی چلی گئیں۔اکبر بادشاہ اسی جرنیلی سڑک کے ذریعے حکومتی مرکز لاہور آتا اور پھر اس سڑک کے قریب اکبر بادشاہ کے دور میں ہی لاہور میں دھرم پورہ کا علاقہ آباد کیا گیا جہاں پر حضرت میاں میر بالا پیر کی دربار پر اورنگزیب عالمگیر بھی حاضری کے لیے آتے رہے ہیں۔
کلکتہ پر برطانوی جھنڈا لہرانے کے بعد جب لاہور میں بھی 1849ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو یہ جرنیلی سڑک فوجی آمد و رفت اور نقل و حمل کا مرکز بن گئی۔ ہندوستان پر 1857ء میں انگریزوں کے مکمل قبضے کے بعد اسی جرنیلی سڑک کے ساتھ ساتھ ریل کا وسیع تر جال بچھایا گیا۔
جی ٹی روڈ پر جب بھی سفر کا اتفاق ہو تو اکثر و بیشتر مقامات پر ریلوے ٹریک بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو سفر کے منظر کو مزید دلکش بنا دیتا ہے۔ وقت بدلتا گیا جرنیلی سڑک جو جی ٹی روڈ بن گئی اس کا روٹ تو نہیں بدلا لیکن جغرافیائی اہمیت بدل گئی۔
آجکل یہ روڈ کونسے شہر سے شروع ہوکر آج کل کون کون سے شہر سے گزرتا ہوا کونسے شہر پر ختم ہوتاہے۔ اس سب کی تفصیل آخرمیں دی گئی۔
وہ وقت گزر گیا جب کابل سے کلکتہ تک بغیر کسی سرحد کے اس روٹ کے تحت حکمران اور عوام سفر کیا کرتے تھے۔ شیر شاہ سوری کو کیا معلوم تھا کہ وہ جو سڑک تعمیر کر رہا ہے، 400 سال بعد تقسیم ہند کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ہجرت پاکستان کے مہاجرین نے اسی جی ٹی روڈ سے کی تھی۔
اب جرنیلی سڑک چار ملکوں میں تقسیم ہے۔ افغانستان، پاکستان ، ہندوستان اوربنگلادیش چاروں ملکوں کے حصے میں آنے والی یہ جرنیلی سٹرک تو موجود ہے لیکن اس کی شکل بدل گئی ہے اور اس سڑک کے ساتھ ساتھ شاہراہوں کا جدید نظام متعارف ہونے کے بعد یہاں پر آمد و رفت بھی کُچھ کم ہوگئی ہے۔
لاہور سے گزرنے والی جرنیلی سڑک کا نقشہ تو اب بالکل بدل رہا ہے۔ جرنیلی سڑک پر مغل دور کی نشانی شالامار باغ، چوبرجی، مقبرہ دائی انگہ، بدھو کے مقبرے کا وجود خطرے میں ہے۔ دائی انگہ کا مقبرہ جس گلابی باغ میں موجود ہے یہ باغ اب خطرے سے دوچار ہے۔
دائی انگہ سے متعلق تاریخ میں درج ہے کہ یہ شاہ جہاں دور کی مشہور دایہ تھی۔ چوبرجی چوک کا باغ زیب النساء پہلے ہی گمنامی کی تاریخ میں چلا گیا ہے۔ جرنیلی سڑک پر پنجاب کی حکومت اب لاہور میں آبادی کا دباؤ بڑھنے اور سفری سہولیات میں اضافہ کی خاطر چین کی معاونت سے 165ارب روپے کی لاگت سے میٹرو ٹرین بنا رہی ہے۔
لاہور کے جی ٹی روڈ کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ان تاریخی عمارات پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنے تحفظات سے متعلق پنجاب حکومت کو ضرور آگاہ کیا اور پھر حکومت نے دو مہینے بعد جرنیلی سڑک پر موجود ان عمارات کو محفوظ رکھنے کا وعدہ بھی کر دیا لیکن میٹرو ٹرین کا نقشہ نہیں بدلا۔
یہ جرنیلی سڑک جو چارملکوں کو ملانے والا اہم تجارتی روٹ رہا ہے اس کی اہمیت ماضی میں شاہراہ ریشم سے کم نہیں رہی۔ آج بھی کراچی سے پشاور جانے والے ٹرک و ٹرالر جی ٹی روڈ سے ہی گزرتے ہیں، صنعتی مال اور مصنوعات کی نقل و حرکت اسی جی ٹی روڈ سے ہی ہوتی ہے۔
جی ٹی روڈ کی طرز پر آج چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں سڑکوں اور شاہراہوں کا ایسا جال بچھا رہا ہے جس سے ذرائع مواصلات کا نیا نظام متعارف ہوگا، اور ہوسکتا ہے کہ تکمیل کے بعد جی ٹی روڈ کی موجودہ اقتصادی حیثیت اسے حاصل ہوجائے، لیکن جو تاریخی اہمیت جی ٹی روڈ کو حاصل تھی اور ہے، وہ کسی اور شاہراہ کو حاصل نہیں ہو سکتی۔

یہ 2500 کلومیٹر لمبی شاہراہ ان شہروں سےہوتاہوا کابل سے چٹاکانگ پر ختم ہوتاہے۔
افغانستان کے درالحکومت کابل سے شروع ہوکر جلال آباد، تورخم وہاں سے ہوتاہوا پاکستان کے علاقے تورخم ، لنڈی کوتل ، ولی خیل ، علی مسجد ، جمرود ، پشاور ، نوشہرہ ، اٹک ، واہ کینٹ ، اسلام آباد،  ترنال ، راولپنڈی ، ٹیکسلا ، گجر خان ، جہلم ، کاریاں ،گجرات ،گجرانوالا ،کاموکی ، مریدکے، لاہور ، واہگہ بارڈر ، اور واہگہ بارڈر سے ہوتا ہوا ہندوستان کے علاقے آٹاری ، امرتسر ،کارتارپور، جالندھر، پگواڑہ ،گورایا ، لودیانہ ،خانا ، سرہند، راج پور ، امبالا، شاباد مرکانڈا، کروشترا ، کرنال،  پانی پت ، سونی پت،  دہلی ، غازی آباد،  بلند شہر ،علی گڑھ ، ایتاہ،  کنوج ، کانپور، فتح پور، کاغا ، اللہ آباد ، خاندیا، گوپی گنج ، ورانسی ،موہانیہ، سسارام ، دہری ، اورنگ آباد، دومری، د نباد، اسانسول ، رانی گنج ، درگا پور، بردامان، کولکتہ، گیگاتہ ،دنگاون ، پٹراپول سےہوتا ہوابنگلادیش میں داخل ہوکرعلاقہ بینا پول سےہوتا ہواجیکارگاچہ، جیسورے ، ڈاکہ، سنارگان ،جمالدی، داود کاندی ،کامیلا، فینی ، بروئر ہت ، ستاکونڈا، بٹایاری اورشالیمارسےہوتا ہواچٹاکانگ پرختم ہوجاتاہے۔


اس شاہراہ کےپہلےبھی کئی نام رکھےگئےہوں گےمگرسلطان شیر شاہ سوری کےبعد پھرانگریزسرکارنےاس شاہراہ کو ”جرنیلی سڑک“ سےباقاعدہ عوامی شاہراہ بنا کراس کا نام گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جی ٹی روڈ رکھ دیاجو اس وقت بھی زندھ ہے۔
اک انگریز تاریخ دان ”رڈیارڈ کپلنگ“ نے جی ٹی روڈ کو تاریخ کا عظیم شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ دنیا میں اکثر شہر دریاؤں کے کنارے آباد ہوئے ہیں مگر جی ٹی روڈ واحد شاہراہ ہے جس نے سب سے زیادہ شہر آباد کیے ۔ بر صغیر کی ترقی میں اس شاہراہ کا اہم کردار رہا ہے۔
اسی شاہراہ کے کنارے سناتن دھرم اور اسلامی تعمیرات کے کمال شاہکار بھی موجود ہیں۔ جن میں ہندو حکمرانوں کا بنایا ہوا مہابودی مندر، مسلم حکمرانوں کا تعمیر کردہ کوس مینار اور قلعہ روہتاس نمایاں ہیں۔
جی ٹی روڈ اس وقت بھی اک شاہی روڈ ہے، کافی لوگوں کو یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان پر اصل میں راج کرنے والے اکثریتی شہر اور لوگ اسی جی ٹی روڈ کنارے آباد ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر انڈسٹری، ہنرمندی، تعلیمی ادارے، زرخیز زمینیں اور طاقتور ادارے بھی اسی روڈ کنارے موجود ہیں۔ اسی طرح سے افغانستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اہم اور طاقتور شہر اسی روڈ سے منسلک ہیں، پھر کیوں نہ جی ٹی روڈ کو اہم قرار دے کر تمام منسلک ممالک کے لئے کھول دیا جائے۔
اہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر چاروں ممالک صرف جی ٹی روڈ کو آپس میں تجارت کے لئے کھول دیں تو سب خوشحال ہوجائیں گے۔ سی پیک کی اہمیت سے انکار نہیں مگر جی ٹی روڈ کے آگے سی پیک کی کوئی حیثیت نہیں۔ جی ٹی روڈ ممالک اور عوام کو آپس میں جوڑنے کے ساتھ ہزاروں سالوں پر محیط تاریخی اور ثقافتی ورثے کو بھی پھر سے اجاگر کرنے اور محفوظ بنانے کے لئے کارگر ہوگی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جی ٹی روڈ خود ہی درمیاں کے فاصلوں سمیٹ کر رکھ دے۔ اس لئے سرکار کو چاہیے کہ سی پیک ضرور تعمیر کرے مگر ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ کو بھی سی پیک کی طرز پر کھولنے کی طرف دھیان دے، اس سے جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک بھی مضبوط ہوجائے گی، دوریاں کم ہوں گی اور یہ تمام غریب ممالک ترقی یافتہ بھی ہو جائیں گے

**************    

5 comments:

Anonymous said...

Good Info!

Unknown said...

So nice picture of the golden time congratulations

Unknown said...

So nice history of the old time congratulations

Anonymous said...

بہت خوب سر آپ کے حسین خیالات جی ٹی روڈ کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی سر آپ سے مستقل رابطے میں رہ سکتے ہیں ایک علمی سفر کا ساتھ ہو گا بہت مہربانی ہوگی آپ کی

Anonymous said...

ایک دفعہ میں دادا ابو کے ساتھ کہیں جا رہا تھا تو انہوں نے کہا کے یہ بہت پرانی سڑک ہے لیکن اب صرف مکامی لوگ گزرتے ہیں یہ سڑک 58/15L اور59/15L تحصیل میاں چنوں ضلع خانیوال سے گزتی ہے

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |