ہندوستان کے پہلے مسلمان سلطان قطب الدین ایبک
یہ یہ تقریبن نو آٹھ سو سال قبل کی بات ہے جب سلطان معزالدین (شہاب الدین) غوری افغانستان کے شہر اور اپنے دارالحکومت غزنی میں عیش و نشاط کی محفلیں آراستہ کیا کرتے تھے اور مصاحبوں کے ہنر اور ان کی عقل و دانش کی باتیں سُنتے تھے۔
اسی قسم کی ایک مجلس میں روایتی محفل سجی ہوئی تھی اور حاضرین اپنی اپنی کارگزاریوں اور حاضر جوابیوں اور ابیات و غزل سے بادشاہ کو محظوظ کر رہے تھے، اور انعام و اکرام سے نوازے جا رہے تھے۔اس شب سلطان غوری اپنے درباریوں اور اپنے غلاموں کو تحفے تحائف، زر و جواہرات اور سونے چاندی سے مالا مال کر رہے تھے۔ ان میں ایک درباری اور غلام ایسا تھا جس نے دربار سے باہر آنے کے بعد اپنا سارا انعام اپنے سے کم حیثیت ترکوں، پردہ داروں، فراشوں، غلاموں اور ديگر کارپردازوں کو بخش دیا۔
جب اس کا چرچاعام ہوا تو یہ بات ہوتے ہوتے سلطان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اوران کےدل میں اس دریا دل صفت انسان کے بارےمیں جاننےکی خواہش پیدا ہوئی کہ آخر یہ کون فیاض شخص ہے۔سلطان کو بتایا گیا کہ یہ ان کاغلام (قطب الدین) ایبک ہے۔
غوری سلطنت کےتاریخ داں منہاج السراج (ابو عثمان منہاج الدین بن سراج الدین) نےاپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ میں بھی اس واقعےکا ذکر کیا ہے۔انھوں نے نہ صرف ایبک کا دور دیکھا بلکہ ان کےبعد سلطان شمس الدین التتمش اور غیاث الدین بلبن کا دور بھی دیکھا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ محمد غوری کو ایبک کی فراخدلی نے بہت متاثر کیا اور انھوں نے ایبک کو اپنے مقربین میں شامل کر لیا، اور انھیں تخت گاہ اور ایوان دربار کے اہم کام سونپے جانے لگے۔ یہاں تک کہ وہ سلطنت کے بڑے سردار اور کارپرداز بن گئے۔ انھوں نے اپنی لیاقت سے اس قدر ترقی کر لی کہ انھیں امیر آخور بنا دیا گیا۔امیر آخور اس زمانے میں شاہی اصطبل کے سردار کا عہدہ ہوتا تھا اور اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ انسائکلوپیڈیا آف اسلام (دوسری اشاعت) میں اسے ایک ہزار کا سردار کہا گیا ہے جس کے ماتحت تین سردار ہوتے تھے جو کہ 40 کے سردار کہے جاتے تھے۔
قطب الدین ایبک وہ مسلم حکمراں ہیں جنھوں نے ہندوستان میں ایک ایسی سلطنت کی بنا ڈالی جس پر مسلم حکمراں آنے والے 600 سال تک یعنی سنہ 1857 کی غدر تک حکومت کرتے رہے۔انھیں غلام سلطنت یا خاندانِ غلاماں کا بانی کہا جاتا ہے لیکن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں عہد وسطی کی تاریخ کے ماہر اور پروفیسر نجف حیدر کا کہنا ہے کہ انھیں یا ان کے بعد آنے والوں کو غلام سلاطین نہیں کہا جا سکتا۔ انھیں ترک یا مملوک کہا جا سکتا ہے۔
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر رحما جاوید راشد بتاتےہیں کہ مسلم حکومتوں میں غلام کا تصور بازنطینی غلام کےتصورسےبہت مختلف ہوتا تھا اور یہی وجہ ہےکہ مسلم دور میں غلاموں کا مرتبہ بعض اوقات جانشین کیطرح ہوتا تھا۔چنانچہ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محمود اور ایاز نظر آتے ہیں جس کو محمود غزنوی اپنی اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔علامہ اقبال کی معروف نظم ’شکوہ‘ کا ایک شعر اس جانب اشارہ کرتا ہےکہ اسلام میں غلاموں کی کیا حیثیت تھی۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جن لوگوں نے فلم رضیہ سلطانہ، باہو بلی، یا ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی دیکھ رکھا ہے، ان کے لیے غلاموں کے حالات اور اہمیت کو سمجھنا آسان ہوگا۔
'رضیہ سلطانہ' میں رضیہ کا محافظ یاقوت ایک حبشی غلام ہے جو اپنی جانثاری سے ملکہ کے دل میں جگہ بناتا ہےجبکہ 'باہو بلی' میں 'کٹپپا' اپنے غلامی کےتقاضوں کے تحت شہزادے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جبکہ ارطغرل غازی میں بازنطینی غلام اور سونے کی کان کنی کے ماہر حاجا توریان کی خرید و فروخت اور آزادی کے ساتھ خود ارطغرل کا غلاموں کی تجارت کرنےوالےسمکو کے ہاتھ لگنےکا منظر اور پھر تمام غلاموں کی رہائی دکھائی گئی ہے۔بہرحال نجف حیدر بتاتے ہیں کہ 'یہ کہا جاتا ہے کہ جب محمد غوری سے کسی نےپوچھا کہ آپ کو تو کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے جس سے آپ کو آنے والے زمانےمیں یاد رکھا جائے گا تو انھوں نےکہا تھا کہ میرے پاس بہت ساری اولاد نرینہ ہیں اور وہ میرے نام کو باقی رکھنے کےلیےکافی ہیں۔'
پروفیسر نجف حیدر بتاتےہیں کہ ان کا اشارہ ان کےمخصوص غلاموں کی جانب تھا جن میں یلدوز، ایبک اورقباچہ شامل تھے۔رحما جاوید بتاتی ہیں کہ غوری نےان میں آپس میں رشتہ داری بھی قائم کی تھی اوریلدوز کی ایک بیٹی کی شادی ایبک سے کروائی تھی جبکہ ایک بیٹی کی شادی قباچہ سےکروائی تھی تاکہ ان میں گہرا تعلق قائم ہو اور وہ رشتےداری کےتحت ایک دوسرےکی مخالفت کےبجائےایک دوسرے کی معاونت کریں۔آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیزمیں ساؤتھ ایشین اسلام کے پروفیسرمعین احمد نظامی بتاتےہیں کہ ایبک کوغلام سلطنت کےبانی کےطورپرنہیں بلکہ انڈیا میں ترک یا مملوک سلطنت کے بانی کےطورپریاد کیاجانا چاہیے۔
معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ قطب الدین ایبک کا تعلق ترک قبیلے ایبک سے تھا اور بچپن میں ہی وہ اپنے کنبے سے علیحدہ ہو گئے اور انھیں غلام بازار میں بیچنے کے لیے نیشا پور لایا گیا۔ ایک تعلیم یافتہ شخص قاضی فخرالدین عبد العزیز کوفی نے انھیں خریدا اور اپنے بیٹے کی طرح ان کے ساتھ سلوک کیا اور ان کی تعلیم اور فوجی تربیت کی مناسب دیکھ بھال کی۔
تاریخ کی معرف کتاب 'طبقات ناصری' میں منہاج السراج لکھتے ہیں کہ ایبک کے نئے والی قاضی فخرالدین عبد العزیز کوئی اور نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ کی آل میں شامل تھے اور نیشاپور و مضافات کے حاکم تھے۔وہ لکھتے ہیں: 'قطب الدین نے قاضی موصوف کی خدمت گزاری کے ساتھ ان کے بیٹوں کی طرح کلام اللہ کی تعلیم حاصل کی اور سواری و تیر اندازی کی تعلیم بھی پائی۔ چنانچہ تھوڑی ہی مدت میں وہ صفت مردانگی سے متصف ہو گیا اور اس کی ستائش کی جانے لگی۔'
کہتے ہیں کہ قاضی کی موت کے بعد ان کے فرزندوں نے ایبک کو پھر سے ایک تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا جو انھیں غزنہ کے بازار لے آیا جہاں سے سلطان غازی معزالدین سام (سلطان محمد غوری) نے انھیں خرید لیا۔'طبقات ناصری میں لکھا ہے کہ 'اگرچہ ایبک قابل ستائش اوصاف اور برگزیدہ محاسن کا حامل تھا لیکن اس کی ایک کمزوری کے سبب اسے 'ایبک شل' کہا جاتا تھا یعنی ایسا شخص جس کی ایک انگلی کمزور ہو۔ اور درحقیقت ان کی ایک انگلی ٹوٹی ہوئی تھی
قطب الدین کے بارے میں کہاجاتا ہےکہ ترک قبیلے ایبک سےتعلق رکھتےتھےلیکن ان کے والد اور قبیلے کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا سن پیدائش 1150 درج ہے لیکن قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
بہر حال ایبک کا مطلب ترکی زبان میں 'چاند کا آقا یا مالک' ہوتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ قبیلے کو یہ کنیت اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ملی تھی یعنی اس قبیلے کے لوگ مرد و زن دونوں انتہائی حسین و جمیل ہوتے تھے۔ لیکن قطب الدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے حسین نہیں تھے۔
لیکن اردو کے معروف شاعر اسد اللہ خان غالب نے اپنی ایک فارسی غزل میں خود کو ترکی کے ساتھ ساتھ ایبک بھی کہا ہے اور ایک طرح سے چاند سے زیادہ خوبصورت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ غالب نے لکھا:
ایبکم از جماعۂ اتراک
در تمامی ز ماہ دہ چندیم
ان کا کہنا ہے کہ ہم ترکوں کے ایبک قبیلے سے آتے ہیں اس لیے ہم چاند سے دس گنا زیادہ خوبصورت ہیں
بہر حال معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ ایبک کا عروج تیزی سے ہوا اور انھوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کے بدولت معزالدین کی توجہ جلد ہی اپنی طرف مبذول کرلی۔
نھوں نے بتایا کہ ایبک کو پہلے ہی امیر آخور بنایا جا چکا تھا لیکن جب محمد غوری نے ہندوستان کی جانب اپنی مہمات کا آغاز کیا تو ایبک نے ترائن کی دوسری جنگ میں اپنی جنگی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے سلطان غوری کو فتح نصیب ہوئی اور انھیں دو اہم فوجی عہدوں ’کہرام‘ اور ’سمانہ‘ کا کماندار بنایا گیا۔
ترائن کی پہلی جنگ میں تو محمد غوری کو شکست ہوئی تھی لیکن دوسری جنگ کئی لحاظ سے فیصلہ کن رہی۔
کہا جاتا ہے کہ اس میں چہامن یعنی راجپوت راجہ پرتھوی راج چوہان کو شکست ہوئی۔ پہلی شکست کے ایک سال بعد غوری ایک لاکھ سے زیادہ افغان، تاجک اور ترکوں پر مبنی بڑی فوج کے ساتھ ملتان اور لاہور کے راستے ترائن (آج دہلی سے ملحق ہریانہ کے کرنال ضلعے میں تروری کا علاقہ کہلاتا ہے) پہنچا جہاں پرتھوی راج کی تین لاکھ گھڑ سواروں اور تین ہزار ہاتھیوں پر مشتمل فوج نے اس کا راستہ روکا اور شدید جنگ ہوئی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق معروف پروفیسر اور تاریخ داں محمد حبیب اور خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب 'اے کمپریہینسو ہسٹری آف انڈیا' (جلد پنجم) میں لکھا ہے کہ اس تعداد میں غلو کا عنصر ہے کیونکہ اس زمانے میں کسی چیز کی اہمیت کے لیے تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رواج تھا۔
بہر حال ترائن کی دوسری جنگ (1192) میں محمد غوری نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ اپنی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا اور انھیں مختلف پوزیشن پر تعینات کر دیا جبکہ 12 ہزار افراد پر مشتمل فوج کو جنگ میں اتارا جس نے حکمتِ عملی کے تحت پسپائی اختیار کی۔
پرتھوی راج کی فوج نے یہ سمجھا کہ انھیں فتح نصیب ہو گئی ہے اور وہ اس کے پیچھے ان کا کام تمام کرنے کے لیے چل پڑے۔لیکن پھر چار جگہ مختلف سپہ سالاروں کی قیادت میں تعینات فوج نے پرتھوی راج کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا جبکہ مراجعت کرنے والی فوج بھی واپس مڑ کر لڑنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ پرتھوی راج چوہان اپنے ہاتھی سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوا اور میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کی۔
معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ اس جنگ سے برصغیر میں ایبک کے سیاسی کریئر کا آغاز ہوا اور بالآخر وہ سنہ 1206 میں معزالدین غوری کی موت کے بعد دہلی کے تخت تک جا پہنچے۔
تاریخ دانوں کا متفقہ طور پر کہنا ہے کہ سلطان معزالدین محمد غوری کےاچانک مارے جانےکیوجہ سےوہ کسی کواپنا جانشین مقرر نہیں کرسکےتھے چنانچہ ان کی زندگی میں ان کا جو غلام جہاں جس اعلیٰ عہدے پر فائز تھا وہ وہاں کا حاکم بن بیٹھا لیکن ایبک اپنی فراست اور سیاسی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئےاصل جانشین کا عہدہ حاصل کرنےمیں کامیاب ہو گئے۔
انتقال کے بعد ان کے تین جانشینوں دہلی کے حاکم قطب الدین ایبک، ملتان کے حاکم ناصر الدین قباچہ اور غزنی کے حاکم تاج الدین یلدوز کے درمیان اقتدار کے لیے مقابلہ شروع ہو گیا۔ رحما جاوید کا کہنا ہے کہ ان کا ایک چوتھا غلام بختیار خلجی تھا جو کہ اس رسہ کشی میں شامل نہیں ہوا اور وہ بہار اور بنگال کی طرف چلا گیا اور خود کو وہاں کا فرمانروا کہا۔
اس بابت معین احمد نظامی کا کہنا ہے کہ یہ اس لیے تھا کہ وہ غلام تھے اور انھیں آزادی نہیں ملی تھی اس لیے انھیں سلطان کے طور پر قبول کیا جانا مشکل تھا۔
بہرحال انھوں نے سنہ 1208 میں غزنہ کا سفر کیا جہاں سے وہ چھ ماہ بعد واپس آئے اور اس دوران غزنہ میں محمد غوری کے ایک جانشین نے ان کی آزادی کا اعلان کیا اور پھر انھوں نے سنہ 09-1208 میں سلطان کی خطاب اپنایا۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہی انھوں نے اپنا نام قطب الدین (یعنی دین کا محور) رکھا۔
اس سے قبل ایبک اپنے آقا محمد غوری کی توسیع پسندانہ حکمت عملی پر عمل کرتے رہے اور اس دوران انھوں نے 1193 میں اجمیر اور اس کے بعد چار ہندو ریاستوں سرسوتی، سمانہ، کہرام اور ہانسی کو فتح کیا اور پھر قنوج کے راجہ جے چند کو چندوار کی جنگ میں شکست دے کر دہلی کو حاصل کیا۔ ایک سال کے اندر ہی محمود غوری کا تسلط راجستھان سے لے کر گنگا جمنا کے دوآبے کے علاقوں تک تھا۔
ایبک کی مزید فتوحات کے بارے میں منہاج السراج رقطراز ہیں: 'کہرام سےقطب الدین نے میرٹھ کی طرف پیش قدمی کی اور 587 ہجری میں اسے فتح کر لیا۔ میرٹھ سے اٹھا تو 588 ہجری میں دہلی پر قابض ہو گیا۔ 590 میں وہ سلطان کے ہم رکاب تھا اور بنارس کے راجہ جےچند کیجانب پیش قدمی کی۔ سنہ 591 میں ٹھنکر فتح کیا یہاں تک کہ مشرقی جانب اسلامی سلطنت چین تک پہنچ گئی۔
بہرحال ایبک کو دوسروں پر غلبہ حاصل ہوا اور 25 جون سنہ 1206 کو لاہور کے قلعے میں ان کی تاج پوشی ہوئی۔ لیکن انھوں نے سلطان کا خطاب نہیں اپنایا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی سکہ جاری کیا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی خطبہ پڑھایا۔
ایبک عہد وسطی کے دوسرے کسی بھی مسلم حکمراں کی طرح فن تعمیر میں شوق رکھتے تھے چنانچہ انڈیا میں غوری حکومت کی کامیابیوں کی یادگار کے طور پر انھوں نے دہلی میں سنہ 1199 میں ایک مینار کی تعمیر شروع کروائی۔ اس طرح کے مینار غزنی میں بھی ہیں اور غور صوبے میں دریائے ہاری کے کنارے جام مینار اس سے قبل تعمیر کیے جا چکے تھے۔
قطب مینار کے ساتھ قوۃ الاسلام مسجد کی بھی بنیاد انھوں نے ڈالی جبکہ اجمیر کی فتح کے بعد انھوں نے ایک مسجد کی تعمیر کروائی جسے ڈھائی دن کا جھونپڑا کہا جاتا ہے۔ یہ شمالی ہند میں بننے والی پہلی مسجد کہلاتی ہے جو آج تک موجود ہے۔ در اصل اسے جلدی جلدی ڈھائی دن میں کھڑا کیا گیا تھا لیکن پھر اس پر موجودہ افغانستان کے ہرات سے تعلق رکھنے اولے معمار ابوبکر نے مسجد کا نقشہ یا ڈيزائن تیار کیا اور یہ مسجد سنہ 1199 میں بن کر تیار ہوئی جسے ہند اسلامی طرز تعمیر کا پہلا شاہکار کہا جاتا ہے۔
اسی طرح قطب الدین نےقطب مینار کی بنا ڈالی جسےانکےبعد شمس الدین التتمش کےزمانےمیں مکمل کیاجاسکا۔ یہ اینٹ سے تعمیردنیا کا سب سےبلند مینار ہےجس کی پانچ منزلیں ہیں اور ان پرآیات قرآنی کندہ ہے۔اس کےساتھ ہی ایبک نےقوت الاسلام مسجد کی بنا ڈالی جس کی باقیات آج بھی قطب مینارکےساتھ دیکھےجا سکتےہیں۔ تاریخ داں رحما جاوید اشرف کہتے ہیں کہ جتنے بھی فارسی ماخذ ہیں اس میں اسے جامع مسجد کہا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک جامع مسجد تھی جسے قبۃ الاسلام یعنی اسلام کی پناہ گاہ یا اسلام کا گنبد کا نام دیا گیا تھا لیکن سرسید احمد خان نے اپنی تصنیف ’آثار الصنادید‘ میں اسے قوت الاسلام مسجد کا نام دیا ہے۔
رحما جاوید کہتے ہیں کہ جب منگولوں نے اسلامی دنیا کو تہ و بالا کر دیا تھا تو ہندوستان کی مسلم حکومت اس سے محفوظ تھی اور دنیا بھر کے صاحب علم اور ہنر ادھر کا رخ کر رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسے منہاج السراج نے دہلی کو قبۃ الاسلام یعنی اسلام کی پناہ گاہ بھی کہا ہے۔
اس مسجد میں ہند اسلامی طرز تعمیر نمایاں ہے اور اسے ہندوستان کے کاریگروں نے بنایا جو کہ عربی رسم خط سے نابلد تھے لیکن پتھروں پر کندہ کرنے کے ماہر کاریگر تھے۔ اس میں کچھ جین منادر کی باقیات بھی نظر آتی ہیں جنھیں ستون کے طور پر استعمال کیا گيا ہے اور اس میں مجسمے بھی بنے ہیں لیکن ان کے نقش کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ یہ مسجد بھی شمس الدین التتمش کے عہد میں مکمل ہوئی۔
سنہ 1208-09 میں سلطان بنے کے بعد ایبک کا زیادہ تر وقت لاہور میں گزار اور موسم برسات کے بعد گلابی جاڑے کی آمد کے وقت نومبر میں ایک روز وہ اپنے بہادر جنگجوؤں اور سپہ سالاروں کے ساتھ چوگان یعنی پولو کھیل رہے تھے کہ گھوڑے کی زین ٹوٹ گئی اور وہ زمین پر آ رہے۔
منہاج السراج نےاس کےمتعلق اس طرح لکھا ہے کہ 'جب موت آئی تو 607 ہجری (1210ء) میں چـوگان کھیلتا ہوا گھوڑے سے گرا، گھوڑا اس پرآ گرا، زین کےسامنے کا اوپر اٹھا ہواحصہ قطب الدین کےسینےمیں پیوست ہو گیا اور اس نے وفات پائی۔'
قطب الدین کو لاہور میں ہی دفن کر دیا گیا اور زمانے کے تغیر کے ساتھ آج بھی ان کا مزار لاہور میں موجود ہے جہاں ہر سال عرس بھی لگتا ہے۔
معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ 'عصری اور بعد کے تمام ذرائع نے ایبک کی فوجی صلاحیتوں کے علاوہ ان کی وفاداری، سخاوت، جرات اور ان کی انصاف پسندی جیسی خصوصیات کی تعریف کی ہے۔ وہ اپنی سخاوت کی وجہ سے لاکھ بخش (لاکھ دینے والے) کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی فیاضی کی کہانیاں 17 ویں صدی کے آخر میں دکن میں عام گردش میں تھیں جب معروف سیاح فرشتہ بتاتے ہں کہ فراخ دلی کے حامل لوگوں کو اس وقت کے ایبک کے نام سے جانا جاتا تھا۔'
کہا جاتا ہے کہ دہلی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ان کی فیاضی سے محروم رہا ہو۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن تھے اور اتنی اچھے لحن میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے کہ انھیں قرآن خوان بھی کہا گیا۔
ایبک نے داد و دہشت کا جو معیار قائم کیا اس پر بعد میں کوئی بھی پورا نہ اترا۔ چنانچہ معین احمد نظامی کا کہنا ہے ایبک کو سخاوت کا مترادف سمجھا جانا واقعی ایک ایسا خراج تحسین ہے جو کسی دوسرے فرمانروا کے حصے نہیں آیا۔ جنگ اور مہمات میں زندگی گزارنے کے باوجود انھوں نے تاریخ اور آنے والی نسلوں میں جو تاثر چھوڑا وہ ان کا انصاف اور ان کی سخاوت تھا۔'
***********
0 comments:
Post a Comment