Ads

Showing posts with label Islamic History. Show all posts
Showing posts with label Islamic History. Show all posts

Wednesday, April 29, 2020

حج پہلے بھی کھبی موقوف ہوا۔۔۔؟

حج پہلے بھی کھبی موقوف ہوا۔۔۔؟

رمضان گزر گیا عید الفطر گزر گئی اگلی عیدعیدالعضیٰ ہے لیکن جب عید العضی کی بات ہوتی ہے تو قربانی کا خیال ضرور ذہن میں آتاہے۔ اس کے علاوہ اس عید پر حج کی بات کرنا تو لازم وملزوم ہے۔ آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون، پروازوں کی معطلی اور سعودی عربیہ مساجد کی بندش سے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال آتاہے کہ کیا اس سال حج ہو پائے گا؟ اگر نہ ہوسکا تو کیا ہوگا؟ اور کیا اسلامی 
تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ حج معطل یا موقوف یا منسوخہوجائیگی؟

آج ہم اسی پر بات کرینگے۔ اللہ کرے کہ حالات جلد ازجلد نارمل ہوجائے اور حج کیلئے تمام روکاوٹین دور ہوجائے۔لیکن اگر خدانخواسطہ اس سال حج نہ ہوکسی یا حج موقوف ہوا تو یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا پہلے بھی کئی بارمختلف وجوہات کے بناپر ہوچکاہے۔ آج ہم اسی بار میں تفصیلی گفتگو کرینگے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اب تک 57 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ لگ بھگ 3 لاکھ 55 ہزار کے قریب جان سے جا چکے ہیں۔سعودی عرب اب تک تقریبن 76 ہزار متاثر ہوئے اور400 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ اس پس منظر میں حج کو معطل کرنے کا فیصلہ ناگزیر اور غیر معمولی لگ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ صدیوں کے دوران ایسے حالات کے باعث جو حج کا انتظام کرنے والوں کے اختیار سے باہر تھے، حج کی ادائیگی میں خلل اور رکاوٹ پہلے بھی پڑی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق حج میں پہلی بار تعطل اس وقت ہوا جب 930 عیسوی میں خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سات اماموں کو ماننے والی اسماعیلی شیعہ کی قرامطہ شاخ نے حج کے آٹھویں دن حاجیوں پر حملہ کر دیا۔تیسری صدی ہجری کا اواخر اور چوتھی صدی ہجری کا شروع اہل قرامطہ کے غضب و عذاب کا دور تھا۔ 7 ذی الحجہ 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال 317ھ کو حج بیت اللہ شریف نہ ہو سکا کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا یہ اسلام میں پہلا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا. اسی ابو طاہر قرامطی نے ’’حجر اسود‘‘ کو خانہ کعبہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لےگیا. پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ فیصلہ کیا اور تیس ہزار دیناردیدیےتب حجراسود خانہ کعبہ کوواپس کیا گیا.

یہ واپسی 339ھ کو ہوئی گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ ’’حجر اسود‘‘ سے خالی رہا. جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث شیخ عبداللہ کو ’’حجر اسود‘‘ کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا. یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچ گئے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس ان کے لیے ایک پتھر خوشبودار، خوبصورت غلاف میں سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں. محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ’’حجر اسود‘‘ میں دو نشانیاں ہیں اگر یہ پتھر اس معیار پر پورا اترا تو یہ ’’حجر اسود‘‘ ہوگا اور ہم لے جائیں گے.

پہلی نشانی یہ کہ پانی میں ڈوبتا نہیں ہے دوسری یہ کہ آگ سے گرم بھی نہیں ہوتا. اب اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا تو سخت گرم ہو گیا. فرمایا ہم اصل ’’حجر اسود‘‘ کو لیں گےپھر اصل ’’حجر اسود‘‘ لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہی ہمارا ’’حجر اسود‘‘ ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے.اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور کہا: یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہ باتیں،ہمیں جناب رسول اللہؐ سے ملی ہیں کہ ’’ ’’حجر اسود‘‘ ‘‘پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہو گا‘‘ ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے. جب ’’ ’’حجر اسود‘‘ ‘‘ مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا. اس اونٹنی میں زبردست قوت آ گئی اس لیے کہ’’حجر اسود‘‘ اپنے مرکز بیت اللہ کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مر جاتا، حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مر گئے. (تاریخ مکہ محمد بن علی بن فضل الطہری المکی )

ان قرامطیوں نےجو اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ حج بت پرستی کا عمل ہے، اس حملے میں قرامطیوں نے تقریبن30 ہزار سے زیادہ حجاج کوشہیدکئے تھے، لاشوں سے چاہِ زمزم کی بے حرمتی کی اور حجرِ اسود لے کر اپنے دارالحکومت (موجودہ دور کے قطیف) فرار ہو گئےتھے۔اس خونی حملے کی وجہ سے آئندہ 10 سال تک حج ادا نہ کیا جا سکا۔

حج کی ادائیگی میں دوسرا خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کے مطابق مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی ہے۔اسی دوران حاجیوں کو مکہ لے کر جانے کے لیے استعمال ہونے والے اونٹ پانی کی قلت کے باعث مرگئے۔اور بہت سے لوگ جو بچ کر مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے تھے وہ حج کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے۔‘

اسکے29 سال بعد بھی مشرق یا مصر سے کوئی حاجی حج کے لیے نہیں آیا۔ 1030 عیسوی میں صرف چند عراقی زائرین ہی حج ادا کرنے مکہ مکرمہ پہنچے۔اس برس جو افراد مکہ حج کرنے آئے تھے ان میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی تھے لیکن 1000 عیسوی میں وہ اس سفر کے متحمل نہیں ہو سکے کیونکہ اس سال مصر میں مہنگائی بہت زیادہ تھی۔اس واقعے کے 9سال بعد عراقی، مصری،وسط ایشیائی اور شمالی عربی مسلمان حج کرنے سے قاصر رہے۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اورفرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔اسی طرح 1099 میں بھی جنگوں کےنتیجےمیں پوری مسلم دنیا میں خوف اورعدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ کی جا سکی۔سنہ 1099میں صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کےفقدان کےباعث مسلمان حج ادا کرنےمکہ نہ آ سکے۔سنہ1168 میں مصریوں اورکرد کمانڈراسد الدین (جوزنکیون حکومت کا دائرہِ کارمصر تک پھیلانا چاہتے تھے)کےدرمیان تنازعےکیوجہ سےمصری مسلمانوں کو حج کی اجازت نہ مل سکی۔

13ویں صدی میں بھی حج ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوا 1256 سے 1260 کے دوران کوئی بھی شخص خطۂ حجاز سے حج کی ادائیگی نہ کر سکا۔اس کے بعدسنہ 1798 سے 1801 کے دوران فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے مصر اور شام کے علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیں جن کی وجہ سے مکہ کے راستے زائرین کے لیے غیر محفوظ ہو گئے۔اس کے بعد 1831ء میں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی،جب اس خطے کے افراد حج کی ادائیگی کے لئے مکہ پہنچے تو ان متاثرہ افراد سے دیگر ہزاروں افراد میں بھی یہ وباء پھیل گئی۔تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہو گئے۔ ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے۔چھ سال بعد دوبارہ وباؤں نے سعودی عرب کا رخ کیا، مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق 1837ء سے 1858ء کے دو عشروں کے درمیان وقتاً فوقتاً وبائیں جنم لیتی رہیں، اس وجہ سے اس دوران سات بار حج کے مناسک ادا نہ ہو سکے۔ پہلے 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھُوٹی جس کے باعث 1840ء تک حج ادا نہ ہو سکا۔ 1846ء میں مکہ کے رہائشیوں کو ہیضہ کی وبا نے آن گھیر ا،اس وباء سے پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہو گئے، جس کی وجہ سے 1849ء تک حج کی ادائیگی روک دی گئی۔اس کے بعد 1850ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔1858ء میں بھی ہیضہ کی وباء سے کئی ہلاکتیں ہوئیں اس وجہ سے حج مکمل نہ ہو سکا۔اسرپورٹ کے مطابق 1865ء اور 1883ء میں بھی وباء کی وجہ سے لوگ حج ادا نہ کر سکے۔

اس تناظرمیں اس سال اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو اس سال بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا۔کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا'قرآنِ پاک میں  فرمان ہے کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اورپیغمبرِ اسلام ﷺ نے بھی اپنے صحابہ کو وباؤں سے خبردار کیا ہے۔'
حوالے سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ ’اگر آپ کسی جگہ طاعون پھیلنے کی خبر سنیں تو وہاں داخل نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ وبا کسی جگہ پر پھیل جاتی ہے جہاں آپ موجود ہیں تو اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔‘ان کے مطابق ’یہ حدیث طاعون سے بچنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔'

Wednesday, September 27, 2017

غزوۂ بدر / جنگ بدر

غزوۂ بدر/جنگ بدر، اسلام کا سب سےپہلا اور عظیم الشان معرکہ ہے
غزوۂ بدر میں حضور سید عالم ﷺ اپنے تین سو تیرہ جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ جب رزم گاہ ِبدر کے قریب پہنچے تو امام المجاہدین حضور سرور عالم ﷺ نے حضرت علیؓ کو منتخب جان بازوں کے ساتھ غنیم کی نقل و حرکت کا پتا چلانے کے لیے بھیجا، انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔
17رمضان المبارک، جمعتہ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتدا ہوئی۔ بدر ایک گاؤں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریبا اسّی میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضور سید عالمؐ اور صحابہ کرامؓ نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔
اسی اثناء میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے ولے قافلے کو لوٹنے آ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا۔ حضور نبی کریمؐ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور حالات کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرامؓ نے جواب میں نہایت جاں نثارانہ تقریریں کیں۔

حضرت سعد بن عبادہؓ (خزرج کے سردار) نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! خدا کی قسم! اگر آپؐ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو تیار ہیں۔ حضرت مقدادؓ نے کہا: ہم موسی کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپؐ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بل کہ ہم آپؐ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپؐ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپؐ بسم اللہ کیجیے اور جنگ کا حکم فرمائیے، انشاء اللہ اسلام ہی غالب آئے گا۔
نبی کریم ؐ نے جب صحابہ کرامؓ کے اس سرفروشانہ جذبے اور جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپؐ کا چہرہ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں دعائے خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا: خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کی قتل کی جگہ بتائی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالمؐ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہیں قتل ہوا۔ (مشکوہ ، مدارج النبوّت)

حضور سید عالمؐ 12رمضان المبارک دو ہجری کو اپنے تین سو تیرہ جاں نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپؐ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپؐ نے لشکر اسلام کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ ایک کم سن سپاہی بھی شامل تھے، انہیں جب واپسی کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرمؐ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما دی۔ لشکر اسلام کی کل تعداد 313 تھی، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار تھے۔
یہ بے نظیر و بے مثال لشکر 16رمضان المبارک بہ روز جمعرات کو میدان بدر پہنچ گیا۔ ادھر مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے سازوسامان کے ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر تھا۔ سو سواروں کا رسالہ تھا۔ رؤسائے قریش سب شریکِ جنگ تھے۔17رمضان المبارک کی مبارک شب تھی، تمام مجاہدینِ اسلام آرام فرما رہے تھے جب کہ حضور رحمت دو عالمؐ نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری۔ صبح کو نماز فجر کے لیے تمام مجاہدین کو بیدار کیا اور نمازِ فجر کی ادائی کے بعد قرآن مجید کی آیاتِ جہاد تلاوت فرما کر ایسا ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ جنگ کے لیے تیار ہونے لگے۔
حضور نبی کریمؐ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپؐ مجاہدین کی صفیں قائم فرما رہے تھے۔ مہاجرین کا علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو، خزرج کے علم بردار حباب بن منذرؓ اور اوس کے علم بردار سعد بن معاذؓ مقرر فرمائے۔ چناںچہ لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ حضور سید عالمؐ نے میدانِ بدر میں اپنے جاں نثار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کو بھی دیکھا تو بارگاہِ خداوندی میں یوں التجا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔
(صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)
حضور سرور دو عالمؐ کچھ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا کر رہے تھے کہ آپؐ کی چادر مبارک آپؐ کے دوش اقدس سے گرگئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر مبارک اٹھا کر آپؐ کے کاندھے مبارک پر ڈال دی اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ! اب بس کیجیے، اللہ تعالی نے جو فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پورا فرمائے گا۔
(البدایہ والنہایہ)
مورخین اس معرکے کو غزوۂ بدرالکبری اور غزوۂ بدرالعظمی کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالی نے قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو یوم الفرقان (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیر و شر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا۔

************

Monday, September 18, 2017

مکہ اور خانہ کعبہ کی تاریخ

مکہ اور خانہ کعبہ کی تاریخ
مکہ
عیسائی مؤرخ لکھتے ہیں کہ مکہ کا ذکر قدیم تاریخ میں کہیں نہیں ملتا، مسلمانوں نے اپنے دین کی وجہ سے اسے مشہور کر رکھا ہے، خیر ان سے کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ زمانہ قدیم سے یہود و نصاریٰ مکہ کی تذلیل کے درپے رہے ہیں لیکن اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے

إن أول بيت وضع للناس للذي ببكة مباركا وهدى للعالمين
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو بکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے۔ـ ترجمہ از محمد جوناگڑھی

اس آیت مبارکہ میں مکہ کا نام بکہ ارشاد ہوا ہے اور مزید یقین دہانی کے لئے اللہ کے گھر کا ذکر بھی ہوا ہے تو اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا کہ خانہ کعبہ جہاں موجود ہے وہی مکہ شہر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے، اس کے علاوہ زبور میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں

بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بتاتے، برکتوں سے مورۃ کو ڈھانپ لیتے، قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔#زبور

زبور قرآن سے بھی پہلے کی الہامی کتاب ہے بلکہ حضرت عیسٰیؑ سے بھی بہت پہلے کی کتاب ہے جس میں مکہ کا وہی نام ملتا ہے جو قرآن میں ملتا ہے یعنی “بکہ”۔ زبور کی اس آیت سے پہلے کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:

حضرت داؤد خدا سے فرماتے ہیں اے فوجوں کے خدا، تیرے مسکن کس قدر شیریں ہیں، میرا نفس خدا کے گھر کا مشتاق بلکہ عاشق ہے، اے خدا، تیرے قربان گاہ میرے مالک اور میرے خدا ہیں، مبارکی ہو ان لوگوں کے لئے جو تیرے گھر میں ہمیشہ رہتے ہیں اور تیری تسبیح پڑھتے ہیں۔ #زبور

اس آیت کے بعد وہ آیت ہے جو اوپر بیان ہوئی جس میں بکہ کا نام لیا گیا ہے اور اس سے پہلے جو حضرت داؤد نتے حسرت ظاہر کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا گھر ایک تو قربان گاہ ہے، دوسرے حضرت داؤد کے شہر سے دور ہے اس لئے ان کو سفر کرنا پڑتا ہے اور وہاں جانے کے خواہشمند ہیں اور تہسرے اس جگہ کا نام بکہ ہے چوتھے اس آیت میں مورۃ کا ذکر ہوا ہے جو کہ دراصل وادی مروۃ ہے۔ ثابت ہوا کہ مکہ کی تاریخ قدیم ترین ہے اور عام سے بات ہے جہاں کہیں بھی کسی بھی مذیب سے تعلق رکھنے والوں کا کوئی معبد ہو اس کے آس پاس آبادی ضرور موجود ہوتی ہے اس لئے مکہ نہ صرف ایک قدیم ترین شہر ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی قدیم ترین ہیں۔ یہود و نصاریٰ تو ویسے ہی الفاظ کو ادل بدل کرنے کے ماہر ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

من الذين هادوا يحرفون الكلم عن مواضعه
ترجمہ: بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں۔


حضرت اسماعیلؑ کو لیکر حضرت ابراہیمؑ مکہ آئے، یہ وقت وہ وقت تھا جب ساری دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی کہیں اللہ کا خالص دین موجود نہ تھا، شرک کا اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا ایسے میں منصبِ نبوت پر فائض ہونے کے جب حضرت ابراہیمؑ نے جب کلدان میں وحدہ لاشریک لہ کی صدا بلند کی تو جواب میں آگ کے شعلے سامنے تھے، مصر آئے تو خطرات نے گھیر لیا، فلسطین چلے گئے وہاں کسی نے حال تک نہ پوچھا، پیچھے صرف حجاز کا صحرا بچا جہاں تک شرک کا اندھیرا نہ پہنچا تھا، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو لیکر مکہ پہنچے۔ حضرت اسماعیل جوان ہوئے تو منصبِ نبوت میں ایک مزید ہاتھ کا اضافہ ہوا اور پھر خانہ خدا کی بنیاد ڈالی گئی۔

خانہ کعبہ
وإذ يرفع إبراهيم القواعد من البيت وإسماعيل ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم
ترجمہ: ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں کوئی آباد نہ تھا، اعلان کے ذرائع اس وقت تھے ہی نہیں ایسے میں وحی آتی ہے کہ

وأذن في الناس بالحج يأتوك رجالا وعلى كل ضامر يأتين من كل فج عميق
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اعلان و اشتہار کے وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ صدا کہاں کہاں پہنچی اس بات کی گواہ آج ساری دنیا ہے۔خانہ کعبی کی پہلی تعمیر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنے ہاتھوں سے کی اور پہلی تعمیر، روایات کے مطابق کچھ اس طرح سے تھی

زمین سے چھت تک اونچائی: 9 گز
طول: ہجرِ اسود سے رکنِ شامی تک: 32 گز
عرض: رکنِ شامی سے غربی تک: 22 گز

اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ مجھے ایک پتھر لا دو جسے میں نصب کر دوں کہ نشانی ہو کہ لوگ طواف کہاں سے شروع کریں۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کی برکت سے لوگ مکہ میں آکر آباد ہونا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے قبیلہ جرہم آباد ہوا جس قبیلہ میں حضرت اسماعیلؑ نے مضاض بن عمرو جرہمی کی بیٹی سے شادی کی، ان سے حضرت اسماعیلؑ کے بارہ بچے ہوئے۔حضرت اسماعیلؑ کے بات ان کے بیٹے نابت نمے کعبہ کی تولیت شروع کی لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے نانہ مضاض کعبہ کے متولی ہوئے اور کعبہ کی تولیت خاندانِ اسماعیلؑ سے نکل کر خاندانِ جرہم میں منتقل ہو گئی۔ان کے بعد قبیلہ بنو خزاعہ آیا جس نے کعبہ پر قبضہ کر لیا اور عرصے تک اس کے متولی رہے، حضرت اسماعیلؑ کا خاندان موجود تھا لیکن انہوں نے مزاحمت نہ کی، اس کے بعد قصی بن کلاب کا زمانہ آیا تو کعبے کی تولیے واپس خاندانِ اسماعیلؑ کے پاس آگئی۔انہی کے زمانے میں خانہ کعبہ کی پرانی عمارت کو گرا کر از سرِ نو تعمیر کی گئی، پہلی عمارت جو حضرت ابراہیم کے زمانہ میں تعمیر ہوئی اس کی کوئی چھت موجود نہ تھی نہ ہی کوئی دروازہ موجود تھا۔ قصی بن کلاب نے جب دوبارہ تعمیر کی تو  کھجور کے پتوں کی چھت خانہ کعبہ پر رکھی گئی۔

خانہ کعبہ پر یمن کے حمیری بادشاہ اسعد تبع نے چادر چڑھائی جو کہ یمن کی خاص چادریں جنہیں “برو یمانی” کہا جاتا ہے پر مشتمل تھیں۔قصی بن کلاب کے زمانے سے حدودِ کعبہ میں موجود تمام قبائل پر ایک محصول لگا دیا گیا جس سے ہر سال یہ چادریں یا جسے آج غلاف کہتے ہیں تیار ہوتا تھا۔9 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو آپ ﷺ نے خانہ کعبہ میں موجود تمام بُت پاش پاش کر ڈالے اور خانہ کعبہ کو پاک کر کے حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ کو خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا۔عہدِ نبویﷺ اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں خانہ کعبہ ایک عمارت سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا، اس کو مسجدِ حرام کا نام دیا جاتا تھا جو کہ در اصل اسلام سے قبل کا نام ہے لیکن فتح مکہ کے بعد سے لیکر اموی دور تک مسجدِ الحرام اسلام کی سب سے اہم مسجد بن چکی تھی۔ پھر اموی دور آیا تو عبدالملک بن مروان نے 36 ہزار اشرفیاں کعبے کی تزین و آرائش کے لئے بھیجیں.اس سے قبل خانہ کعبہ مسجد الحرام کے درمیان ایک کھلی جگہ پر مشتمل ایک عمارت تھی، عبدالملک بن مروان کے دور میں خانہ کعبہ سمیت تمام مسجد کی تزین و آرائش کی گئی، چاردیواری اونچی کی گئی اور چھت کو از سرِ نو تیار کیا گیا، آٹھویں صدی تک خانہ کعبہ اور مسجد سے لکڑی کا پرانہ کام تقریباً ختم ہو چکا تھا اور اس کی جگہ سنگِ مر مر نے لے لی تھی، ساتھ ہی ساتھ مسجد میں میناروں کا اضافہ بھی کیا گیا۔اموی دور میں اسلام یورپ اور افریقہ کے دور دراز علاقوں تک پھیل چکا تھا اور خانہ کعبہ کی طرف آنے والے عازمینِ حج اور عمرہ کی ادائیگی کے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا تھا جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسجد میں مزید جگہ شامل کی گئی اور تین مزید میناروں کی تعمیر کا حکم دیا گیا۔ کعبہ کی تزین و آرائش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی چنانچہ جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کا زمانہ آیا تو انہوں کے کعبہ کے ستونوں پر سونے کے پتر چڑھائے۔ ، خلیفہ امین الرشید نے 18 ہزار اشرفیاں بھیجیں تا کہ خانہ کعبہ میں دروازہ اور چوکھٹ وغیرہ طلائی کی بنوا دی جائے۔

1570ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان سلیم دوئم نے اس وقت کے مشہور معمار سنان پاشا کو خانہ کعبہ اور مسجدِ حرام کی تعمیر اور تزین و آرائش کا حکم دیا۔ مسجد سے سادہ چھتیں ختم کر کے گنبدوں کا اضافہ کیا گیا جن کے اندر اسلامی خطاطی کی گئی جو سلطنتِ عثمانیہ کی تعمیر کا شاہکار تھے۔پرانے ستونوں کی جگہ نئے ستون تعمیر کئے گئے جو مسجد کے موجودہ ڈیزائن میں اب تک شامل ہیں۔1621ء سے 1629ء کے درمیان میں مکہ میں شدید سیلاب آئے جنہوں نے مسجد کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی دیواروں کو بھی متاثر کیا۔ عثمانیہ سلطنت کے سلطان مُراد چہارم نے مسجد اور خانہ کعبہ اور مسجد کی تزین و آرائش کا حکم دیا، تمام تر فرش پر سنگِ مر مر دوبارہ نصب کیا گیا، تین مزید مینار شامل گئے اور یوں مسجد میں میناروں کی کُل تعداد سات ہو گئی۔
تین صدیوں تک مسجد اسی طرز پر موجود رہی یہاں تک کہ 1955 میں سعودی حکومت نے مسجد میں توسیع کا کام شروع کیا۔ پرانے فرش ختم کر کے مصنوعی پتھر اور نیا سنگِ مر مر نصب کیا گیا، صفہ و مروہ کو باقاعدہ طور پر مسجد کا حصہ بنا دیا گیا اور عازمین کی سہولت کے لئے صفہ اور مروہ کو ایک گیلری میں تبدیل کر کے اسے چھت سے ڈھانپ دیا گیا۔اس توسیع میں عثمانی دور کے ستونوں کو ختم کر دیا گیا۔چار مزید مینار شامل گئے اور یوں میناروں کی تعداد 11 تک پہنچ گئی۔1982ء سے 1988ء تک مسجد میں مزید توسیع کی گئی اور مسجد میں ایک نیا حصہ شامل کیا گیا جسے بابِ فہد کا نام دیا گیا۔تسیری توسیع 1988ء سے 2005ء تک چلتی رہی جو کہ بیک وقت منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں شروع ہوئی، مسجد میں نمازیوں کے لئے مزید جگہ شامل کی گئی، مزید اٹھارہ دروازوں کا اضافہ ہوا اور تین مزید گنبد شامل کئے گئے۔ ساتھ ساتھ پانی کا جدید نظام، گرمی میں ایئر کنڈیشننگ کا جدید نظام شامل کیا گیا۔

موجودہ وقت میں بھی مسجد کی توسیع کا کام جاری ہے جو کہ 2007ء میں شروع ہوا تھا اور جس کے مکمل ہونے کا اندازہ 2020ء تک لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ توسیع کے خاتمے تک مسجد میں بیس لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔مسجد کی جگہ تین لاکھ چھپن ہزار مربع میٹر سے بڑھا کر چار لاکھ مربع میٹر کی گئی ہے، دو نئے مینار شامل کئے گے اور ایک مزید دروازہ شامل ہوگا، مطاف (کعبہ کے گرد وہ جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے) میں بھی توسیع کی جائے گی اور جتنی بھی جگہ بند ہے اسے گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کئے ایئر کنڈیشننگ کا جدید نظام نصب کیا جائے گا۔
خانہ کعبہ وحدانیت کا شاہکار ہے، ویران اور بنجر صحرا میں جس عمارت کی تعمیر دو افراد نے کی تھی آج وہاں پچاس لاکھ افراد سالانہ صرف حج کی غرض سے آتے ہیں اس کے علاوہ عمرہ ادا کرنے والوں کی سالانہ تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ خانہ کعبہ، اسلام کا قبلہ ہے دنیا بھر کی تمام مساجد اسی کا رخ کرتی ہیں اور مسلمان دن میں پانچ بار ایک اللہ کی عبادت کے لئے اسی جانب منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم بالثواب۔

***************

Saturday, September 16, 2017

منافقین مدینہ اوراخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

منافقین مدینہ اوراخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

نور نبوت کی کرنیں غار حرا کے منبع نور سے پھوٹیں تو اس کا عکس سب سے پہلے مکہ کے معاشرہ پر پڑا، کیوں کہ خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک مشہور اور معروف قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح اس نئے مذہب کا علم مکہ کے سرداروں اور لوگوں کو سب سے پہلے ہوا۔ مکہ میں اس وقت دو قسم کے اشخاص تھے۔ ایک وہ جو واضح طورپر کافر تھے اور دین اسلام کے کٹر مخالف۔ دوسرا طبقہ ضعیف مسلمانوں کا تھا جو کٹر مسلمان تھے۔ (خیال رہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر عورتوں میں سب سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے لبیک کہا۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بچوں میں سب سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر قبول اسلام کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے) مکہ میں یہودی اور عیسائی آبادی نہ تھی، بلکہ دین ابراہیمی کی بگڑی ہوئی شکل اور بت پرستی تھی۔ اس کے برعکس مدینہ کا معاشرہ کئی اعتبار سے مکہ سے مختلف تھا۔ پہلا فرق یہ تھا کہ مکہ کی زندگی میں منافق طبقہ موجود نہیں تھا۔ کھل کر لوگ مسلمان تھے یا کھل کر کافر تھے۔ جب کہ مدینہ میں ایک بڑا طبقہ منافقوں کا پیدا ہوگیا تھا۔ یہ طبقہ مالدار، موثر اور باوقار تھا۔ اس نے اسلام کو اندر سے نقصان پہنچانے کے بڑے بڑے پلان بنائے، حتیٰ کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پلان بھی بنایا، مگر چوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی حیات پاک کا خود محافظ تھا اس لئے کوئی شخص آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر قادر نہیں ہوسکتا تھا: ارشاد ربانی ہے: ”واللہ یعصمک من الناس“ (النحل)

اس حفاظت کی ضمانت کے بعد حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کے لیے پہرہ داروں کو منع کردیا اور کہہ دیا کہ جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی ضمانت دے دی ہے۔
منافقین مدینہ میں سب سے پہلا اور اہم نام عبداللہ بن ابی ابن سلول کا ہے۔ اوس اور خزرج بنی قیل کے اولاد تھے اوریمنی تھے۔ یمنی اور مضری قبائل میں باہم سخت جنگ وجدال تھا، مگر حکمت خداوندی دیکھئے کہ اپنے پاسبان پائے یمنی قبائل سے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں یمنی اور مضری تنازعات نہیں ابھرے۔ انصار مدینہ یمنی تھے اور رسول خدا  صلی اللہ علیہ وسلم مضری تھے۔ یہ دو عناصر اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے لیے اشد ضروری ہیں۔ ان ہی تنازعات نے نبی امیہ کے آخر میں اس حکومت کی دھجیاں اڑادیں۔ اندلس میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی اور حکومت کے پرخچے اڑے اس میں بھی یمنی اور مضری قبائل کے اختلاف نے اہم رول ادا کیا، لیکن حکمت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بصیرت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنیوں سے استمداد کے ذریعہ دونوں کے اختلاف کا خاتمہ کردیا۔ یہاں تک کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ایمان تو یمن والوں کا ہے، ان کے
دل نرم ہوتے ہیں اور ان کی طبیعتیں حق کے لیے کھلی ہوئی ہیں:

الایمان یمان والحکمة یمانیة انہم ارقہم قلوباً والینہم عریقة ․

ان اختلافات کے دب جانے کے بعد ہم کو اس حکمت نبوی کی عظمت محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف آپ نے صدیوں سے
 جاری کشمکش کو یمنیوں اور مضریوں کے درمیان سے ختم کردیا، دوسری طرف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس و خزرج کے درمیان صدیوں سے برپا قبائلی جنگ کی آگ کو بھی دبا کر رکھ دیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بعاث کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ جنگ بعاث وہ آخری جنگ ہے جو اوس و خزرج کے درمیان ہوئی، جس میں سینکڑوں آدمی قتل ہوئے، اس جنگ کا ایندھن قبائلی عصبیت تھی۔

ایک بار اوس اور خزرج قبائل کے افراد مل جل کر باہم ایک چوپال میں بیٹھے محبت کی باتیں کررہے تھے کہ ادھر سے ایک یہودی جد بن شماس گزرا، اس نے دیکھا کہ اسلام نے کس طرح سے اوس و خزرج کے درمیان اختلافات کو دور کرکے محبت و خلوص کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اس بوڑھے یہودی کو حسد ہوا اور اس نے ایک نوجوان یہودی کو وہ نظمیں یاد کرائیں جو بعاث کے جنگ کے بارے میں اوس کے شاعروں اور خزرج کے شاعروں نے کہی تھیں۔ نظم یاد کرانے کے بعد اس نے اس نوجوان کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جاکر اوس و خزرج کے مجمع میں بیٹھ کر انہیں یہ نظم سناؤ۔ اس نے جب ان متاثرانہ نظموں کو سنایا تو اوس و خزرج کے اندر قبائلی جذبات بھڑک اٹھے اور دونوں بولے کہ پھر دو دوہاتھ ہوجائے۔ یہاں تک کہ اسلحہ لیکر دونوں جنگ کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔ جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ سرعت کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچے۔ فریقین کو روکا اور فرمایا کہ:
”میں تمہارے درمیان زندہ موجود ہوں اور تم جاہلیت کی جنگ کرنے جارہے ہو۔“

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر فریقین نے سمجھ لیا کہ یہ شیطانی نرغہ اور یہودیوں کی سازش تھی۔ چنانچہ ان دونوں قبائل نے توبہ کی، ایک دوسرے کے گلے ملے اور محبت کے ساتھ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں واپس آئے۔
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ کے معاشرہ میں قبائلی عصبیت کی اور نفرت کی کیسی کیسی چنگاریاں پوشیدہ تھیں۔ ان میں سے ہر چنگاری شجر اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے اور خاکستر کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن حکمت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی نے سارے عناصر کو دبارکھا تھا۔ ورنہ یہودیت اور نفاق دو بڑے زہر ناک عناصر تھے۔
عبداللہ بن ابی ابن سلول اپنی دادی کے نام سے معرو ف تھا۔ اس کی دادی کا نام سلول تھا، وہ ابن سلول کہلاتا تھا۔ جنگ بعاث کے بعد اس نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی تھی۔ اور اوس و خزرج دونوں نے متفقہ طور پر طے کرلیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا بادشاہ بنادیا جائے گا۔ اس کو تاج پہنانے کی ساری تیاریاں بھی کرلی گئی تھیں، اس درمیان میں نبوت کی شعاعیں مدینہ میں پڑیں،آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں نےمدینہ کی طرف ہجرت کی۔اسوجہ سےصورت حال بدل گئی۔

عبداللہ بن ابی ابن سلول نہایت متمول تھا، بہت خوبصورت اور دل کش شخصیت کا مالک تھا۔ مدینہ میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا، یاد رہے کہ خزرج بڑا قبیلہ تھا اور اوس اس کے مقابلہ میں چھوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ اوس نے اپنے افراد کی قلت کے باعث دو یہودی قبائل سے دوستی کررکھی تھی، بن نضیر اور بنی قریظہ سے۔ جب کہ خزرج نے معاہدہ کررکھا تھا بنی قینقاع سے جو نسبتاً چھوٹا قبیلہ تھا۔ اس پس منظر میں تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اندر سے کوئی بڑی بغاوت کیوں نہیں کی اور اسلام کو پھیلنے دیا اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو بظاہر تسلیم کرلیا۔ مگر خدا کا کرنا کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول مخلص مسلمان ہوگیا اور ان کی بیٹی جمیلہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ اس کے داماد حنظلہ بن عامر راہب شہید ہوئے اور غسیل ملائکہ کہلائے۔

بہرحال اس نے اپنی تاج پوشی کی تقریب کا انتظار کیا، مگرجب بدر کے موقعہ پر ۲ھء میں اسلام کی کھلی فتح ہوئی اور سارے سرداران مکہ قتل کردئیے گئے تو یہود مدینہ بھی ڈر گئے۔ اس وقت خوف کی وجہ سے اور مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے کی وجہ سے ابن سلول مسلمان ہوگیا،لیکن اس کا اسلام ظاہری تھا، اندر سے کافر تھا۔ نہ صرف یہ کہ منافق تھا بلکہ منافقوں کا سردار بن گیا۔ تین سو منافقین مرد اور ستر عورتیں منافقات ان کی قیادت میں تھیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر اپنا اثر رکھتے تھے اور مسلمان کہلاتے تھے، روزہ نماز کرتے تھے مگر ظاہر میں۔ اندر اندر اسلام کے خلاف سازش میں مشغول تھے، کوئی موقع سازش کا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس لیے ان سے نپٹنا آسان نہ تھا۔ یہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی، تحمل و بردباری اور اعلیٰ اخلاق کا کرشمہ تھا کہ اس طبقہ کے ساتھ نہایت فاضلانہ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور منافقوں کے نہایت رزائل اخلاق کو برداشت کیا۔

جنگوں میں منافقین نہیں جاتے تھے اور جاتے تھے تو فتنہ پھیلایا کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلول بھی عام طور سے غزوات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان کی مدینہ میں عظمت اور قبیلہ خزرج میں اہمیت بہت زیادہ تھی۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ خزرجی صحابہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کرتے تھے کہ : یا رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اس پررحم کیجئے۔ اس لیے کہ یہ تصور رکھتے ہیں کہ مدینہ میں آپ کی آمد سے ان کی بادشاہت چلی گئی۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی دل دہی کیا کرتے تھے۔ ورنہ اندیشہ تھا کہ ان کے قتل اور سخت سزا سے اسلام کا اتحاد ختم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کبھی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ایک دوسری بات یہ کہ اتنے بڑے سردار کے خلاف گواہی نہ مل سکی۔

غزوئہ بنی المصطلق میں عبداللہ بن ابی ابن سلول شریک تھے۔ پانی کے لیے ایک جہنی صحابی اور مہاجر صحابی میں جھگڑا ہوا، جہنیوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی۔ اس موقع پر ابن سلول نے انصار کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ تم سب کا بڑا کارنامہ ہے، تم ان مہاجرین کو اپنے گھر لے آئے، اپنا آدھا مال دے دیا اور ان پر پیسہ خرچ کررہے ہو، میں کہتا ہوں کہ تم ان کی مدد کرنا چھوڑ دو تو یہ سب کہیں اور بھاگ جائیں گے، مدینہ چل کر میں دیکھوں گا کہ عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے۔ اس وقت ایک نوجوان صحابی ارقم بن ارقم موجود تھے، انھوں نے جاکر پورے واقعہ کی اطلاع حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی کو جنبش ہوئی، انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ حکم دیجئے کہ میں اس کی گردن قلم کردوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔

اس واقعہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک صحابی نے کہا کہ ابن سلول کو قتل کردینا چاہیے تو دوسرے صحابی جو خزرج کے تھے اور ابن سلول کے ہم قبیلہ تھے بگڑگئے اور بولے کہ تم ابن سلول کو قتل نہیں کرسکتے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کو ٹھیک کیا۔ جب ابن سلول کو معلوم ہوا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ کی اطلاع ہوگئی ہے تو وہ سرعت سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور قسم کھاکر کہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد سورہ المنافقون نازل ہوئی، جس سے ابن سلول کی جھوٹی قسم واضح ہوئی اور حضرت ارقم بن ارقم کی رپورٹ صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ارقم کو بلاکر سورہ منافقون سنادی۔ اب خدشہ یہ تھا کہ خزرج اور مہاجرین میں اختلاف نہ شروع ہوجائے، اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا حکم دے دیا، حالانکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر نہیں کرتے تھے اور پھر پورے دن اورپوری رات سفر کرتے رہے، جب تھک گئے تو صحابہ کرام کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، سارے لوگ سوگئے۔ کسی نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ تو اس وقت سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ابن سلول کی بات نہیں سنی۔ مطلب یہ تھا کہ فتنہ کو روکنے کے لیے یہ کام کیاگیا تھا۔

اسی سفر میں حدیث افق کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کسی ضرورت بشری کے تحت لشکرگاہ سے باہر گئی ہوئی تھیں، جس کاعلم کسی کو نہ ہوا۔ جب وہ واپس لوٹنے لگیں تو ان کی نظر اپنے گلے کے ہار پر پڑی جو ٹوٹ کر گرجانے کی وجہ سے نظر نہ آیا۔ وہ ان کو تلاش کرنے میں لگ گئیں اور دیر ہوگئی، ادھر قافلہ اپنی جگہ سے کوچ کرگیا تھا۔ نہ وہاں کوئی آدمی ہے نہ آدم زاد۔ مجبور ہوکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں یہاں تک کہ ان کو نیند آگئی۔ حضرت بلال بن امیہ جو قافلہ کے بعد میں آنے والوں میں سے تھے، انھوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ سورہی ہیں تو فرمایا: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون اس آواز سے حضرت عائشہ کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت بلال بن امیہ نے اپنے اونٹ کو بٹھادیا۔ حضرت عائشہ اس پر بیٹھ گئیں، حضرت بلال اونٹ کی مہار پکڑکر آگے چلتے رہے یہاں تک کہ منزل کو آپہنچے۔ ابن سلول نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا اورحضرت عائشہ پر اتہام لگایا جس میں بعض مخلص مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی کی بناپر منافقین کے ہمنوا ہوگئے۔ ان میں حضرت حسان بن ثابت انصاری، حضرت حمنہ بنت جحش اور حضرت اُماسہ بنت مسطحہ بھی شریک تھے۔ صحیح صورت حال کی وضاحت پر قرآن کی سورہ ”سورہ نور“ نازل ہوئی اور اسے اتہام قرار دیا گیا۔ چنانچہ مذکورہ تینوں حضرات کو اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے۔ مگر عبداللہ بن ابی بن سلول سے کوئی باز پرس نہ کی گئی اور نہ انہیں کوئی سزا دی گئی۔ ادھر حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری برأت کے لیے پوری سورہ نازل فرمادی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

ابن سلول کی مدینہ میں اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے مسجد نبوی میں منبر کے قریب ایک ممتاز جگہ بنادی گئی تھی۔ اس ممتاز جگہ سے وہ لوگوں کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی دعوت دیا کرتا تھا۔ لیکن غزوئہ احد کا موقع آیا اور اس منافق کے مشورے کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ صحابہ کی اکثریت چاہتی تھی کہ شہر مدینہ سے نکل کر جنگ کی جائے۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کافیصلہ کرلیا، حالانکہ خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی۔ بہر حال حضور  صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھ کر تیار ہوکر نکلے اورمدینہ کے باہر رات گزاری۔ ابن سلول منافق بھی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، اس کے ساتھ ان کے تین سو متبعین بھی تیار ہوکر جنگ کے لیے برآمد ہوئے۔ جب صبح ہوئی اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان کے لیے چلے جہاں کفار پہلے سے موجود تھے تواس عین موقع پر ابن سلول نے خود بھی اور اس کے متبعین نے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی اور لوٹ کر مدینہ چلے آئے۔ ابن سلول نے کہا کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مخالفت کی اور لونڈوں کا کہنا مان لیا، اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ یہ واقعی جنگ ہے تو ہم ضرور شریک ہوتے۔

منافقین بلکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کے اس رویہ سے کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ابن سلول باہر نکل کر جنگ کرنے کا مخالف تھا تو پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلح ہوکر گھر سے کیوں نکلا اور پھر ساتھ رات بھی گزاری؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایک سازش کے مطابق کیاگیا تھا، مقصد یہ تھا کہ عین جنگ کے موقع پر ایک تہائی تعداد کو دشمن کے سامنے سے نکال لیا جائے تاکہ ایک طرف مسلمانوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور کفار کی ہمتیں بڑھ جائیں۔ اس کے تین سو آدمی مدینہ لوٹ آئے۔

ایسے سخت منافق کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول نہایت سچے پکے اور کٹر مسلمان تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ابن سلول کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے یا رسول اللہ میں اپنے باپ کا نہایت فرماں دار ہوں لیکن اگر کسی نے میرے والد کو قتل کیا تو ہوسکتا ہے کہ پدری عصبیت کے تحت میں اس کے قاتل کو قتل کردوں اور ایک مسلمان کو قتل کرکے میں جہنم میں جاؤں۔ لہٰذا آپ حکم دیجئے میں اپنے والد ابن سلول کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔ مجھے اس میں کوئی تذبذب نہیں ہوگا۔ اس پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک تمہارے والد میرے ساتھ ہیں میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں گا چنانچہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے تاعمر اس منافق کے سردار کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ اس کو اپنی قمیص بھی دی، اس کی نماز جنازہ پڑھائی اوراس کے لیے دعائے مغفرت کی۔

منافقین نے عجیب عجیب تبصرے کرنے کو اپنا شعار بنارکھا تھا، جس سے ان کا تشکک ظاہر ہوتا ہے، مثلاً غزوئہ خندق میں ایک منافق نے کہا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم توکہتے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو فتح کرلیں گے مگر آج شدت حصار سے یہ حال ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نکلنا مشکل ہے۔ واقعی کفار نے سخت حصار کررکھا تھا، مگر یہ اس منافق کے ایمان کی کمزوری تھی، بعد میں یہ تمام پیشین گوئیاں صحیح ثابت ہوئیں۔

ایک منافق نے غزوئہ تبوک کے موقع پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تشکیک کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس خبریں آسمان سے آتی ہیں مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ان کا اونٹ کہاں چلا گیا ہے۔ جب یہ بات حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بے شک مجھے نہیں معلوم کہ میرا اونٹ کہاں چلا گیا ہے، لیکن ابھی اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ وہ اونٹ فلاں جگہ ہے۔ پھر ایک صحابی کو حکم دیا کہ جاکر اس اونٹ کو فلاں جھاڑی سے پکڑ لائیں۔
اسی طرح جد بن قیس نے جو بڑا منافق تھا، ایک کھاڑی تنگنائی میں رات کی تاریکی میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو دھکیل دینا چاہا، مگر پوری سازش کا علم حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگیا، یہ منافقین پہچان بھی لیے گئے۔ ان سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے بازپرس کی مگر کسی منافق کو سزا نہیں دی۔ اقدام قتل کی اس مجرمانہ سازش پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا، سوائے کلمہ خیر کہنے کے۔ بیشک حضرت عائشہ نے صحیح فرمایا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔

دنیا کے بڑے سے بڑے تاریخ کے ہیروز کی زندگی کا مطالعہ کیجئے یہ عظمت اور یہ کھلی ہوئی کتاب زندگی کہیں دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ منافقین کی تعداد تین سو تھی، منافقات کی تعداد ستر تھی، مگر کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ آج بڑے جباروں کا حال دیکھئے کس طرح وہ مخالفین کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ کم از کم امریکہ کی مثال ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ کس طرح بے قصوروں کو اپنی غضب کا نشانہ بنارہا ہے اور انہیں بری طرح کچل رہا ہے۔ مگر رحمت مجسم کی محبت و حسن اخلاق کا یہ عالم کہ پوری عمر منافقوں کی ریشہ دوانیوں کو برداشت کیا۔ سازش کرنے والوں سے بردباری برتی اور کسی کو سزا نہیں دی، بلکہ جس نے معافی چاہی اس کو معاف کردیا۔

ذرا غور فرمائیے کہ اسی غزوئہ تبوک کے سفر کے دوران منافقین نے ایک نفاق کا اڈہ بنایا تھا جسے مسجد کا نام دیاگیا تھا۔ قرآن نے اس کا نام مسجد ضرار رکھا۔ یہ مسجد منافقوں نے اور ابوعامر فاسق نے مل کر بنائی تھی اور چاہتے تھے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم اس میں جاکر نماز پڑھ لیں۔ قرآن کریم نے ان کابھانڈا پھوڑدیا، ان کی سازش کو طشت از بام کردیا، اور ان کی بدنفسی اور منافقانہ پلان کو واضح کردیا:
والَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الموٴمِنِیْنَ وارصادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہ وَرَسُولَہ مِنْ قَبْل ط وَلِیَحْلِفُنَّ اِن اردنا اِلاَّ الْحُسْنٰی ط وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْن ط (التوبہ: ۱۰۷)
”اور جنھوں نے بنائی ہے ایک مسجد ضد پر اورکفر پر اور پھوٹ ڈالنے کے ارادہ سے مسلمانوں میں اور گھات لگانے کو اس شخص کی جو لڑرہا ہے اللہ سے اور اس کے رسول سے پہلے سے اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی ہی چاہی تھی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔“

علامہ شبیر احمد عثمانی ترجمہ شیخ الہند کے حاشیہ پر اس پورے واقعہ کی نزاکت اور اس مسجد کے قیام کا مقصد اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان نفاق ڈالنے کی جدوجہد وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
”واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرآئے تو اول مدینہ سے باہر ”بنی عمرو بن عوف“ کے محلہ میں فروکش ہوئے۔ پھر چند روز بعد شہر مدینہ میں تشریف لے گئے اور مسجد نبوی تعمیر کی، اس محلہ میں جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پیشتر نماز پڑھتے تھے، وہاں کے لوگوں نے مسجد تیار کرلی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ہفتہ کے روز وہاں جاکر دو رکعت نماز پڑھتے اور بڑی فضیلت اس کی بیان فرماتے تھے، بعض منافقین نے چاہا کہ پہلوں کی ضد پر اسی کے قریب ایک اور مکان مسجد کے نام سے تعمیر کریں۔ اپنی جماعت سے جدا ٹھہرائیں اور بعض سادہ دل مسلمانوں کو مسجد قبا سے ہٹاکر ادھر لے آئیں۔ فی الحقیقت اس ناپاک تجویز کا محرک اصلی ایک شخص ابوعامر راہب خزرجی تھا، ہجرت سے پہلے اس شخص نے نصرانی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ مدینہ اور آس پاس کے لوگ خصوصاً قبیلہ خزرج اس کے زہد و درویشی کے معتقد تھے اور بڑی تعظیم کرتے تھے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم سے جب مدینہ میں ایمان و عرفان کا آفتاب چمکا تو اس طرح کے درویشوں کا بھرم کھلنے لگا۔ بھلا نور آفتاب کے سامنے چراغ مردہ کو کون پوچھتا۔ ابوعامر یہ دیکھ کر چراغ پا ہوگیا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں ٹھیٹ ملت ابراہیمی لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگا میں پہلے سے اس پر قائم ہوں، لیکن تم نے اپنی طرف سے ملت ابراہیمی میں اس کے خلاف چیزیں داخل کردی ہیں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زور سے اس کی تردید فرمائی۔ آخر اسکی زبان سے نکلا کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہو خدا اس کو وطن سے دور یکہ میں تنہا غربت و بیکسی کی موت مارے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آمین“ خدا ایسا ہی کرے۔ جنگ بدر کے بعد جب اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور مسلمانوں کا عروج و فروغ حاسدوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا، ابوعامر کو تاب نہ رہی۔ بھاگ کر مکہ پہنچا، تاکہ کفار مکہ کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں چڑھاکر لائے۔ چنانچہ معرکہ احد میں قریش کے ساتھ خود آیا۔ مبارزہ شروع ہونے سے پہلے آگے بڑھ کر انصار مدینہ کو جو عہد جاہلیت میں اس کے بڑے معتقد تھے خطاب کرکے اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ احمق یہ نہ سمجھا کہ پیغمبرانہ تصرف کے سامنے اب وہ پرانا جادو کہاں چل سکتا ہے۔ آخر انصار نے جو اسے پہلے راہب کہہ کر پکارتے تھے جواب دیا کہ او فاسق دشمن خدا ! تیری آنکھ خدا کبھی ٹھنڈی نہ کرے۔ کیا رسول خدا  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے؟ انصار کا مایوس کن جواب سن کر کچھ حواس درست ہوئے اور خبط میں آکر کہنے لگا اے محمد! آئندہ جو قوم بھی تیرے مقابلہ کے لیے اٹھے گی میں برابر اس کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ جنگ حنین تک ہر معرکہ میں کفار کے ساتھ ہوکر مسلمانوں سے لڑتا رہا۔ احد میں اسی کی شرارت سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم رخم پہنچا۔ دونوں سفروں کے درمیان اس نے پوشیدہ طور پر کچھ گڑھے کھدوادئیے تھے۔ وہیں چہرئہ مبارک کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ حنین کے بعد جب ابوعامر نے محسوس کرلیا کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی تو بھاگ کر ملک شام پہنچا اور منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں قیصر روم سے مل کر ایک لشکر جرار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں لانے والا ہوں جو چشم زدن میں ان کے سارے منصوبے خاک میں ملادے گا، اور مسلمانوں کو بالکل پامال کرکے چھوڑے گا۔ (العیاذ باللہ) تم فی الحال ایک عمارت مسجد کے نام سے بنالو جہاں نماز کے بہانے سے جمع ہوکر اسلام کے خلاف ہر قسم کے سازشی مشورے کیے جاسکیں اور قاصد تم کو وہیں میرے خطوط وغیرہ پہنچادیا کرے اور میں بذات خود آؤں تو ایک موزوں جگہ ٹھہرنے اور ملنے کی ہو۔ یہ خبیث مقاصد تھے جن کے لیے مسجد ضرار تیار ہوئی اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بہانہ یہ کیا کہ یا رسول اللہ ! خدا کی قسم ہماری نیت بری نہیں بلکہ بارش اور سردی وغیرہ میں یا مخصوص بیماروں، فاقوں اور ارباب حوائج کو مسجد قبا تک جانا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ مسجد بنائی گئی ہے۔ تاکہ نمازیوں کو سہولت ہو اور مسجد قبا میں تنگیٴ مکان کی شکایت نہ رہے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ وہاں چل کر نماز پڑھ لیں تو ہمارے لیے موجب برکت اور سعادت ہو۔ یہ اس لیے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل دیکھ کر بعض سادہ دل مسلمان حسن ظن کی بنا پر ان کے جال میں پھنس جائیں۔ آپ اس وقت تبوک جانے کے لیے پابہ رکاب تھے۔ فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو ایسا ہوسکے گا۔ جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس ہوکر بالکل مدینہ کے قریب پہنچ گئے تب جبرئیل امین یہ آیات لے کر آئے جن میں منافقین کی ناپاک اغراض کو مطلع کرکے مسجد ضرار کا پول کھول دیاگیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک ابن خشم اور معن ابن عدی کو حکم دیا کہ اس مکان کو (جس کا نام ازراہ خداع و فریب مسجد رکھا تھا) گراکر پیوند زمین بنادو۔ انھوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور جلاکر خاک سیاہ کردیا۔ اس طرح منافقین اور ابوعامر کے سب ارمان دل کے دل میں رہ گئے۔اور ابوعامر اپنی دعاء اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین کے موافق قنشرین (ملک شام) میں تنہا سخت بے کسی کی موت مرگیا۔“

یہ تمام مباحث ثابت کرتے ہیں کہ منافقین نے کس طرح اسلامی معاشرہ میں رہ کر اسلام کی بیخ کنی کی بھرپور کوشش کی۔ بنی قینقاع کے محاصرہ کے دوران انھوں نے ان کی مدد کی اور ابن سلول نے ان کو سزا نہیں دینے دی۔ بنی نضیر سے ابن سلول نے کہلا بھیجا کہ ڈٹے رہو ہم مدد کو آتے ہیں۔ ان منافقین کا ساز باز جیسا کہ عرض کیاگیا کہ مکہ والوں سے بھی بڑا گہرا تھا۔ ایک بار مکہ والوں نے ابن سلول کو لکھا کہ ان مسلمانوں سے جنگ کرو ورنہ ہم تم پر حملہ کردیں گے جب اس خط کا حال حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن سلول سے کہا کہ دیکھو ہوش سے کام لو، یہ جنگ جو تم لڑنا چاہتے ہو وہ خود اپنے عزیزوں، قریبوں، بھائیوں، بیٹوں اور قریبی اقربا کو قتل کرنے پر ختم ہوگی۔ اس لیے کہ ہر خاندان میں مسلمان موجود ہیں اور کافر بھی موجود ہیں۔ کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کرے گا اور کوئی اپنے باپ کو قتل کرے گا۔ اس لیے جنگ کرنے سے پہلے خوب سوچ لو کہ کیا کرنے جارہے ہو۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی بات حق تھی جو منافقین کے دلوں میں گھر کرگئی۔ لہٰذا ان سب نے اس محاذ کو بالکل ہی چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ خود اس کا بیٹا، اس کا داماد، اس کی بیٹی سب پکے مسلمان تھے۔

اس پوری تفصیل سے یقینا اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ جو شخص بھی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ کردار، انتہائی تحمل و بردباری، حسن اخلاق اور مکارم اخلاق کا مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گاکہ یہ صفات خلق قرآن میں سے تھے۔ اور یہ عظیم کردار آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے ساتھ برت کر ثابت کردیا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے بھیجے گئے تھے تاکہ اخلاق کے اعلیٰ معیار کو مکمل کردیں۔ اسی فاضلانہ اخلاق کے سلسلے میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ․

اس اخلاق فاضلانہ سے ہم مسلمانوں کو بھی سبق اور عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ نے ہمیں خیر امت بناکر بھیجا ہے، کیا ہم بہترین امت کا مظاہرہ اپنے ملک، اپنے معاشرہ اور اپنے سماج میں کررہے ہیں۔ ہر جگہ اور ہر طرف انتشار و اکراہ پھیلا ہوا ہے، خود مسلمان آپس میں نہ متحد ہیں اور نہ اپنے فرائض کی انجام دہی کررہے ہیں۔ اس لیے آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ دنیا کی ساری قوم ان پر چڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خیر امت کا فریضہ انجام دیں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلانہ کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور واعتصموا بحبل للّٰہ جمیعًا ولا تفرقوا پرکاربند ہوجائیں۔
*************
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد: 89 ‏،صفر‏، ربیع الاول 1426ہجری مطابق اپریل 2005ء
از:محمد شمیم اختر قاسمی‏، شعبہٴ سنی دینیات، اے․ ایم․ یو علی گڑھ

Tuesday, September 12, 2017

تاریخِ اسلام کیا ہے؟

تاریخِ اسلام کیا ہے؟

تاریخ اسلام کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اگر درست طور اور بہتر انداز میں دیا جائے تو وہ چہرے جن پر برسوں ہوئے خزاں کا عالم ہے بہار بن کر کھلنے لگیں گے۔ ایک عرصہ ہوئے اس قوم نے اپنا راستہ بدلہ۔ یا شاید راستے سے بھٹک گئے لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس وقت اسلام خزاں کے موسم سےگزر رہا ہے۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلام کو جو وقار اور جو بہار بخشی اس کا تصور مختلف ادوار میں ملتِ بیضا کے قافلوں اور قافلہ سالاروں کو ان کامیابیوں کی راہیں دکھاتا رہاجواغیارکوبھی یہ سوچنے پرمجبورکردیتا ہےکہ جس قوم کی خزاں کا یہ عالم ہےاس کی بہار کیا رہی ہوگی۔

ظلم کےخلاف اٹھنے والی تلواروں کا نام تاریخِ اسلام ہے۔ انگنت مظالم کے باوجود درگزر کا نام تاریخِ اسلام ہے۔پیٹ پر پتھر باندھ کر دفاعی خندق کھودنے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔ آگ، کلیسا اور مٹی کی مورتوں کے پجاریوں کو وحدہ لاشریک کا سبق پڑھانے کا نام تاریخ اسلام ہے۔شودروں کو ان کے انسانی حقوق دینے اور ان کو جینے کا ڈھنگ سکھانے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔شہیدوں کے چہروں کی آخری مسکراہٹ سے روشنی لے کر مفتوح فصیلوں پر چراغاں کرنے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔جن مقامات پر حوصلے دم توڑ جات ہیں، تلواریں چھوٹ جاتی ہیں ان مقامات پر سر بکف آگے بڑھ جانے والوں کے اعمال نامے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔مفتوحہ علاقوں میں دشمن کے دلوں پر راج کرنے والی شفقت بھری نگاہوں اور مسکراہٹوں کا نام تاریخِ اسلام ہے۔ظلم کے خلاف سینا سپر ہو جانے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔

اسلام کی تاریخ انگنت اور انمٹ ابواب پر مشتمل ہے جن میں صبر و شکر، قربانی، درگزر، اخلاق، شفقت اور دوسرے اخلاقی اقدار شامل ہیں۔ تاریخ اسلام یہ ہے کہ جہاں جہاں سے اسلام کا گزر ہوا اپنا احساس چھوڑ گیا۔ ہماری تاریخ ہمیں بار بار سکھاتی ہے اور دکھاتی ہے کہ اسلام کا اصل ڈھنگ کیا ہے۔ کیوں سندھ  پر حملہ آور ہونے کے باوجود عرب کا وہ نو عمر غیر مسلموں کی دلوں دھڑکن تھا، کیوں میسور میں موجود  وہ غیر مسلم بیٹیاں فتح علی کو اپنی عزتوں کا محافظ خیال کرتی تھیں؟کیوں برے سےبرا سلوک کرنےکےباوجود اہلِ مکہ کواس بات کا یقین تھا کہ آج ان پر تلوارنہیں پھول نچھاورہونگے؟

یہ سچ تاریخ اسلام ہے کہ ہمارا دین ہمارا مرکز ہے۔ ہمارا شعار ایک، خدا ایک ہے۔ہم ایک ہی درخت کی ٹہنیاں ہیں، ہم ایک ہی جسم کے عضو ہیں۔ ہمارے رہن سہن میں فرق ہو سکتا ہے، ہماری زبانیں ہمارا لباس مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہم سب پھر بھی ایک ہی مرکز کو ماننے والے ہیں۔  اور ہمیں اجتماعی جدو جہد، اجتماعی احساس اور قوم کے لئے اجتماعی فکر کرنا سکھاتا ہے اور یہی تاریخِ اسلام ہے۔

Saturday, November 5, 2016

یاجوج ماجوج اور ذولقرنین حیدر

یاجوج ماجوج اور ذولقرنین حیدر

کیا آپ "یاجوج ماجوج" کے بارے میں کچھ دلچسپ و عجیب جاننا چاہتے ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے جن کو حضرت ذوالقرنین نے ایک دیوار کے پیچھے قید کردیا ہوا ہے، لیکن وہ نکلیں گے۔کیسے اور کب ؟ جانئیے ان کے متعلق کچھ دلچسپ و عجیب


یاجوج و ماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ انسانی نسل کے دو بڑے وحشی قبیلے گزر چکے ہیں جو اپنے اِرد گرد رہنے والوں پر بہت ظلم اور زیادتیاں کرتے اور انسانی بستیاں تک تاراج کر دیتے تھے۔ قرآن مجید کی آیات، توریت کے مطالب اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شمال مشرقی ایشیا میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں ایشیا کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں مصیبت برپا کرتے تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے ان کے رہائشی علاقے کو ماسکو اور توبل سیک کے آس پاس بتلایا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ یاجوج و ماجوج کے شہر تبت اور چین سے بحرمنجمد شمالی تک اور مغرب میں ترکستان تک پھیلے ہوئے تھے۔

حضرت ذوالقرنین کے زمانے میں یاجوج و ماجوج کے حملے وبال جان بن گئے تھے، ان کی روک تھام کیلئے ذوالقرنین نے پہاڑوں کے مابین اونچی اور مضبوط سد (دیوار) تعمیر فرمائی۔ ذوالقرنین اور سدِ ذوالقرنین کا ذکر قرآن کریم کی سورة الکہف میں موجود ہے۔

جس ذوالقرنین کا قرآن میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت اور سدِ ذوالقرنین سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔ بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندرِ اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں مگر بعض اس کا انکار کرکے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر ذوالقرنین کو قدیم ایرانی بادشاہ سائرس اعظم (کورش اعظم)کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فروانی سے نوازا تھا۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ قرآن کریم کی سورة کہف میں بحوالہ یاجوج ماجوج ذوالقرنین کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب وہ اپنی شمالی مہم کے دوران سو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایسی قوم ملی جس کی زبان ناقابل فہم تھی تاہم جب ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد پھیلاتے ہیں لہٰذا تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد (دیوار) تعمیر کر دے۔ چنانچہ پھر یہ تفصیل ہے۔

کس طرح ذوالقرنین نے اُس قوم کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کیلئے دیوار بنائی اور جو دیوار بنائی گئی وہ کوئی خیالی اور معنوی نہیں بلکہ حقیقی اور حسی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی تھی جس سے وقتی طور پر یاجوج ماجوج کا فتنہ دب گیا۔ جب یہ دیوار تعمیر ہو گئی تو ذوالقرنین نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے اور جب میرے رب کے وعدے کا وقت قریب آئیگا تو وہ اس کو پیوندخاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ رہی یہ بات کہ سدِ ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟

تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہو چکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملوں سے بچائو کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور دیوارِ چین ہے جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے اور اب تک موجود ہے لیکن واضح رہے کہ دیوارِ چین لوہے اور تابنے سے بنی ہوئی نہیں ہے اور نہ وہ کسی چھوٹے کوہستانی درّے میں ہے ، وہ ایک عام مصالحے سے بنی ہوئی دیوار ہے۔ بعض کا اصرار ہے کہ یہ وہی دیوار ”مارب” ہے کہ جو یمن میں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ دیوارِ مارب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ہے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کیلئے اور پانی ذخیرہ کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔


ویسے بھی وہ لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیں ہے جبکہ علماء و محققین کی گواہی کے مطابق سرزمین ”قفقاز” میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ اس میں ایک دیوار کی طرح کا درّہ بھی موجود ہے جو مشہور درّہ ”داریال” ہے۔ یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوہے کی دیوار نظر آتی ہے، اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوارِ ذوالقرنین یہی ہے۔ اگرچہ سدِ ذوالقرنین بڑی مضبوط بنا ئی گئی ہے جس کے اوپر چڑھ کر یا اس میں سوراخ کرکے یاجوج ماجوج کا اِدھر آنا ممکن نہیں لیکن جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہے۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دیوار میں تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کیلئے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیات ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل اِن شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے یعنی انسانوں کو بھی کھانے سے گریز نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو طور کی طرف جمع کرلے کیونکہ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کسی کے بس میں نہ ہوگا۔

حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھی اس وقت ایسی جگہ کھڑے ہوں گے جہاں غذا کی سخت قلت ہوگی پھر لوگوں کی درخواست پر حضرت عیسیٰ یاجوج ماجوج کیلئے بددعا فرمائیں گے پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں اور کانوں میں کیڑا پیدا کر دے گا جو بعد میں پھوڑا بن جائے گاجس کے پھٹنے سے یہ ہلاک ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ سب سے سب مر جائیں گے ، ان کی لاشوں سے ایک بالشت زمین بھی خالی نہ ہوگی اور ہر طرف ان کی لاشوں کی گندی بو پھیل جائے گی ، پھر عیسیٰ ابن مریم دعا کریں گے تو اللہ جل و شانہ اونٹ کی گردن برابر پرندے بھیجیں گے جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جانے کہاں پھینک دینگے ، پھر ایک بارش ہوگی جس سے کل زمین صاف شفاف ہو جائے گی اور ہر طرف ہریالی و خوشحالی ہوگی۔

صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا، جس سے ان مفسرین کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ یا منگول ترک جن میں سے چنگیز بھی تھا یا روسی اور چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں، کیونکہ یاجوج و ماجوج کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے
جزاک اللّہ
*********

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |