ایک عظیم پشتون مجاہد وحکمران احمدشاہ ابدالی کی کہانی - دوسری قسط
دورحکومت اورموجودہ پاکستان کے علاقے
احمد شاہ ابدالی جوان ہوکر افعان فوج میں بھرتی ہوا نادر شاہ کی توجہ حاصل کرنے بعد وہ ترقی کرتے ہوۓ ترقی کرکے افغان فوج کا سپہ سالار بن گیا۔ نادر شاہ کے قتل کے بعدافغان معززین کا لویہ جرگہ منعقد ہوا جس میں احمد شاہ ابدالی کو نیا حکم ران منتخب کرلیا گیا۔ یہ جرگہ شیر سرخ بابا کے مزار پر منعقد ہوا تھا، اسی دوران صابر شاہ ملنگ نےگندم کا ایک خوشہ توڑ کران کے سر پر بطور تاج لگایا اور احمد شاہ کو بطور بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ حمد شاہ ابدالی کے دور میں افغان سلطنت اٹک سے کابل، کوئٹہ، مستونگ، قلات، سبی، جیکب آباد، شکارپور، سندھ، پشین، ڈیرہ اسماعیل خان، ضلع لورالائی اور پنجاب کے علاقوں پر مشتمل تھی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ احمد شاہ ابدالی کاسندھ دھرتی کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور سندھ کے حکم ران افغان بادشاہ کے اطاعت گزار تھے۔ 1747 میں جب احمد شاہ ابدالی نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تواس وقت سندھ میں میاں نور محمد کلہوڑہ حکمراں تھے۔ 1748میں احمد شاہ ابدالی ہندوستان پہنچا۔ اس وقت اس نے میاں نور محمد کلہوڑہ کو ’’شاہنواز خان‘‘ کا خطاب دیا اور ہدایت کی کہ وہ نادر شاہ کو دیا جانے والا سالانہ خراج قندھار میں پابندی سے ادا کرتے رہیں۔ میاں نور محمد کلہوڑہ نے اسے یقین دلایا کہ خراج کی ادائیگی میں تاخیر نہیں ہوگی اور وہ اسے اس سلسلے میں کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیں گے لیکن جب ان کی جانب سے تاخیر ہوئی تو احمد شاہ ابدالی نے ان کے نام فرمان جاری کیا اور تنبیہ کی کہ اگر تم نے خراج ادا کرنے میں تاخیر یا کوتاہی کی تو تمہارے ملک کو تاخت و تاراج کردیا جائے گا۔
میاں نور محمد کلہوڑہ، احمد شاہ ابدالی سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان کو دہلی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کی تباہی کا پورا علم تھا اور یہ بات بھی معلوم تھی کہ احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں وہاں کے بادشاہوں، امیروں اور وزیروں پر کیا گزری ، تھی، چنانچہ انہوں نے پہلی فرصت میں دیباوحریر، اطلس و کمخواب، مشک و عنبر اور اسی قسم کی دوسری بیش بہا اشیاء، ایک سفارت کار کے ذریعے قندھار بھجوا دیں اوراحمد شاہ ابدالی کو اپنی اطاعت گزاری کا یقین دلایا۔ احمد شاہ ابدالی ان تحائف اور سفارت کاری کے انداز سے بہت خوش ہوا اور ایک بار پھر میاں نور محمد کلہوڑہ سے دوستانہ روابط کی تجدید کی۔ اس کے چند دنوں بعد میاں نور محمد کلہوڑہ نے محمد محفوظ سرخوش اور مرید خان کو قندھار اور کابل میں مستقل طور پر اپنا سفیر اور وکیل تعینات کردیا۔
میاں نور محمد کلہوڑہ اس کے بعدپابندی کے ساتھ سالانہ خراج قندھار بھجواتے رہے لیکن ایک سال ان کو خراج کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی۔ اس عہد شکنی پر احمد شاہ ابدالی نے مشتعل ہوکر اپنے سپہ سالار جہان خان کو ہدایت کی کہ وہ ایک لشکر لے کر سندھ جائے۔ جب لوگوں نے سردار جہان خان کی آمد کی خبر سنی تو پریشان ہوگئے۔ ابھی ان کی پریشانی دور نہیں ہوئی تھی کہ خود احمد شاہ ابدالی بھی اپنی فوج کے ساتھ سندھ میں داخل ہوکر محمدآباد کے ریگستان تک پہنچ گیا۔ میاں نور محمد کلہوڑہ کو اپنی جان بچانا مشکل نظر آئی تو انہوں نے اپنے دیوان گدو مل سے کہا کہ وہ کسی طرح احمد شاہ ابدالی کے حضور میں حاضر ہوکراسے اطاعت اور فرماں برداری کا یقین دلائے۔ گدو مل سکھر کے پل سے متصل احمد شاہ ابدالی کی لشکرگاہ میں پہنچا، دو تین روز تک ملاقات کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوئی۔ بڑی کوششوں اور دشواریوں کے بعد اسے احمد شاہ ابدالی سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ گدو مل ایک زیرک، مدبر اور معاملہ فہم شخص تھا۔ اس کو احمد شاہ ابدالی کی دلی کیفیت اور غضب ناکی کا پورا اندازہ تھا چنانچہ اس نے عفوتوقیر چاہتے ہوئے اس کی خدمت میں گراں قدر تحائف کے ساتھ مٹی سے بھری ہوئی چند بوریاں بھی پیش کیں۔ احمد شاہ ابدالی نے اس سے سخت لہجے میں پوچھا، ’’ ان بوریوں میں کیا ہے‘‘؟ گدو مل نے ہاتھ جوڑے اور بولا۔ ان بوریوں میں سندھ کے بزرگوں کی قبروں کی مٹی ہے۔ ہم غریب لوگ آپ کی خدمت میں اس سے زیادہ عظیم تحفہ پیش نہیں کرسکتے۔ چونکہ احمد شاہ ابدالی کو اولیائےکرام سےدلی محبت تھی، اس نے بڑی عقیدت سے مٹی کی ان بوریوں کو قبول کیا اور پھر سندھ کے رہنے والوں پر کوئی سختی نہیں کی۔
میاں نور محمد کلہوڑہ نے 1753 میں وفات پائی۔ تمام امیروں نے اتفاق رائے سے ان کے بیٹے میاں محمد مرادیاب خان کو عمرکوٹ کے مقام پر سندھ کا حکمران بنایا۔ احمد شاہ ابدالی اس وقت نوشہرہ میں تھا۔ اس نے محمد مرادیاب خان کی بادشاہت کی توثیق کردی۔ یہی نہیں بلکہ اسے ’’شاہنواز خان‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا۔ ان دنوں شکارپور، کلہوڑوں، دائودپوتوں اور بلوچوں کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اسے سبی میں شامل کرکے افغان ناظم کی تحویل میں دے دیا۔ اس کے نتیجے میں شکارپور کے راستے ماورالنہر اور خراساں تک افغانستان کی تجارت ہونے لگی اور شکارپور ایک تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اس کے ساتھ ہی احمد شاہ ابدالی نے اسماعیل خان کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے سندھ میں مامور کیا۔ اسماعیل خان نے محمدآباد میں قیام کرکے سید محمد شاہ کی ماتحتی میں چند علماء ٹھٹھہ اور دوسرے علاقوں کی طرف بھجوائے تاکہ وہ سالانہ خراج وصول کرکے قندھار بھجواتے رہیں۔ اس زمانے میں احمد شاہ ابدالی کا ایک سفیر محمد بیگ شاملو بھی ٹھٹھہ پہنچا۔ اس نے محمد صالح کو ٹھٹھہ کی نظامت پیش کی۔ اس صورت حال سے محمد بیگ شاملو اور اسماعیل خان میں اختلافات پیدا ہوئے اور ٹھٹھہ کی نظامت پر قاضی محفوظ بحال ہوگیا۔ یہ پورا عرصہ دیوان گدومل نے احمد شاہ ابدالی کے دربار میں سندھ کے سفیر کی حیثیت سے گزارا اور کلہوڑوں کی نمائندگی کی۔ اس زمانے میں کئی سیاسی تبدیلیاں عمل میں آئیں اس کے باوجود میاں مرادیاب خان نے تین سال کامیابی اور کامرانی سے بسر کئے لیکن اس کے بعد چند بااثر امراء اس کے مخالف ہوگئے۔ انہوں نے1758 میں اسے اس کی اقامت گاہ یعنی عمرکوٹ سے گرفتار کرکے معزول کردیا اور اس کی جگہ اس کے بھائی میاں غلام شاہ کلہوڑہ کی تخت نشینی عمل میں آئی۔
میاں غلام شاہ کلہوڑہ کو اپنی مسند نشینی کے بعد طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جب تک دربار قندھار سے اس کی حکومت کی توثیق نہیں ہوجاتی، اس وقت تک عزل و نصب کا جھگڑا برقرار رہتا اور متعدد دعویدار اپنے حقوق کے نام پر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجاتے۔اس صورت حا ل کو دیوان گدو مل نے سنبھالا۔ وہ اس وقت قندھار میں متعین تھا اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہا تھا جس کی وجہ سے احمد شاہ ابدالی کو غلام شاہ کلہوڑہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں تھی چنانچہ دیوان گدو مل کی حسن تدبیر اور موثر سفارش کی بنا پر سنہ 1762کی کارروائی میں احمد شاہ ابدالی نے میاں غلام شاہ کلہوڑہ کو ’’ہنر برجنگ شاہ ویری دی خان‘‘ کا خطاب مرحمت کیا اوراس کی حکومت کو سندحکم رانی عطا کردی۔ اس کے ساتھ احمد شاہ ابدالی نے ایک ہاتھی اور دوسرے تحائف بھی بھجوائے۔ جب غلام شاہ کلہوڑہ نے ’’کچھ‘‘ کی یورش پر قابو پایا اور وہاں کے راجہ پر فتح پائی اوراپنے دارالخلافہ واپس ہوئے تو احمد شاہ ابدالی نے ایک فرمان کے ذریعے ان کے منصب و اعزاز میں اضافہ کیا۔ اس طرح وہ ہنربرجنگ شاہ ویر دی خان کے ساتھ ساتھ صمصام الدولہ بھی بن گئے۔ اس کے ساتھ ایک خطاب ’’دولہ‘‘ بھی ملا۔
میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے حتیٰ الامکان اس امر کی کوشش کی کہ دربار قندھار سے ان کے تعلقات درست رہیں چنانچہ ان کی جانب سے باقاعدگی کے ساتھ سالانہ خراج ادا کیا جاتا رہا اور دوسری جانب انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود میں بھی پوری توجہ دی جس کی وجہ سے وہ سندھ کے باہر مقبول ترین حکمران سمجھے جانے لگے۔ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ملکی معاملات کو نہایت خوش اسلوبی سے چلایا اور سیاسی اور اقتصادی حالات میں استحکام کی کیفیت پیدا کی۔ اس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی کو بھی ان کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرنا پڑا۔ چنانچہ سنہ 1767 میں احمد شاہ ابدالی نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے بھی ان کے حوالے کردیئے چونکہ ان علاقوں کا نظم و نسق درست کرنے میں احمد شاہ ابدالی کے کارپرداز ناکام ہوگئے تھے، میاں غلام شاہ کلہوڑہ کو خود ان علاقوں میں پہنچ کر وہاں کے حالات کی درستی کے یےاقدامات کرنا پڑے۔
میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے 3؍جمادی الاول سنہ 1773 کو وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد میاں سرفراز خان نے کاروبار حکومت سنبھالا چونکہ سندھ افغانستان کے تابع تھا، اس لئے ہر مرتبہ اس کی ضرورت پیش آتی تھی کہ دربار قندھار سے بادشاہت کی توثیق کرائی جائے لیکن کسی وجہ سے سفارت اس سلسلے میں موخر نہیں ہوئی اور وہ دربار قندھار کی جانب سے انہیں سند توثیق حاصل نہیں ہوسکی۔ سرفراز خان ابھی اسی کوشش میں تھا کہ سنہ 1773 میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوگیا۔ اس کی وفات کی خبر سنتے ہی سندھ کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ سندھ کے رہنے والوں کو پہلی مرتبہ اس امر کا احساس ہوا کہ وہ کم سے کم افغانوں کی ذہنی غلامی سے نجات پاگئے ہیں کیونکہ وہ خود مختار اور آزاد ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح افغانستان کے زیرتسلط تھے اور دربار قندھار ہی کا حکم چلتا تھا۔
ابھی سندھ کے رہنے والےچبن و سکون کا سانس بھی نہ لینےپائے تھے کہ خبر آگئی کہ احمد شاہ ابدالی کی جگہ اس کا بیٹا تیمور شاہ حکمران بن گیا ہے۔ تیمور شاہ نے تخت نشین ہونے کے فوری بعد سندھ پر توجہ دی جو کہ افغان سلطنت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا اور یہاں خراج کی مد میں سالانہ لاکھوں روپے حاصل ہوتے تھے ۔چنانچہ تیمور شاہ نے سرفراز خان کوسند توثیق عطا کرکے ’’خدایار خان‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس طرح ابدالیوں کو مزید سندھ پر قبضہ جمائے رکھنے کے مواقع دوبارہ حاصل ہوگئے۔
احمدشاہ ابدالی کی کہانی پہلی قسط
احمدشاہ ابدالی کی کہانی تیسری قسط
احمدشاہ ابدالی کی کہانی پہلی قسط
احمدشاہ ابدالی کی کہانی تیسری قسط
0 comments:
Post a Comment