Ads

Wednesday, August 28, 2019

احمدشاہ ابدالی کی کہانی - تیسری قسط

ایک عظیم پشتون مجاہد وحکمران  احمدشاہ ابدالی کی کہانی  تیسری قسط


مرہٹوں کے خلاف جنگ پانی پت کی تیسری لڑائی
پانی پت کی تیسری لڑائی افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے سداشو راؤ بھاؤ کے درمیان 1761ء میں ہوئی۔ مرہٹے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مرہٹے جنگجو اور بہت بہادر لوگ تھے۔ مغل شہزادے جانشینی کی جنگیں لڑتے رہے اور مرہٹے اپنی فوجی طاقت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ 1755ء میں دہلی تک پہنچ گئے مغل بادشاہ ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ 1737 میں "مرھٹے” دہلی پر حملہ آور ھوئے۔۔ بادشاھوں کی کمزوری اور امراء کی خود غرضی کے باعث مرھٹوں کو قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا موقع مل گیا۔ مرھٹوں کے مظالم نے شاہ ولی اللہ دھلوی ‘ شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دل دھلادیئے۔ ان مظالم کی ایک طویل و شرمناک داستان ھے۔ بنگال کے مشہور شاعر گنگا رام نے لکھا:

"برگیوں (مرھٹوں) نے دیہاتیوں کو لوٹنا شروع کردیا۔۔ کچھ لوگوں کے انہوں نے ھاتھ ‘ ناک اور کان کاٹ لئے۔ خوبصورت عورتوں کو وہ رسیوں میں باندھ کر لے گئے۔۔ عورتیں چیخیں مارتی تھیں۔ انہوں نے ھر طرف آگ لگادی اور ھر طرف لوٹ مار کرتے ھوئے گھومے۔۔”

  1760ء تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے کو فتح کر چکے تھے۔ ان کے سردار رگوناتھ نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا۔ پھر لاہور پر قبضہ کرکے اٹک کا علاقہ فتح کر لیا۔ انہوں نے لال قلعہ دہلی کی سونے کی چھت اترواکر اپنے لیے سونے کے سکے بنوائے اور لوٹ مار کی۔مغلوں کے دور میں ہندوؤں کو مذہبی آزادی حاصل رھی لیکن جیسے ہی مرہٹوں کے روپ میں ہندو طاقتور اور مغل کمزور ہوئے تو مرہٹوں نے اعلان کیا کہ وہ دہلی کی شاہی مسجد کے منبر پر رام کی مورتی رکھیں گے جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمان سردار نجیب الدولہ نے احمد شاہ ابدالی کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے ہندوستان پر حملہ کی دعوت دی اور مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔ مرہٹہ مقبوضہ علاقہ جات احمد شاہ ابدالی کی ملکیت تھے ان کا حاکم احمد شاہ درانی کا بیٹا تیمور شاہ تھا جسے شکست دے کر مرہٹوں نے افغانستان بھگا دیا اب احمد شاہ درانی نے اپنے مقبوضات واپس لینے کے لیے چوتھی مرتبہ برصغیر پر حملہ کیا۔ 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ یہ جنگ طلوع آفتاب سے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی روہیلہ سپاہیوں نے بہادری کی داستان رقم کی۔ ابدالی فوج کے سپاہیوں کا رعب مرہٹوں پر چھایا رہا ان کے تمام جنگی فنون ناکام ہو گئے۔ فریقین میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد سپاہی مارے گئے جن مین زیادہ تعداد مرہٹوں کی تھی مرہٹوں کی قتل و غارت، لوٹ مار کی وجہ سے عوام کی ان سے نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مرہٹے شکست کھاکر بھاگے تو ان کا پیچھا کرکے انہیں مارنے والوں میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شامل تھیں اس جنگ میں مرہٹوں نے عبرت ناک شکست کھائی اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی جنگی میدان میں فتح حاصل نہ کرسکے۔مرھٹوں کی اتحادی افواج میں مسلمانوں کا ایک سردار "ابراھیم خان گاردی” بھی تھا جو اپنے ساتھ 2 ھزار سوار اور 9 ھزار پیدل فوج لایا تھا۔

جب ابراھیم خان گاردی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو احمد شاہ ابدالی نے نفرت آمیز لہجے میں اس سے پوچھا۔۔ "کہو خان صاحب ! کیا حال ھے۔۔؟ کس طرح تشریف آوری ھوئی۔۔؟”ابراھیم گاردی نے کہا۔۔ "میں ایک جاں فروش سپاہی ھوں۔۔ حضور جان بخشی کریں گے تو اسی طرح حق نمک ادا کروں گا۔۔”غصے سے احمد شاہ ابدالی کا چہرہ سرخ ھوگیا اور کہا۔۔ "گاردی ! جاں فروشوں کی جان بخشی ھوسکتی ھے لیکن ایمان فروش دنیا میں رھنےکےقابل نہیں ھوتے۔۔

"یہ تاریخی جملہ کہنےکےبعداحمد شاہ ابدالی نےحکم دیا۔۔ "اس ایمان فروش کومیری آنکھوں سےدورکرکےصفحہ ھستی سے مٹادیا جائے۔۔”

احمد شاہ ابدالی نے دہلی پہنچ کر شہزادہ علی گوہر کو دہلی کے تخت پر بٹھایا اور دو ماہ بعد واپس چلا گیا۔اس جنگ کے نتیجے میں مرہٹوں کا خاتمہ ہو گیا ان کی طاقت مکمل طور پر توڑ دی گئی۔ ہندوستان پر ان کی حکومت کی خواہش اور شاہی مسجد دہلی کے منبر پررام کی مورتی لگانےکا خواب بکھرگیا۔اس جنگ میں مرہٹوں کے27سردار مارے گئے۔ وہ دوبارہ اٹھنےکا قابل نہ رہےمگر مغلوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ اپنا اقتدار مضبوط کریں۔ ان کی کمزوری سے فائدہ انگریزوں نے اٹھایا انہوں نے باآسانی مرہٹہ سرداروں کو شکست دے کر اپنی حکومت مضبوط کی۔

احمد شاہ ابدالی ملک و ہوس کا پجاری نہیں تھا۔ اس نےافغانستان میں اپنی بادشاہت پراکتفا کیا تھا لیکن جب ہندو مرہٹوں کے لشکر 1759ء میں دہلی پر قابض ہونےکےبعد اٹک تک پہنچ گئےاوران کےپیشوا نےپونا میں اعلان کیا کہ جامع مسجد دہلی میں مہادیو کا بت نصب کیا جائے گا تب شاہ ولی اللہ‘ نواب شجاع الدولہ اور روہیلہ سردار حافظ رحمت خان نے احمد شاہ ابدالی سے درخواست کی  کہ وہ آ کر ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو مرہٹوں کے ظالمانہ تسلط سے بچائیں۔ اس کے بعد ہی احمد شاہ ابدالی نے جنوری 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم اقتدار کو سنبھالا دیا تھا۔ اس کے بعد ابدالی نے پنجاب میں دہشت گردی کرتے ہوئے سکھوں کو کچلنے کے لئے آنا پڑا تھا اگر ابدالی اقتدار کا بھوکا ہوتا تو وہ 1761ء ہی میں شاہ عالم ثانی کو معزول کر کے دہلی پر قبضہ کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور مغلوں کو سنبھلنے کا موقع دیا۔ اس نے صرف پنجاب اور کشمیر کو سکھوں کے کشت و خون اور لوٹ مار سے بچانے کیلئے اپنی سلطنت میں ضم کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے پوتے زمان شاہ نے 1799ء میں کابل میں بغاوت ہو جانےکےباعث لاہورسےواپس جاتےہوئےیہاں کی حکومت رنجیت سنگھ کوسونپ دی۔زمان شاہ سلطان ٹیپو کی مدد کونہ پہنچ سکا اورمیسور کا شیر4 مئی 1799ء کوانگریزوں‘مرہٹوں اورنظام کی متحدہ افواج سےلڑتےہوئےشہید ہوگیا۔ اس کےچار سال بعد 1803ء میں انگریز دہلی پر قابض ہو گئےاورشاہ عالم ثانی نےانگریزوں کا وظیفہ خوار بننا قبول کرلیا۔

جہاں تک بات ہے نادرشاہ کی طرف سے 1737ء میں دہلی پہ حملے اور قتل و غارت اور لوٹ مار کی تو وہ ایک ایرانی اہل تشیع حکمران تھا نہ کہ ایک سنی مسلم۔ لہٰذا ہم اس مضمون میں اس معاملے کی تحقیق لازمی نہیں سمجھتے۔

ملحدین و سیکولرطبقہ یہ الزام لگاتا ہےکہ احمد شاہ ابدالی نے1747میں پنجاب پرحملےکےدوران لاہور شہرکا تاخت و تاراج کردیا۔افغان فوج نےشہریوں کوجی بھرکےقتل کیا۔ لاہور میں ایک بھی گھوڑا نہیں چھوڑا لوگوں کےگھروں سےبرتن تک اٹھالیے۔اورجالندھرکےدوآبےمیں ایک دن میں 10لاکھ پنجا بی ماردیےگیےجن میں مسلمان بھی تھی ہندو بھی اورسکھ بھی۔ان جاہلوں کویہ بھی نہیں پتہ کہ احمد شاہ ابدالی 1747میں تخت نشین ہوا تھا نہ کہ اسی سال لاہورپہ حملہ کیاتھااوراسکےہندوستان پہ حملوں کاآغاز 1748ء اوراس کےبعدہوااوران الزامات کاایک بھی ثبوت کسی مستند تاریخی حوالےمیں موجود نہیں۔

احمد شاہ ابدالی پہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے قتل کے بعد اس نے قندھار جاتے ہوئے اس کے ہاتھ سے شاہی مہر اور کوہ نور ہیرا اتار لیا جو اس کے ہاتھ کے گرد بندھا ہوا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوہ نور ہیرا خود نادرشاہ ایرانی 1739ء میں دہلی کی لوٹ مار کے بعد برصغیر سے چرا کر لے گیا تھا اور 1747ء میں نادرشاہ کے قتل کے بعد یہ اس کے پوتے کی تحویل میں آیا جس نے اس کو 1751ء میں احمد شاہ ابدالی کے حوالے کر دیا۔ لہٰذا یہ بات مکمل جھوٹ ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے یہ ہیرا نادرشاہ کے قتل کے بعد چوری کر لیا تھا۔
اگر احمد شاہ ابدالی ملک و ہوس اور دولت کی لوٹ مار کا بھوکا ہوتا جیسا کہ الزام لگایا جاتا ہے تو وہ اپنی فوجوں کی اتنی قربانی اور اتنے افراد مرہٹوں سے جنگ میں مروانے کے بعد کیونکر دہلی پہ خود قبضہ کرنے کی جگہ دوبارہ مغل بادشاہ کے ہاتھ میں دے کے جاتا۔ کیا اس بات کی امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ انسان لاہور اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں لاکھوں کروڑوں کی لوٹ مار کرتا جب کہ اس الزام کے ثبوت میں ایک بھی مستند تاریخی حوالہ نہیں۔ الزام لگانے والے اور جھوٹ بولنے والے شرم سے ڈوب کیوں نہیں مرتے۔ان منافقین و کاذبین و دجالین کو یہ الزام لگانا تو یاد ہے کہ ابدالی چور لٹیرا تھا لیکن ان کو مرہٹوں کی وہ چوری لوٹ مار قتل و غارت اور عصمت دری بھول جاتی ہے جو مرہٹوں اور سکھوں نے مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان خصوصاًدہلی سے اٹک تک مسلسل جاری رکھی ہوئی تھی اور جس کے متعلق خود ایک ہندوستانی  بنگال کے مشہور غیر مسلمشاعر گنگا رام نے لکھا۔
"برگیوں (مرھٹوں) نے دیہاتیوں کو لوٹنا شروع کردیا۔۔ کچھ لوگوں کے انہوں نے ھاتھ ‘ ناک اور کان کاٹ لئے۔۔ خوبصورت عورتوں کو وہ رسیوں میں باندھ کر لے گئے۔۔ عورتیں چیخیں مارتی تھیں۔۔ انہوں نے ھر طرف آگ لگادی اور ھر طرف لوٹ مار کرتے ھوئے گھومے۔۔”  دوہرے پن، اور منافقت کا اس سے گھٹیا درجہ کوئی نہیں ہوسکتا۔
آج عالم اسلام کو ایک بار پھر احمد شاہ ابدالی کی ضرورت ھے جو ایمان فروشوں کو بھولا ھوا سبق یاد دلاسکے کہ جاں فروشوں کی جان بخشی تو ھوسکتی ھے لیکن ایمان فروشوں کی نہیں۔

احمدشاہ ابدالی کی کہانی پہلی قسط
احمدشاہ ابدالی کی کہانی  دوسری قسط

2 comments:

Anonymous said...

very nice infomation.

Anonymous said...

ماشاءاللہ۔ ۔۔۔بہت ہی شاندار اور جاندار تحریرتھی۔ ۔تمام قسطیں پڑھ ڈالیں وہ بھی ایک ہی نشست میں۔

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |