Ads

Wednesday, November 2, 2016

صلیبی ذہنیت

صلیبی ذہنیت

آج میں آپ کو 1169ء کی کہانی سنارہا ہوں، یہ وہ وقت تھا جب عیسائی بادشاہ آگسٹس سلطان نور الدین زنگی کے ہاتھوں ذلت ناک شکست کھاکر تمام مفتوحہ علاقے واپس کر چکا تھا۔اس نے نور الدین زنگی کو تاوان بھی دیا اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرکے جزیہ بھی ادا کیا۔لیکن اس شکست کے بعد اس نے کرک کے قلعے میں اسلام کی بیخ کنی کے منصوبے بنانے شروع کردیئے، اس کے اسلام دشمن خبطی رویئے اور خفیہ چالوں کی وجہ سے اس کے بعض حواری صلیبی حکمران اور جرنیل اسے شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اس کے اپنے ساتھیوں نے اس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ اندر سے مسلمانوں کا دوست ہے اور اْن کے ساتھ سودے بازی کررہا ہے۔

یورپی مورخ اندرے آزون لکھتا ہے کہ ایسے ہی ایک موقع پر آگسٹس نے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا’’ایک مسلمان حکمران کو پھانسنے کیلئے میں اپنی کنواری بیٹیوں کو بھی اس کے حوالے کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔تم مسلمانوں کے ساتھ صلح نامے اور دوستی کے معاہدے کرنے سے گھبراتے ہو کیونکہ اس میں تم اپنی توہین کا پہلو دیکھتے ہو۔لیکن تم یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان کو میدان جنگ کی نسبت صلح کے میدان میں مارنا زیادہ آسان ہے۔میرا نظریہ یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر اْن کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح نامہ کرو،معاہدہ کرو اور گھر آکر معاہدے اور صلح نامے کے الٹ عمل کرو،کیا میں ایسا نہیں کررہا؟میں ہر ایک غیر مسلم سے کہوں گا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرو اور انہیں دھوکہ دے کر مارو۔‘‘

مورخین نے یہاں تک لکھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بعض صلیبی حکمرانوں نے میدان جنگ کو اہمیت دینا چھوڑ دی اور وہ اِس نظریئے کی قائل ہوگئے کہ جنگ اِس طریقے سے لڑو کہ مسلمانوں کی جنگی طاقت زائل ہوتی رہے۔ان کے نزدیک عقلمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر زور دار حملہ کرو۔ان کے دلوں میں ایسے وہم پیدا کردو جو مسلمان قوم کے درمیان بد اعتمادی ، نفرت اور حقارت کو جنم دیں۔’’فلپس آگسٹس‘‘ اس مکتبہ فکر کے مفکروں میں سر فہرست تھا،جو اسلام دشمنی کو اپنے مذہب کا بنیادی اصول سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی سے نہیں،یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے جو ہماری زندگی میں نہیں تو کسی نہ کسی وقت ضرور کامیاب ہوگی۔ بس اِس کیلئے ضروری ہے مسلمانوں کی اٹھتی ہوئی نسل کے ذہن میں مذہب کے بجائے جنسیت بھردو اور انہیں ذہنی عیاشی میں مبتلا کردو۔انہیں معاہدے کی زنجیروں میں جکڑ کر بے بس کر دو۔

ہمیں تاریخ کا وہ منظر کبھی نہیں بھولنا چاہیے ،جب جولائی 1187ء کو حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کیمتحدہ فوج کو جو مکہ اور مدینے پر قبضہ کرنے آئی تھی،ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا تھا اور اب وہ حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا، سلطان نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا۔سلطان اسے تہہ تیغ کرکے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتا تھا،بیت المقدس سے پہلے سلطان عکرہ پر اِس لیے بھی قبضہ چاہتا تھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیںگے۔چنانچہ اس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کردیا اور 8جولائی 1187ء کو عکرہ ایوبی افواج کے قبضے میں تھا۔اِس معرکے میں صلیبی انٹلیجنس کا سربراہ ہرمن بھی گرفتار ہوا، جسے فرار ہوتے ہوئے ایک کماندار نے گرفتار کیا تھا،گرفتاری کے وقت ہرمن نے کماندار کودولت کا لالچ دے کر فرار کرانے پیش کس کی تھی،مگر کماندار نے اْسے رد کر دیا۔ ہرمن کو جب سلطان صلاح الدین ابوبی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے گرفتار کرنے والے کماندار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلطان سے کہا’’سلطان معظم !اگر آپ کے تمام کماندار اِس کردار کے ہیں جو مجھے پکڑ کر لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی۔اس نے کہا،میری نظر انسانی فطرت کی کمزوریوں پر رہتی ہے،میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا۔میرا ماننا ہے کہ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کردی جاتی ہیں تو شکست اس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے ۔ میں نے آپ کے یہاں جتنے بھی غدار پیدا کیے۔ ان میں سب سے پہلے یہی کمزوریاں پیدا کیں۔ حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے۔

سلطان معظم!آپ کے جاسوسی کا نظام نہایت ہی کارگر ہے ۔آپ صحیح وقت اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں۔مگر میں آپکو یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے۔ہم نے آپ کے یہاں جو بیج بودیا ہے۔وہ ضائع نہیں ہوگا۔آپ چونکہ ایمان والے ہیں اِس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا۔لیکن ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت،دولت ،لذت اور عورت کا نشہ بھردیا ہے۔آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو تیز کرتے رہیں گے۔

سلطان معظم ! یہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں ،یہ میری اور آپ کی، یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں، یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے۔جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی۔اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے۔ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے۔ہم مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے۔ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کامحاصرہ کریں گے۔ہماری لڑکیاں،ہماری دولت،ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ’’ بے حیائی ‘‘کہتے ہیں،اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی۔پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے۔سلطان معظم! وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے ،میں نہیں دیکھوں گا۔لیکن آنے والا زمانہ یہی سب کچھ دیکھے گا۔‘‘

سلطان صلاح الدین ایوبی،جرمن نژاد ہرمن کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا،ہرمن کہہ رہا تھا:
’’سلطان معظم !آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے عرب کو کیوں میدان جنگ بنایا ؟ صرف اِس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اس خطے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے۔ہم مسلمانوں کے اِس مرکز کو ختم کررہے ہیں۔آپ آج بیت المقدس کو ہمارے قبضے سے چھڑالیں گے ۔لیکن جب آپ دنیا سے اٹھ جائیں گے۔مسجد اقصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی۔میں جو پیشین گوئی کررہا ہوں ،یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑی غور سے دیکھ کر کررہا ہوں۔ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کرکے انہیں ایکدوسرے کا دشمن بنادیں گے اور فلسطین کا نام و نشان نہیں رہے گا۔یہودیوں نے آپ کی قوم کو عیاشیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔اِن میں سے اب کوئی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔‘‘

یہ تھی وہ صلیبی ذہنیت جو کل بھی ملت اسلامیہ کی جڑوں کو چاٹ رہی تھی اور آج بھی یہ دیمک ہماری اساس و بنیاد کو کھوکھلا کررہی ہے۔یہ دونوں تاریخی واقعات ہمارے ماضی،حال اور آنے والے مستقبل کے بہترین عکاس اور کسی تبصرے کے محتاج نہیں ۔کیونکہ اِس میں ہماری موجودہ شکست و ریخت اور ذلت و رسوائی کے تمام اسباب و عوامل کی واضح نشاندہی موجود ہے۔

تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال قبل ’’فلپس آگسٹس ‘‘اور عیسائی جاسوس ’’ہرمن‘‘ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے جن مذموم عزائم کا اظہار کیا تھا۔آج ملت اسلامیہ اس میں بری طرح گھری نظر آتی ہے،کلیسا اور کعبہ کی جنگ آج بھی جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جنگ کا لیبل اور ہتھیار بدل گئے ہیں،جس طرح کل پورا عالم کفر صلاح الدین ایوبی کے خلاف صف آراء تھا ، بالکل اسی طرح یہ آج پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف متحد و منظم ہیں۔یہ صلیبی جنگوں کی وہ کہانی ہے جو کہ مرحلہ در مرحلہ ا ب بھی جاری ہے۔صلیبی حکمران ،عسکری سالار ، سپاہی اور کلیسا کسی مرحلے پر اِس جنگ کو نہیں بھولے۔ مگر افسوس ہم بھول گئے اور آج اسی بھول نے ہمیں تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ آج اسی بھول کی وجہ سے ہم ان کے مذموم مقاصد کو خود سچ کر رہے ہیں۔

دنیا میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی کہ اپنے ہی ملک کے شہریوں کو انجان کر دیا گیا ہو۔ ان کی شہریت منسوخ کر کے دربدر بھٹکنے پر مجبور کر دیا ہو۔ آہ ! یہ سوچ کس قدر گھناؤنی اور پلید ہے۔ کاش کوئی تو سمجھے۔ افسوس کہ وطن عزیز کے محبین کو یوں سر عام رسوا کرنے کی صلیبی ذہنیت آج بھی ہمارے یہاں موجود ہے جو سرعام یوں اپنوں کو کاٹ کھا رہی ہے۔یہ وہ ڈو مور کا تسلسل ہے جو حکومت طاغوت کے کہنے پر سر انجام دے رہی ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کا ملک و قوم پر کیا اثر بڑے گا اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک پاکستان میں آج کس قدر امن کا دور دورہ ہے۔ یہ امن صلیبی ذہنوں کو کیسے بھا سکتا ہے۔ وہ تو پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ آپس میں لڑا کر مروانا چاہتے ہیں اور افسوس ہم ہی اس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ بتائیے! ایسے افراد کا اب مستقبل کیا ہے؟ ان کی اور ان کے اہل خانہ کی شناخت کیا ہے؟ اور وہ کس حیثیت سے اب اس ملک میں اپنی روزمرہ کی زندگی جاری رکھ سکیں گے؟

سچ کہا ہے کسی نے کہ بد بختی کا مقابلہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اپنی کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا نہیں۔

************ 

0 comments:

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |