اسلام میں لباس اور شرم و حیا کا تصور
اللہ رب العزت نے تمام نبی نوحِ انسان کو لباس پہننے کا حکم فرمایا اور لباس پہننے کیلئے کچھ بنیادی اصول بتائے لھذا لباس کے تعلق سے اِن اُصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے -
ارشاد باری تعالی ہے:’’اے آدم کی اولاد بیشک ہم نے تمہار ی طرف لباس اُتارا تاکہ تم سب شرم گاہوں کو چھپاؤ اور لباس سے آرائش زیبُ زینت حامل کرو اور پرہیز گاروں کا لباس بہتر ہے‘‘
تاریخ اس بات پر متّفق ہے کہ انسانی شعور نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضے کی تکمیل اور عرُیانی کے احساس سے پریشان ہوکر جنگلیوں نے پتّوں سے اپنے شرمگاہوں کو چھپایا اور آج ترقّی یافتہ کہے جانے والے دور میں بھی ستر پوشی کی ضرورت پوری کرنے والی مختلف چیزوں کو شعور انسانی نے ًلباس ً کا نام وِیا۔یہی لباس اِنسانی زنذگی کی اہم ضرورت کیونکہ لباس کی بنیادی غرض یہ کہ جسم کی پردہ پوشی زیب و زینت کے ساتھ ساتھ موسمی اثرات (سردی گرمی) وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور انسانی کھال و جسم کو ماحول کے تابو کاری کے اثرات و بیماری کے جراثیم کو دور رکھنا بھی ہے۔
تاریخ اس بات پر متّفق ہے کہ انسانی شعور نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضے کی تکمیل اور عرُیانی کے احساس سے پریشان ہوکر جنگلیوں نے پتّوں سے اپنے شرمگاہوں کو چھپایا اور آج ترقّی یافتہ کہے جانے والے دور میں بھی ستر پوشی کی ضرورت پوری کرنے والی مختلف چیزوں کو شعور انسانی نے ًلباس ً کا نام وِیا۔یہی لباس اِنسانی زنذگی کی اہم ضرورت کیونکہ لباس کی بنیادی غرض یہ کہ جسم کی پردہ پوشی زیب و زینت کے ساتھ ساتھ موسمی اثرات (سردی گرمی) وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور انسانی کھال و جسم کو ماحول کے تابو کاری کے اثرات و بیماری کے جراثیم کو دور رکھنا بھی ہے۔
امام رازی کے مطابق عمدہ لباس کے علاوہ زیب و زینت کی تمام اشیاء کو اس آیت میں داخل فرمایا ہے خواہ انکا تعلّق لباس کی نفاستِ جسم کی نضافت گھر کی صفائی و آرائش سے ہو بشرطِیکہ شریعت نے اُنھیں حرام نہ کیا ہو اور فضول خرچی نہ ہو سورہ اعراف کی آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کے بہکاوے کا شکار ہونے پر حضرتِ آدم علیہ السلام اور حضرتِ حوّا کو اپنی عُریانی کا احساس ہوا اور وہ درختوں کے پتّوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے ۔
لباس کے بارے میں قرآن میں متعدد جگہ تفصیل کے ساتھ ذکر ملتاہے۔ لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ستر کے حصّوں کو چھپالے جو لباس اس مقصد کو پورا نہ کرے سرے سے وہ لباس ہی نہیں کیونکہ وہ لباس بنیادی مقصد پورا نہیں کر رہا ہے جس کے لئے وہ سلایا بنایا کیا ہے بیشک یہی لباس انسانی اور باقی تمام جانوروں میں فرق ظاہر کرنے کا پہلا اور آخر ذریعہ بھی ہے یہی وجہ ہے غیر مذہب جنگلی انسانوں نے جو غاروں جنگلوں میں رہا کرتے تھے وہ کپڑا میسر نہ ہونے کے باوجود و اپنے ستر کو ڈھاپنے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے وہ بھی کپڑا نہ ملنے کے باوجود پتّوں سے اپنے ستر چھپائے رہتے تھے-
آجکل کا ننگا پہناوا موجود ہ دور کے فیشن نے لباس کے اصل مقصد کو مجروح کر دیا ہے آجکل مردوں عورتوں میں اپنے لبا س ر ائج ہیں جس میں اسکی کوئی پرواہ نہیں کہ جسم کا کونسا حصہ کھل رہا ہے اور کونسا ڈھکا ہوا ہے حا لانکہ اسلام میں ستر کا حکم یہ ہے کہ مرد کے سامنے مرد کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں اور عورت کے سامنے عورت کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں مثلاََ اگر کسی عورت نے ایسا لباس پہن لیا جس میں سینہ کھلا ہوا ہے بازو کھلے ہوئے ہیں تو اس عورت کو اس حالت میں دوسری عورتوں کے سامنے آنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اس حالت میں مردوں کو سامنے آئے اسلئے کہ یہ اعضاء اسکے ستر کے حصے ہیں-
آجکل شادی وغیرہ کی تقریبات میں دیکھئے کیا حال ہو رہا ہے۔ بے حیائی کے ساتھ ایسے لباس پہن کر مردوں کے سامنے عورتوں بے پردہ گھومتی پھرتی ہیں، اگر کوئی کہے تو کہا جاتا ہے سوچ بدلئے مذہب اسلام اس کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کپڑے بدلئے سوچ بدل جائیگی۔
آجکل یہ جملے بہت کثرت سے سننے میں آتا ہے کہ صاحب اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے، دل صاف ہونا چاہیئے مذہب سے دور اسلام بیزار زہینت لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ نام نہاد نئی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کا عجیب فلسفہ ہے کہ اگر عورت اپنے گھروں میں اپنے اپنے لئے شوہر کے لئے اپنے بچوں کے لئے کھانا تیّار کرے تو یہ و قیانوسی اولڈ ماڈل ہے اور اگر وہی عورت ہوائی جہاز میں ایر ہوسٹس بن کر انسانوں کی ہوش ناک نگاہوں کا نشانہ بنے اور لوگوں کی (خدمت) غلامی کرے تو اِسکا نام آزادی ہے اگر عورت گھر میں رہ کر اپنے ماں باپ بھائی بہن کیلئے خانہ داری کا نظم کرے تو کیا یہ ذلت ہے۔ دوکانوں پرسیلز گرل بن کر اپنی نازو ادا و مسکراہٹوں سے گا ہکوں کی توجہ اپنی طرف کرے یا دفتر میں باس کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور اعزز ہے؟…
اﷲ انسانوں کو عر یا نیت (ننگا پن) کے سر سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام بنی نوح انسانی کو لفظ آدم کہکر آگاہ فرمایا کوئی مذہب کی قید نہیں۔اللہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرمارہے ہیں۔ ترجمہ: اے ادم کی اولاد خبردار تجھے شیطانی فتنے میں نہ ڈالدے جیسا تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور اُتر وادی اُن سے انکا لباس تاکہ نظر پڑے انھیں شرم کی چیزیں شیطان آج بھی تمام دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ عُریانیت پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے تاکہ انسان جس لباس کو اپنی بنیادی اور اہم ترین ضرورت سمجھتا ہے اس سے اس کو آزاد کر کے پھر سے جانوروں درندوں کی لباس کر دیا جائے۔ اﷲ انسانوں پر بے پناہ مہربان ہے بے حیائی سے دور رکھنے کیلئے قرآن مجید میں کئی جگہ بار بار اس قسم کے احکام جاری کئے جن میں شرم و حیاء کا دامن تھا منے کی تعلیم دی گئی سورہ انعام ، سورہ احزاب، سورہ الشوری ، سورہ توبہ ، سورہ العنکبوت، سورہ طلاق ، سورہ بنی اسرائیل
، بطور خاص اس حوالے سے قابل ذکر ہیں ہر وہ قول یا عمل سے بے حیائی یا بے شرمی کو فروغ ہو غلط ہے عریانی بے شرمی دیکھنے والوں کے حیوانی جذبات کو اُبھا ردیتے ہیں اور انسان مذہبی تمدّنی اخلاقی قدروں سے دور ہو جاتا ہے۔ حجۃ الاسلام حضرت اِمام غزالی فرماتے ہیں: شہوت تمام انسانی شہوات پر غالب ہے اورہیجان کے وقت سب سے زیادہ عقال کی نا فرمانی ہے اسکے نتائج ایسے بھیانک ہیں جن سے شرم آتی ہے اور اظہار سے خوف لگتا ہے-عریانی بے حیائی سے پیدہ شدہ جنسی اشتعال انسان کو زنا باالجبر، جنسی بے راہ روی، ناجائز تعلق اور ہم جنس پرستی جیسے سنگین اور گھناؤ نے جرائم پر مجبور کر تا ہے۔سورہ اعراف میں اﷲ پاک ارشاد فرماتا ہے ترجمہ: کہہ دو میرے پروردگارنے توبے حیائی کی باتوں کو خواہ وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ منع فرمایاہے اس سلسلے میں سورہ احزاب کی تلاوت اور مطالعہ بہت ضروری ہے جو مسلمان مرد اور عورت کی عزت و احترام تحفظ اور پاکیزگی کو مستقل طور پر حفاظت میں رہے پردے کی پاکیزگی کو اپنانے بے حیائی کو بچنے کی تعلیم دیتا ہے، اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور اسکا ابلاغ اور عمل انشاء اﷲہمارے ماحول کو اور معاشرے کو بے حیائی عریانی کی لعنت سے پاک رکھے گا اور بے پناہ فائدے کا سبب بنے گا
*************
0 comments:
Post a Comment