قبائیلی علاقوں میں نافظ قانون ایف سی آر اور بلیو بُک
بلیو بُک کا تاریخی پس منظر
ا"بلیو بک" دراصل ملکہ وکٹوریہ کے وضع کردہ پروٹوکولز کے اس مجموعے کا نام تھا جس نے انسان کو اسٹیٹس کی لاتعداد ٹکٹکیوں پر لٹکا دیا تھا، بادشاہ اور ملکہ سے پروٹوکول شروع ہوتا تھا اور وائسرائے تک آتا تھا اور وائسرائے سے اس کی کونسل کے ارکان تک جاتا تھا، وہاں سے سر کے خطاب حاصل کرنے والے لوگوں تک آتا تھا اور وہاں سے ہوتے ہوئے سفید پوشوں اور کرسی نشینوں تک جاتا تھا، ملکہ نے وی آئی پی اور وی وی آئی پی کی باقاعدہ کیٹگریز بنوائی تھیں اور اس کی پوری سلطنت میں لوگوں کو ان کیٹگریز کے تحت سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا،انگریز دور میں تحصیل کی سطح پر کرسی نشین اور سفید پوش دو اعزازی عہدے ہوتے تھے۔کرسی نشین کا ٹائیٹل گاؤں کے اس شخص کو ملتا تھا جو انگریز کو گھوڑے،فوجی اور مخبری دیتا تھا، کرسی نشین کو سرکاری دفاتر میں سرکاری افسروں کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی جب کہ باقی لوگ زمین پر بیٹھتے تھے یا زیادہ سے زیادہ افسر کے سامنے کھڑے ہو سکتے تھے جب کہ سفید پوش وہ معزز لوگ ہوتے تھے جنھیں سرکار ان کی وفاداریوں سے خوش ہو کر ہر سال سفید رنگ کے دو جوڑے عنایت کرتی تھی اور یہ لوگ یہ کپڑے پہن کر سرکاری دفتروں میں جاتے تھے،سرکاری پروٹوکول سفید پوشوں اور کرسی نشینوں سے شروع ہوتا تھا اور ملکہ تک جاتا تھا،اس دور میں سرکار لمبڑ دار، کانسٹیبل اور پٹواری سے شروع ہوتی تھی اور وائسرائے تک جاتی تھی اور یہ وائسرائے ملکہ کے گورے غلام ہوتے تھے، اورپولیٹکل ایجنٹ وائسرے کے ماتحتی میں کام کرتے تھے۔ان لوگوں کو کیا کیا پروٹوکول حاصل تھا یہ سب معلومات"بلیو بک" نام کےصحیفہ نما مذکورہ سرکاری ڈائری میں درج ہوتی تھیں،بندوبستی علاقوں میں یہ بلیو بک ڈپٹی کمشنر کے قبضے میں رہتی تھی، اور فاٹا میں پولیٹکل ایجنٹ کے پاس، مذکورہ افسران اس کتابچے کو سرکاری تجوری میں رکھتے تھے، ان کے علاوہ کوئی شخص اس ڈائری کو ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا،سرکاری طور پر مذکورہ افسران تبادلے کے بعد اس وقت تک چارج نہیں چھوڑ سکتے تھے جب تک وہ بلیو بک نئےڈپٹی کمشنر یا پولیٹکل ایجنٹ کے حوالے نہیں کر دیتے تھے۔
برطانیہ کے سرکاری دستاویزات میں آ ج بھی بلیو بک کےپروٹوکولز اور اختیارات پر شرمندگی کا اظہار موجود ہے، تاج برطانیہ کے زوال کے بعد، حکومت برطانیہ کے اولین چار بڑے فیصلوں میں بلیو بک کے خاتمے کا فیصلہ بھی شامل تھا، برطانیہ نے نہ صرف عام لوگوں کے درجے ختم کئے بلکہ برطانوی شاہی خاندان تک کے پروٹوکول کو ختم کردیا،آج بھی شاہی خاندان موجود ہے مگر اسکی شہنشایت صرف اپنے محل تک محدود ہے۔
تاہم فاٹا آج بھی بلیو بک کے تحت بنائے گئے لارڈ کرزن کے ایف سی آرنامی استبدانہ قانون کے تحت سانسیں لے رہا ہے،سفید پوشوں، ملکان، کرسی نشینوں اور مخبروں کے مراعات من وعن رائج بلکہ بڑھ چکے ہیں، مذکورہ طبقات سے اگر آگے دیکھا جائے تو فاٹا کی حالت یہ ہے کہ ریاست کے تین اداروں میں سے فاٹا میں صرف انتظامیہ کام کر رہی ہے مقننہ اور عدلیہ نہیں ہے، اپیل کورٹس موجود ہیں مگر ان میں ججوں کی بجائے انتظامی افسر بیٹھے ہیں جو اصولی واخلاقی تو کیا قانونی طور پر بھی جج یا عدلیہ کے متبادل کام کرنے کے مجاز نہیں، اپیل کورٹس کی آئینی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ کورٹس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی نگرانی سے باہر ہیں۔
ایف سی آر کے تحت پولیٹکل ایجنٹ کو وسیع اختیارات حاصل ہیں، پولیٹکل ایجنٹ مستغیث یعنی شکایت کنندہ بھی ہے اورجج بھی ،خاصہ دار فورسز (پولیس)کا چیف بھی ہےاورجیلر بھی،العرض علاقے کی حاکمیت فردواحد کے ہاتھ میں ہے۔ایجنسی کے پولیٹیکل ویلفیئر فنڈ (اے پی ڈبلیو ایف) کے معاملے میں پولیٹیکل ایجنٹ کو وسیع صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں، نیز فاٹا میں آنے والے لاکھوں روپے کی مالیت کے سامان پر وصول کیے گئے محصول کے گوشواروں کےحساب کتاب کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔
دوسری طرف آئین کے آرٹیکل (1) کے تحت فاٹا ریاست پاکستان کا حصہ ہے لیکن تضاد یہ ہے کہ آئین ہی کے آرٹیکل (247) کی رو سے فاٹا کوپارلیمنٹ کی دائرہ اختیارسے باہر قرار دیتے ہوئے فرد واحد یعنی صدر مملکت کو اس کا مجازی خدا بنایا گیا ہے۔آئین کے اس آرٹیکل کے تحت صدرِ مملکت صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر کے توسط سے فاٹا کے معاملات کو چلاتا ہے،اس خلاء کو چاہے آپ ذیادتی قرار دیں، تعصب یا ریاستی غیرذمہ داری تاہم یہ سراسر جمہوری قدروں کی مکمل طورپر نفی کے مترداف ہے۔
لہذا وقت آگیا ہے کہ فاٹا کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے، چار حروف پر مشتمل لفظ "فاٹا" کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے، جس میں لفظ "ایڈمنسٹرڈ " کا مطلب "راج" یا "حکمرانی" ہے، اور یہ "گورن"یعنی ’’آئینی طریقے سے حکومت کرنے سے متصادم ہے کیونکہ جمہوریت کی رو سے حکومت عوام پر عوام کی طرف سے عوام کے لئے ہوتی ہے،لیکن فاٹا میں رائج طرز حکومت مطلق العنالی یا آمریت کی بدترین مثال ہے۔ ملک کی آزادی کے 60 سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ایف سی آر نامی یہ قانون ابھی بھی اپنے اصلی شکل میں قائم اور دائم ہے،میرے خیال میں ایک جمہوری ملک میں اس قانون کی موجودگی مکمل طور پر ناقابل فہم اور مضحکہ خیز ہے۔
**************
0 comments:
Post a Comment