شیرشاہ سوری (فرید خان)
وہ پٹھان سردار جس نے ہندوستان پر5 سال حکومت کی۔ اور ایسی حکمرانی کی جو 6 صدیوں بعد بھی بھی اچھی حکمرانی کیلئے ایک معیار ہے۔
یہ 1528 کی بات ہے، ہندوستان کے دارالحکومت آگرہ میں گہما گہمی ہے۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر چندیری کی فتح کے بعد آگرہ لوٹ آئے ہیں اور بابر کی حکمرانی ہندوستان پر قائم ہو چکی ہے۔فتوحات کے ساتھ شاہی ضیافت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امرا اور سرداروں کی دعوت میں طرح طرح کے کھانے آئے دن لگائے جاتے ہیں۔ ایک دن اسی قسم کی ایک ضیافت میں
بادشاہ بابر بھی اپنے امیروں اور وزیروں کے ساتھ وہاں موجود ہیں کہ ان کی نگاہ ایک پٹھان سردار پر پڑتی ہے جو اپنے انداز میں خنجر نکال کر اس کی قاش کر کے اسے آرام سے کھا رہا ہے۔
بادشاہ بابر کےدل میں اس کے چہرے کے اطمینان اور اس کے کھانے کے انداز کو دیکھ کر تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے پاس موجود اپنےوزیراعظم اور افغان سردار شاہ جنید کے بھائی میرخلیفہ وزیراعظم سےکہتے ہیں کہ اس شخص کے آثار سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ خلفشار کا باعث بنےگا،اسے فورا گرفتار کرلیا جائے۔
خلیفہ وزیر اعظم نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس کو گرفتار کروانا خلاف مصلحت ہو گا اورپٹھان سرداروں میں یہ تاثر جائے گا کہ بادشاہ پختونوں کےخلاف ہے۔
گرفتاری کاحکم تو منسوخ کر دیا گیا لیکن بابر کو تسلی نہ ہوئی اور انھوں نے کہا کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے اور اس کے احوال سےانھیں باخبرکھا جائے کیونکہ ’وہ بہت چالاک آدمی ہے اور اس کی پیشانی پر حکومت کے آثار نمایاں ہیں۔‘میں نے کتنے ہی افغان سورما دیکھے ہیں لیکن کسی نے بھی مجھےپہلی ملاقات میں اتنا متاثر نہیں کیا جتنا اس شخص نےکیا ہے۔اس کےجاہ و جلال کے آثار ہمارے لیےخطرناک ہو سکتے ہیں۔‘
ادھر اس پٹھانسردار نے بادشاہ کو اپنی جانب کینہ توز نظروں سے دیکھتے اور اپنے وزیر سے بات کرتے دیکھا۔ فاصلے کی وجہ سے باتیں تو نہیں سن سکا لیکن جہاندیدہ سردار نے سمجھ لیا کہ بات اسی کے بارے میں ہو رہی ہے اور بادشاہ کی نیت ٹھیک نہیں۔
چنانچہ کھانے سے فراغت کے بعد وہ وہاں سے نکلا اور پھر اس نے کسی کو بتائے بغیر ہی آگرہ چھوڑ دیا۔ یہ سردار کوئی اور نہیں بلکہ مغلوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور اور ہندوستان سے بے دخل کرنے والا پٹھان اور سلطنت سور کا بانی شیر شاہ سوری تھا۔
شیرشاہ سوری (فرید خان) سے متعلق بادشاہ ظہیرالدین بابرکا خدشہ ان کی موت کے بعد درست ثابت ہوا اور دس سال بعد تو وہ کسی پیشگوئی کی طرح بالکل سچ ثابت ہوا جب شیر شاہ سوری نے بابر کے جانشین اور مغل حکمران ہمایوں کو ہندوستان سے بے دخل کر دیا۔
شیر شاہ سوری نے شمالی ہندوستان پر مکمل طور پر فقط پانچ سال (17 مئی 1540 سے 22 مئی 1545) حکومت کی لیکن انھوں نے تاریخ میں اپنا ایک ان مٹ نقش چھوڑا۔
میں ان کا حسن انتظام ایک ایسا روشن مینارہ ہے جس سے ان کے بعد آنے والے بادشاہوں بطور خاص مغل بادشاہ اکبر نے رہنمائی حاصل کی اور ملک گیری میں ان کی ڈالی طرز کو پروان چڑھایا۔
ان کا چلایا ہوا روپیہ آج نہ صرف انڈیا اور پاکستان میں رائج ہے بلکہ کئی اور ممالک میں بھی اسی نام کی کرنسی زیر استعمال ہے۔ روپیہ تو پہلے بھی رائج تھا لیکن اس کی مقدار طے نہ تھی۔
شیرشاہ سوری کی ابتدائی حالات زندگی
شیرشاہ کی پیدائش کے بارے میں تاریخ دانوں میں اتفاق نہیں لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ وہ 1486 میں حصار یعنی آج کی انڈین ریاست ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ اس طرح وہ بادشاہ بابر سے تقریباً تین سال چھوٹے تھے لیکن کئی جگہ آتا ہے کہ وہ ان کے ہم عمر تھے۔
شیرشاہ کا اصل نام فرید خان تھا او حسن خان کے پہلے بیٹے تھے۔ حسن خان کے والد ابراہیم خان سلطان بہلول لودھی کے دور میں ہندوستان آئے تھے اور اور جاگیر حاصل کی تھی۔
فرید خان کے والد حسن خان نے کالکاپور کے مسند اعلیٰ اور سلطان بہلول کے منظور نظر وزیر عمر خان سروانی کے یہاں ملازمت اختیار کی جنھوں نے پرگنہ شاہ آباد میں کئی گاؤں حسن خان کو بطور جاگیر عطا کیے۔ سکندر لودھی کے عہد میں جب جمال خان کا اقبال بلند ہوا تو انھوں نے حسن خان کو ان کے والد ابراہیم خان کی جاگیر کے علاوہ 500 گھڑ سواروں کا افسر مقرر کیا اور ان کی ملکیت میں بنارس کے پاس سہسرام، حاجی پور اور ٹانڈہ کی جاگیریں عطا کیں۔
فرید خان کے والد حسین خان نے تین شادیاں کررکھی تھی۔ جن میں دو پختون تھی اور ایک ہندو تھی۔ فریدخان سے حسن خان کی پہلی بیوی سے ان کا سب بڑا بیٹا تھا۔
حسن خان اپنی محبوب نظر بیوی کی خوشی کے لیے اپنے بیٹے فرید خان سےدور رہنے لگے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ حسن خان نےجائیداد کے اختیارات فرید خان کو دے رکھی تھی۔ لیکن حسن خان کی ہندو بیوی یہ اختیارات اپنے بیٹھوں کو دینا چاہتی تھی۔ جس کیلئے حسن کی اس کی بیوی کی بار بار اس پر بحث نے حسن خان کی زندگی اجیرن کررکھتی تھی۔
جس کا احساس فرید خان کو ہو گیا اور وہ روٹھ کر جونپور جمال خان کے ہاں چلے گئے، جہاں انھوں نے اپنی نوجوانی تعلیم کے حصول میں لگائی اور اس کی بدولت ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔
شیر شاہ سوری کے دور پر نظر رکھنے والے اہم تاریخ داں کالکا رنجن قانون گو نے شیر شاہ کے علمی شغف اور کثیرالمطالعہ ہونے کی خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بچپن میں ادب کے مطالعے نے اسے اس کی فوجی زندگی کی راہ میں ممتاز کر دیا جس پر چل کر شیواجی، حیدرعلی اور رنجیت سنگھ جیسے ان پڑھ بہادر عام انسان اور معمولی سطح سے اونچے اٹھ کر شہنشاہ بننے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں کوئی دوسرا ایسا شخص نہیں ملتا جس نے اپنی ابتدائی زندگی میں غیر فوجی ہوتے ہوئے کسی حکومت کی بنیاد رکھی ہو۔‘
فرید خان کی ابتدائی حالات اور سوتیلی ماں کے سلوک نے غور و خوض اور فکر و تدبر کی طرف مائل کیا تھا۔ بہت سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں سوتیلی ماں نہ ہوتی تو ان میں اتنی اولوالعزمی پیدا نہیں ہوتی اور ان کی فطرت میں وہ لچیلاپن نہیں ہوتا جو ان کی ترقی کا ضامن بنا۔
شیرشاہ سوری فرید خان سے شیر خان اور اور پھر شیر سوری کیسے بنے۔
فرید خان کو ان کے والد حسن خان نے کئی قصبوں کا انتظام سونپا اور فرید کے حسن انتظام کا جب چرچا عام ہوا تو والد کو خوشی ہوئی لیکن سوتیلی والدہ کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔
فرید خان نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فرائض سے دستبرداری کا اعلان کیا اور اپنی جداگانہ راہ اختیار کی۔ اس وقت ہندوستان میں ابراہیم لودھی کی حکومت تھی لیکن بہت سے علاقوں میں شورش تھی اور باغی افغانوں کے سردار دریا خان لوہانی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بہار خان لوہانی نے اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا۔
فرید خان کے پرگنے بہار خان کی سلطنت میں شامل تھے اس لیے انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ان کی بقا بہار خان کے ساتھ ہے۔
تاریخ داں ودیا بھاسکر نے اس وقت فرید خان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے ’شیر شاہ سوری‘ نامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’فرید خان فطرتاً وفادار، جفاکش اور جانثار انسان تھے، انھیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ بہار خان لوہانی کی خدمت گزاری میں ہی ان کا فائدہ ہے۔۔۔ بہار خان کو بھی جلد ہی معلوم ہو گیا کہ فرید خان لائق، محنتی، وفادار اور جانثار ہونے کے ساتھ ساتھ ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہیں۔‘
چنانچہ دونوں کے درمیان قربت بڑھتی گئی اور دوستی مضبوط تر ہوتی گئی۔ اس دوران بہار خان نے سلطان محمد کا لقب اختیار کر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور بہار کو آزاد صوبہ قرار دے کر اپنا سکہ جاری کیا۔
اس سے ذرا قبل ہی پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر نے ابراہیم لودھی کی بڑی فوج کو شکست دے کر ہندوستان کا تخت حاصل کر لیا تھا۔اسی ہم نشینی کے دوران ایک بار بہار خان کے ساتھ فرید خان شکار پر گئے۔
جنگل میں گھومتے تھے کہ اچانک ان کی جانب شیر آ گیا اور شیر نے فرید کی طرف چھلانگ لگا دی، فرید نے شیر کا وار خالی جانے دیا اور اسی دوران تلوار سے ایسا وار کیا کہ ایک ہی ضرب میں شیر ڈھیر ہو گیا۔ چاروں طرف سے مرحبا اور آفریں کی صدائیں بلند ہونے لگی۔
بہار خان فرید خان کی اس بہادری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس نے انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کر دیا۔ لوگ پھر فرید خان کو شیر خان کے نام سے ہی پکارنے لگے اور اس کے بعد یہی ان کی شناخت بن گئی۔
مغلوں کی ملازمت
چنانچہ بہار خان کی بادشاہت کے اعلان کے بعد بابر نے مشرق میں سرکوبی کے لیے روانگی کا ارادہ کیا تو ہمایوں نے اس مہم کے لیے اپنا نام پیش کیا اور بابر نے ہمایوں کو اجازت دی اور ہمایوں نے باغی پٹھانوں کی سرکوبی کی لیکن اس دوران شیر خان نے اپنا اعتماد کھو دیا اور اپنی جاگیر اپنے سوتیلے بھائیوں کے حوالے کر کے مغلوں کی حکومت کے گورنر جنید برلاس کو امان کی یقین دہانی کے بعد ان کے پاس جونپور پہنچے۔
16 مارچ سنہ 1527 میں کھانوا (کنوا) کی جنگ کے بعد جنید برلاس کے ساتھ شیر خان بھی بابر کے دربار میں پہنچے جہاں انھوں نے تقریباً سوا سال تک مغل فوج میں خدمات انجام دیں۔ اسی دوران جنید اور وزیر اعظم کے کہنے پر بابر بادشاہ نے شیر خان کو سہسرام میں ان کی جاگیر عطا کی۔
لیکن بابر کے دسترخوان پر شیر خان کی اُس حرکت نے بابر کے دل میں تشویش پیدا کر دی لیکن یہاں ماہیچہ کھانے کی وضاحت ضروری ہے جس سے کوئی بھی پریشان ہو سکتا ہے تو پھر بادشاہ بابر جیسا شخص کیوں نہ تشویش کا شکار ہوتا۔
لکھنؤ کی خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں پروفیسر ثوبان سعید نے فارسی لغات کے حوالے سے بتایا کہ ماہیچہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ اسے سویوں اور دودھ سے بنائی جانے والی فیرنی جیسی چیز کہا گیا ہے جبکہ ایک جگہ اسے آٹے کے اندر گوشت یا مچھلی ڈال کر بنائے جانے والی ڈش کہا گیا ہے۔ ان دونوں کو چمچے سے کھایا جاتا ہے نہ کہ کٹار یا خنجر سے کاٹ کر۔
انھوں نے بتایا کہ خان صاحب کے غصے کا ذکر کئی جگہ آیا ہے کہیں مذاقاً تو کہیں واقعتاً۔ انھیں بہت جلد بازی تھی اور وہ بہت تپاکی بھی تھے لیکن بعض مؤرخین انھیں معاملہ فہم اور سلجھا ہوا کہتے ہیں۔
بادشاہ اکبر کے دربار میں افغانوں کی تاریخ رقم کرنے پر مقرر کیے جانے والے درباری عباس خان سروانی کی شیر شاہ سے رشتہ داری تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ وہ شروع سے حوصلہ مند تھے اور مغلوں سے حکومت حاصل کرنے کا خیال رکھتے تھے جبکہ دوسرے افغان انھیں سرپھرا اور شيخی باز سمجھتے تھے۔
وہ شیر شاہ کو سکندر ثانی کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’چندیری کی مہم میں سکندر ثانی (شیر شاہ) ظل سبحانی بابر بادشاہ کے لشکر کے ساتھ تھا۔ شیخ ابراہیم سروانی نے مجھ سے آ کر کہا آؤ شیر خان سور کے پاس چلیں اور باتیں وہ اپنے مرتبے سے ایسی زیادہ کرتا ہے کہ لوگ ہنستے ہیں۔‘
’ہم سوار ہو کر اس کے ڈیرے گئے۔ باتوں باتوں میں شیخ ابراہیم نے کہا مشکل ہے کہ ملک ہندوستان پھر پٹھانوں کے ہاتھ آئے اور مغل ہندوستان سے خارج ہوں۔ شیر خان نے شیخ محمد کو کہا تو گواہ رہیو کہ میرے اور شیخ ابراہیم کے درمیان جو بات ہوتی ہے۔ اگر میرے طالع نے یاوری کی تو تھوڑے دنوں میں مغلوں کو ہند سے نکال دوں گا۔‘
’اس لیے کہ مغل تلوار کی لڑائی میں پٹھان سے زیادہ نہیں ہیں۔ آپس کی مخالفت کے سبب پٹھانوں نے ہند کا ملک اپنے ہاتھ سے دیا۔ جب سے میں مغلوں میں آیا اور ان کی لڑائی کا معلوم کیا تو پایا کہ ان کے پاؤں لڑائی میں نہیں ٹھہرتے اور بادشاہ ان کا اعلیٰ نسبی اور بلند مرتبے کے باعث اپنی ذات سے تدبیر ملک میں متوجہ نہیں ہوتا اور امور مملکت کی مہمات کو اپنے امرا اور ارکان دولت کو سونپ دیتا ہے۔
’اور ان کے قول و فعل پر اعتماد کرتا ہے اور دے رعیت اور سپاہی اور زمیندار جو حرام خور ہیں ان کے برآمد کار کے لیے دام رشوت میں گرفتار ہیں۔ بھلا برا سب پیسے کے زور سے اپنے کام نکالتا ہے۔۔۔ زر کی طمع کے سبب سے دوست و دشمن میں آپ فرق نہیں کرتے۔ اگر اقبال نے یاوری کی تو شیخ جی دیکھو گے یا سنو گے کہ پٹھانوں کو اس طرح قابو میں کروں کہ متفرق نہ ہونے دوں۔‘
اور شیر خان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ اس سے قبل جب پہلی بار اسے اپنے پرگنے کا انتظام سونپا گیا تھا تو اس نے دوٹوک ریا کی خاطر زمین دار اور پٹواریوں پر لگام ڈالی تھی۔
ادھر بادشاہ بابر کے انتقال کے بعد شیر خان پٹھانوں کو یکجا کرنے میں اور اپنی طاقت کو بڑھانے لگ گیا۔ ان کی پہلی اہم جنگ بنگال کے سلطان محمود کے خلاف تھی۔اور اس میں شیر شاہ نے منفرد جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ بنگال پر شیر شاہ کے قبضے نے ہمایوں کو خواب غفلت سے جگایا جو کہ بابر کی جگہ ہندوستان کے بادشاہ تھے۔
چنار کی فتح
شیر خان کی دوسری اہم فتح چنار کا قلعہ تھا جسے بابر نے پہلے فتح کیا تھا لیکن وہ اس پر تسلط قائم نہ کر سکے اور تاج خان نے بابر کی اطاعت قبول کر کے اس قلعے پر اپنا اقتدار قائم رکھا۔
تاج خان نے ایک پری جمال لاڈ ملکہ کو دل دے دیا اور ان سے شادی کر لی لیکن ان سے کوئی بچہ نہ ہوا جبکہ ملکہ کے پہلے سے تین بیٹے تھے جو اپنے والد کے ساتھ لاڈ ملکہ سے بھی بدظن تھے کہ انھوں نے ان کے باپ کو کٹھ پتلی بنا رکھا تھا۔
چنانچہ لاڈ ملکہ سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک بیٹے نے حملہ کر دیا جب تاج خان کو علم ہوا تو وہ تلوار لے کر نکل آئے۔ عباس خان سروانی کے مطابق اس نے کہا ’تو نے لاڈ پر حملہ کیا ہے اب تو میری تلوار کا مزہ چکھ۔ بیٹے نے یہ سمجھا کہ اب اس کی جان جانے والی ہے تو وہ تلوار کا زخم دے کا بھاگ نکلا لیکن تاج خان جانبر نہ ہو سکے۔‘
اس کے بعد چنار کے قلعے میں انتشار پھیل گیا۔ شیر خان کی نظر اس قلعے پر تھی کیونکہ یہ اس وقت ملک کے گنے چنے قلعوں میں سے ایک تھا اور مشرق کی فتوحات اسی کے راستے تھی۔
اب لاڈ ملکہ قلعے کی مختار کل تھی اور تین سرداروں نے مرتے دم تک ان کی اطاعت کا دم بھرا تھا لیکن شیر خان نے انھیں یہ باور کرایا کہ جب تاج خان کی موت کی خبر بادشاہ کو پہنچے گی تو وہ لاڈ ملکہ کو برطرف کر دے گا اور ان کی جان بھی سلامت نہ رہے گی۔
ودیا بھاسکر لکھتے ہیں کہ ’شیر خان کی باتیں ان سرداروں کی سمجھ میں آ گئیں اور انھوں نے شیر خان سے معاہدہ کر لیا اورلاڈ ملکہ سے کہا کہ بادشاہ سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ قلعہ شیر خان کے حوالے کر دیا جائے بلکہ اس سے نکاح کا بھی مشورہ دے ڈالا۔ وہ اس پر رضا مند ہو گئیں اور شیر شاہ کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جس لڑکے نے اس کے خاوند کو ہلاک کیا اس کے ناک کان کاٹ دیے جائیں۔‘
اس سے قبل کہ تینوں بیٹوں کو ان معاہدوں کی خبر ملتی شیر خان بارات لے کر چنار پہنچ گ
تاریخ شیر شاہی کے مصنف عباس سروانی کے مطابق ’دلہن کی جانب سے شیر شاہ کو ڈیڑھ سو نایاب ہیرے، سات من موتی، ڈیڑھ سو من سونا اور طرح طرح کے قیمتی زر و جواہرات ملے۔ تھوڑے عرصے بعد شیر خان نے قرب و جوار کے پرگنوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور ناصر خان کی بیوہ گوہر حسین سے بھی شادی کر لی جہاں سے اسے آٹھ من سونا حاصل ہوا۔‘
شیر خان نے فوج کو سارے مال و دولت کو منظم کرنے پر لگایا۔ جب ہمایوں کو شیر خان کی فتوحات کا علم ہوا تو اس نے فوراً آگرہ سے فوج لے کر لکھنؤ کی طرف کوچ کیا جہاں شیر شاہ نے ہمایوں کو ہندو بیگ کے ہاتھ خفیہ پیغام بھیجا کہ سلطان محمود نے اسے زبردستی اپنی جانب ملا لیا ہے اور جب جنگ اپنے عروج پر ہو گی تو وہ میدان سے نکل جائے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ سلطان محمود کو شکست ہوئی اور جونپور اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔
شیر خان کو مطالعے کا بہت شوق تھا اور ان کی طبیعت میں لوگوں سے ملنا اور دیس دنیا کی خبر رکھنا سرایت کر چکا تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب دوسرے سرداران عیش و عشرت میں مصروف رہتے تھے شیر خان مختلف درباروں سے حالات کے بارے میں آگاہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔
چنانچہ جب افغان سرداروں نے شیر شاہ کو قتل کرانے کا منصوبہ بنایا تو انھوں نے اس کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا کہ جونپور کے دربار میں ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ چونکہ صوبیدار بھی اس میں شریک تھا لہذا وہ خفت محسوس کرتا رہا۔ اسی طرح جب ہمایوں نے چنار کا محاصرہ کر رکھا تو شیر شاہ نے پتا لگایا کہ دوسری جگہ کیا احوال ہیں اور انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہمایوں وہاں زیادہ دن نہیں ٹھہرے گا۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا۔
کس جگہ کتنا مال و دولت ہے اس کا بھی انھیں علم رہتا چنانچہ انھوں نے کئی پرگنوں کو اپنی نگرانی میں صرف اس لیے لیا کہ اس کی دولت پر اس کا تصرف ہو سکے۔
جب شیر شاہ بابر کے ہاں تھے تو وہ فرائض کے انجام دینے کے علاوہ لوگوں سے ملنے ان سے قربت پیدا کرنے میں وقت صرف کرتا تھا۔ بہرحال انھوں نے اپنی جان پہچان اور دوستی سے افغانوں میں اتحاد پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی اور 26 جون سنہ 1539 کو چوسا کی جنگ میں جب اس نے ہمایوں کو شکست دی تو انھوں نے فریدالدین شیر شاہ کا لقب اختیار کیا اور اپنے نام پر سکے ڈھلوائے۔
اس کے اگلے سال یعنی سنہ 1540 میں قنوج کی جنگ میں ہمایوں کو ایسی شکست فاش دی کہ ہمایوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
سنہ 1539-40 کے درمیان شیر خان نے ہمایوں کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا۔ وہ اپنے عمل میں اس قدر موقع شناس تھا کہ جب تک ہمایوں کو ہوش آتا بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس سے قبل سنہ 1537 میں ہمایوں اس کی قابلیت کا اندازہ لگائے بغیر آگرے سے نکل پڑے۔ انھوں نے پہلی عسکری غلطی یہ کی کہ شیرخان کو بنگال میں کچلنے کے بجائے وہ بنارس کے پاس چنار کے محاصرے کے لیے رک گئے اور بنگال کو پوری طرح قبضہ کرنے کے بجائے اس کی سرحد پر وقت ضائع کرتے رہے۔
اس بات کا ذکر دوسرے تاریخ دانوں نے بھی کیا ہے۔ شیر شاہ کے پہلے تذکرہ نویس عباس خان سروانی نے لکھا ہے کہ شیر خان نے اپنے بیٹے کو احکامات دے کر قلعے میں چھوڑ دیا اور خود پاس کی ایک پہاڑی پر خمیہ زن ہو گئے جہاں سے انھوں نے ہمایوں کے سارے ذرائع کاٹ دیے اور ان کی فوج کو تقریباً مفلوج کر دیا۔
شیر خان کے مقابلے میں ہمایوں سست جنگجو تھے اور وہ شیر شاہ کی جانب سے لاحق خطرات کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے یہاں تک کہ شیر شاہ نے ہمایوں کی نہ صرف رسد بلکہ خط و کتابت کا راستہ بھی منقطع کر دیا۔
ہمایوں کی شکست کا سبب ان کی نااہلی یا فوج کی پست ہمتی نہیں تھی جیسا کہ تاریخ داں مرزا حیدر نے کہا بلکہ یہ شیر شاہ کی لچکدار جنگی حکمت عملی کی مغلوں کی سخت جنگی حکمت عملی پر فتح تھی۔‘
ہمایوں کو شکست دینے کےبعد شیر شاہ نےاس وقت تک اپنی فوج کےساتھ ہمایوں کا پیچھا کیا جب تک کہ انھوں نے ہندوستان نہ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد شیر شاہ نے کسی دوسرے بادشاہ کی طرح اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور راجپوتوں کےخلاف محاذ آرائی کی یہاں تک کہ وہ پورے شمالی ہندوستان کےبادشاہ قرار پائے۔
انتظامی صلاحیتیں
شیرشاہ کی جنگی مہمات سے کہیں زیادہ ان کی انتظامی صلاحیتوں کی تعریف ہوتی ہے۔ اگرچہ ان سے قبل علاؤالدین خلجی، محمد بن تغلق اور فیروز شاہ نے اس جانب کچھ توجہ مبذول کی تھی لیکن شیر شاہ نے انتہائی کم عرصے میں بہت ہی انمٹ نقش چھوڑے۔
ودیا بھاسکر کے مطابق انگریز مورخ کین نے شیر شاہ کے انتظام سلطنت کی خاص طور پر تعریف کرتے ہوئے لکھا: ’کسی حکومت نے، یہاں تک کہ برطانوی حکومت نے بھی ملک کے نظم و نسق میں اتنی مہارت کا ثبوت نہیں دیا جتنا شیر شاہ نے دیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ بہتر نظم و نسق اور عمدہ فوجی تنظیم کے لیے صرف کیا۔ وہ شاہی شان و شوکت کے قائل نہ تھے اور عیش و عشرت کی محفلوں سے کوسوں دور رہتے تھے۔‘
’کہا جاتا ہے کہ ایک بار ہمایوں کا سفیر شیر شاہ سے مل کر واپس آیا تو اس نے بتایا کہ شیر شاہ کڑی دھوپ میں گڑھا کھود رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ زمین پر بیٹھ گئے اور مجھ سے باتیں کرنے لگے۔‘
واضح رہے کہ شیر شاہ نے آسام سے لے کر ملتان اور سندھ تک اور کشمیر سے سدپارہ کی پہاڑیوں تک اپنی حکومت قائم کی اور ایک جیسا نظام حکومت رائج کیا۔ پوری سلطنت کو سرکاروں اور پرگنوں میں تقسیم کیا جو کہ آج کے دور میں کمشنری اور اضلاع ہیں۔
شیر شاہ نے شروع سے ہی حکومت کے زوال کی وجہ عدل کی کمی کو قرار دیا اور جب بھی انھیں کہیں سربراہی ملی تو انھوں نے نظام عدل کو قائم کرنے کی کوشش کی اور ہر شہر میں عدالت قائم کی۔
انھوں نے بنگال سے لے کر افغانستان تک ایک ایسی شاہراہ بنائی جسے گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) کے نام سے جانا گیا۔ یہی نہیں انھوں نے آگرہ سے جنوب کی سمت میں برہان پور تک اور دوسری آگرہ سے جودھ پور اور چتور تک اور تیسری لاہور سے ملتان تک سڑک بنائی اور ان سڑکوں پر تقریباً 1700 کاروان سرائے بنوائیں جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے قیام و طعام کے علیحدہ انتظامات تھے۔
یہاں ٹھنڈے اورگرم پانی کےانتظامات تھے۔ سرائے میں گھوڑوں کےکھانے پینےکابھی نظم تھا اور حکومت کی جانب سے مسافروں کو مفت کھانا ملتا تھا۔ سرائے میں مسجد کی تعمیر اور اس میں امام و موذن کی تقرری بھی کی گئی۔ مسافروں کے مال واسباب کی حفاظت کےلیے چوکیدارہوتا اور ان سب پر ایک شحنہ یعنی مینیجر ہوتا تھا۔
شیر شاہ نے سڑک کے کنارے درخت بھی لگوائے تھے تاکہ مسافر گرمیوں میں اس کی چھاؤں تلے آرام کر سکیں۔ سرائے کے انتظامات کے لیے اطراف کے کئی گاؤں کے محصول وقف تھے۔
شاہراہوں کی حفاظت کے لیے انتظامات تھے اور عامل یا شقدار کو حکم جاری کیا گیا تھا کہ ان کے علاقے میں کہیں بھی چوری یا راہ زنی ہوتی ہے اور مجرموں کا پتا نہیں چلتا تو لازم ہے کہ قریبی گاؤں کے مقدم (مکھیا) کو گرفتار کر لیں اور ان سے نقصان کی تلافی کرائی جائے لیکن اگر وہ مجرموں کا پتا چلانے میں معاونت کرتے ہیں تو انھیں کوئی سزا نہ دی جائے۔
گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے ہمارے اس بلاگ کو پڑھئے۔
شیر شاہ نے سہسرام کے قلعے کو تو مضبوط کیا ہی، انھوں نے روہتاس کا قلع بھی بنوایا جو اب پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم میں ہے جبکہ بہار میں بھی روہتاس ایک جگہ ہے جہاں شیر شاہ نے تعمیرات کروائیں۔ اس کے علاوہ دلی کے پرانے قلعے کی کئی عمارتیں بھی ان کی یادگار ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ نے کالنجر کے قلعے کا محاصر کر رکھا تھا اور اس قلعے کے سامنے اتنا بلند پشتہ تیار کروایا کہ قلعے کے اندر جو نظر آتے ان کا شکار کر لیتے تھے۔
شیر شاہ کا مزار سہسرام میں ہے جو ان کے بیٹے سلیم شاہ نے ایک مصنوعی جھیل کے کنارے تعمیر کرایا ہے جو آج تک سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
کالم نگار عرفان حسین نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ ’ہم ہندوستان میں اچھی حکمرانی کے ابتدائی تصورات کے ساتھ انگریزوں کو جوڑنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہم اس انتہائی پرعزم حکمران کی منصفانہ اور اچھی حکمرانی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘
’شیر شاہ نے ثابت کیا کہ وہ ہندوستان کی طویل اور داغدار تاریخ میں سب سے کامیاب حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ صرف پانچ سال حکومت کی لیکن تقریباً پانچ صدیوں قبل حکمرانی کے وہ معیار قائم کیے کہ ان کے بعد آنے والے اس عرصے میں بنی نوع انسان کی پیشرفت کے باوجود ان تک پہنچنے میں بڑی حد تک ناکام رہے۔‘
ان کے مخالف مغل بادشاہ ہمایوں انھیں ’استاد بادشاہان‘ یا بادشاہوں کے استاد کہتے تھے۔ آروی سمتھ کے مطابق ہمایوں کے بیٹے مغل شہنشاہ اکبر نے اپنی حکمرانی کے اصولوں کی بنیاد شیر شاہ کی پالیسیوں پر رکھی اور زبردست کامیابی حاصل کی۔
اپنی کتاب ’اگر تاریخ نے ہمیں کچھ سکھایا‘ میں فرحت نسرین لکھتی ہیں کہ اگرچہ شیر شاہ کا دور حکومت چند سال ہی رہا لیکن ہندوستان کے انتظامی نظام پر اس کا اثر دیرپا تھا۔
شیرشاہ سوری کا انتقال
شیر شاہ اپنی عمر کے 60ویں برس میں تھے جب انھوں نے مہوبا کے راجپوتوں کے خلاف بندیل کھنڈ میں کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ عباس سروانی بتاتے ہیں کہ ان کی موت جمعے کے دن 22 مئی سنہ 1545 کو قلعے کی دیوار سے ٹکرا کر آنے والے ایک بارود کے گولے سے ہوئی کیونکہ جہاں وہ کھڑے تھے وہاں بارود کے بہت سے گولے تھے جس میں شیر شاہ کے ہمراہ بہت سے دوسرے افراد بھی شہید ہو گئے لیکن ان کا ایک بچہ اس بارود کے ڈھیر میں بھی زندہ سلامت رہا۔
***********