Ads

Tuesday, August 27, 2019

احمدشاہ ابدالی کی کہانی - پہلی قسط

-ایک عظیم پشتون مجاہد وحکمران احمدشاہ ابدالی کی کہانی 
پہلی قسط

افغانستان سمیت پاک وہند میں مسلمانوں سب سےقدیم تاریخی موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کےملتان کےاٹھارویں صدی کے پختوناشرافیہ کے فرزند احمد شاہ ابدالی پوپلزئی پختونوں کے شاخ سدوزئی سےتعلق رکھتےتھے
وہ سدوخان نامی شخصیت کواپناجدامجد  مانتےتھے جوکہ روایات کےمطابق قندہار میں مقیم تقریباً 12000 ابدالی خاندانوں کا ایک طاقتور سربراہ تھا اور 1557 عیسوی کے اس پاس پیدا ہوا-قندہار میں وہ کہاں سے آۓ اسکے متعلق ظاہر ہے باقی پختون قبیلوں کی طرح مختلف نظریے موجود ہیں لیکن کوئی مستندتاریخ نہیں- انہوں نے  1622میں ایران کے شاہ عباس کی قندہار کومغلوں سے واپس چھیننے میں مدد کی جسکےعوض انکو وہاں کا جاگیر اور امیر افغان ملک سدو کاخطاب ملا- ملک سدو کے بیٹوں میں سب سےبااثراورمشہور خواجہ خضر خان سدوزئی تھے جو کہ انکے جانشیں بنے- خواجہ خضر حیات خان کے اولاد میں جانشینی کےجھگڑوں کے وجہ سے کئی سدوزئی خاندان ملتان آگئے جو کہ مغلوں کےظہورسے بہت عرصۂ پہلے سے لودھی پشتونوں کے طاقت کا مرکز تھا- ملتان میں آج بھی شاہ حسین خان سدوزئی اور سلطان حیات خان سدوزئی کی قبریں موجود ہیں جن کے اولادوں نے پھر انیسویں صدی کی اوائل میں سکھوں کے پنجاب پر قبضے تک ملتان شہراور صوبے پرحکمرانی کی-  سلطان حیات خان خداداد خان سدوزئی کا بیٹا اور خواجہ خضر خان کا پوتا تھا- احمد خان سدوزئی کے والد زمان خان کا تعلق اسی سدوزئی خاندان سے تھا- احمد شاہ ابدالی کے جاۓ پیدائش کے متعلق انکے اپنے دربار کے سرکاری مورخ محمود الحسینی کی کتاب تاریخ احمد شاہی (1753) میں کوئی ذکر نہیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر احمد شاہ ابدالی کے تخت نشینی کی روداد ہے البتہ معاصر تاریخ کے واحد دستیاب ذریعے ایرانی تاریخ حسین شاہی (1798) صفحہ نمبر 11 کے مطابق انکی جاۓ پیدائش بوجوہ ملتان ہی ہے کیونکہ اتنا تو معلوم تاریخ سے ثابت ہے کہ احمد خان کے والد زمان خان 1682 عیسوی میں قندھار اور ہرات میں ایرانی صفویوں کے جارجین کمانڈر گورگین خان کے ہاتھوں باغی ابدالی اورہوتکی (غلزئی) قبائل کےقتل عام اور ابدالیوں کے شکست کے بعد ملتان میں اپنے عزیز و اقارب کے کئی سال قیام کے واپس ہرات میں قسمت آزمائی کرنےچلے گیے اور اس شورش کے دور میں کچھ عرصۂ کیلئے خلاف بغاوت کرکے ہرات میں خود مختار گورنر بھی رہے لیکن قندہار کے ہوتکی حکمرانوں اورسلطان عبدللہ کےساتھ تنازعات میں 1721 عیسوی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اسی سلسلے میں جوان سال احمد شاہ ابدالی بھی بعد میں اپنے بھائی ذولفقار خان سمیت حسین ہوتک کے ہاتھوں قید ہوۓ- ابدالیوں کے مخالف میرویس ہوتک جنکو افغانستان میں میرویس نیکہ یا میرویس دادا بولتے ہیں 1709میں ایران کے انتہا پسند شیعہ بادشاہت کے خلاف بغاوت کرکے گورگن خان کو قتل کرنے بعد قندہار پر قبضہ کرچکے تھے- 1909 میں ڈاکٹر گندا سنگھ کی احمد شاہ ابدالی پرلکھی اس وقت تک کے سب سے مستند تحقیقی کتاب کے مطابق احمد شاہ کو بچپن میں انکی والدہ زرغونہ الکوزئی والد کے انتقال کے بعد بہت نامساعد حالات میں اپنے شوہر کے پایا تخت ہرات کے نئے گورنر حاجی اسمٰعیل خان علی زئی کے پناہ میں لے گئی اور انسے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی جنھوں پھر احمد خان کے تربیت پر خصوصی توجہ دی اور پھر بعد میں قندھار میں ہوتکی جیل سےایران کے نادر شاہ کے ذریعے چھڑایا بھی وہیں سے نادر شاہ کی توجہ حاصل کرنے بعد وہ ترقی کرتے ہوۓ احمد شاہ ابدالی بن کر پختونوں کے عظیم لیڈر اور کسی فرقے یا قوم کے تفریق کے بغیر اس خطے کے مسلمانوں کی تاریخ میں اٹھارویں صدی کے سب سے کامیاب جرنیل بنے جنکی فتوحات بجا پر طور پاکستان اور افغانستان کے آزاد ریاستوں کئی قیام کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

  یاد رہے کہ ہرات تاریخی طور پر ایک ایرانی شہر تھا اور آج بھی باوجود نادر شاہ کے دور میں کئی بااثر ابدالی خاندانوں کے یہاں آباد ہونے کا یہ ثقافتی طور پر ایک تاجک شہر ہے جہاں فارسی بولنے والوں کے بڑی اکثریت ہے- احمد شاہ ابدالی کی درانی سلطنت کی بنیاد بنیاد قندھار میں پڑی کیونکہ وہیں پر نادر شاہ نے انکے ابدالی قبیلے کو غلزئی پختونوں کی ہوتکی حکمرانوں کی جگہ دی- جون 1747میں نادر شاہ کے اچانک موت کے بعد قندھار ہی میں منعقد جرگے میں اسے مقامی پشتون عمائدین نے لاہور سے تعلق رکھنے والے احمد شاہ کے ہی پیر و مرشد صابر شاہ کے تجویز پر خاموش طبع، متین لیکن دور اندیش اور با صلاحیت احمد خان کو دردران پادشاہ غازی کے خطاب کے ساتھ احمد شاہ ابدالی کے نام سے اپنا فرما روا بنایا اور اس طرح قندھار عظیم “پاک-افغان” درانی سلطنت کا پایا تخت بنا- جلد ہی موجودہ افغانستان کو اپنے زیر قیادت لانے بعد انہوں نے اور اس طرح احمد شاہ ابدالی شیر شاہ سوری کے بعد خطے کے پہلا حکمران بنا جنہوں نے روایتی طور پر اپس میں برسرپیکار پشتوں قبائل کو ایک عظیم سلطنت بنانے کیلئے ایک مضبوط فوجی قوت کے طور پر اکھٹا کیا۔
   
ہندوستانی مورخ ڈاکٹر جے مہتا کی کی 2005میں شائع ہونے کتاب ایڈوانس سٹوڈی اف ماڈرن انڈیا کے صفحہ 249اس کے مطابق بھی احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملوں اور انکے پیچھے پختون قبائل کے اتحاد کی وجوہات “مذہبی” تھیں اور روبہ زوال مغل سلطنت طوائف الملوکی کا شکار تھی اور موجودہ پاکستان جیسے تاریخی طور پر میں مسلمان وطن میں بھی مسلمانوں کی حکمرانی کو سکھ حملہ آوروں اور جنوب مشرقی ہندوستان کے ہندو قوم پرست مرہٹوں سے خطرہ تھا- اسلئے 1747میں جب وہ درہ خیبر کے راستے پشاور آۓ تو خیبر پختونخوا کے عوام نے بغیر کسی مزحمت کے انکی اطاعت قبول کی- 1747میں ایک تاریخی طور پر مغلوں کے مخالف پختونخوا کےقبائل کے لشکر کے ساتھ لاہور پر انکے پہلے حملے کے وجہ بھی لاہور کے عیاش اور مغل ظالم گونر شاہ نواز کے وعدہ خلافی تھی جنہوں نے احمد شاہ کے سفیر اور پیر و مرشد لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے صابر شاہ کے منہ میں گرم دھات ڈال کر قتل کروایا- احمد شاہ کے حملہ اور لشکر کے ساتھ قصور (پنجاب) کا پختون حکمران جمال خان مل گیا اور ایک بڑے قتل عام کے بعد لاہور پر قبضہ کے جمال خان کو وہاں کا گورنر بنانے کے بعد سکھوں کے سرکوبی کیلئے امرتسر کی طرف گیا- اور یہی سے پانی احمد شاہ ابدالی کی ہندوستان پر حملوں کا آغاز ہوا جو آگے جاکر 1761میں پانی پت میں عظیم تاریخی لڑائی پر منتنج ہوئی جسکو ہم پاکستان کے سرکاری تاریخ اور بہت حد تک عوامی زبان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے کی آخری فیصلہ کن لڑائی کہتے ہیں، 

0 comments:

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |