Ads

Thursday, August 29, 2019

ایمل خان آفریدی ایک بہادر قبائلی پشتون کی کہانی

  ایمل خان آفریدی ایک بہادر قبائلی پشتون کی کہانی
تاریخ کی کتابوں میں ایمل خان آفریدی کی تاریخ پیدائش اورعلاقہ پیدائش کے بارے میں یاتو معلومات موجود نہیں یا پھر شاید ہمیں آج تک نہیں ملی۔(اگرہمارے قارئین میں سے کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی مستند تاریخ موجود ہو تو ہماری اس حوالے سےمدد کیجئے)۔
اکثر تاریخی آرٹیکلز میں لوگ ایمل خان کو مہمند بتاتے ہیں۔جو کہ درست نہیں۔ ہم اس آرٹیکل میں واقعات کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کرینگے کہ ایمل خان مہمند نہیں بلکہ آفریدی قبیلے سے تھا
ایمل خان کی آفریدی قبیلے سے تعلق اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب خوشخال خان خٹک مغلوں کی قید سے آذاد ہوئے تو انہوں بدلہ لینے کیلئے اُس وقت آفریدی قبیلے کے جنگجوں جس کے دو اہم کردار دریا خان آفریدی اور ایمل خان تھے۔ ان کے گروپ میں خوشخال خان شامل ہوگئے تھے۔
Aimal Khan Afridi
یہاں اس بات کر ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ خوشحال خان خٹک کے والد شہباز خان جو مغلوں کا بہادر سپاہی تھا جس کی وجہ سے انہیں سورڈزمین کے خطاب سےنوازا گیا تھا۔ انہوں مغلوں کے لئے یوسفزئی قبیلے کے ساتھ ساتھ آفریدی قبیلے سے بھی جنگیں لڑی تھی۔ جن کی بہادری کا ذکر شہباز خان خود اپنے بڑے بیٹے خوشخال خان خٹک سےکرتےرہے۔اگر دیکھا جائے تو خوشخال خان خود آخر تک یوسفزئی قبیلے کے خلاف تھا۔لیکن جیسے اوپر ذکرکیا گیا کہ خوشخال خان بعد میں دریاخان آفریدی اور ایمل خان کے ساتھ جاملے تھے۔ یہ دونوں اُس آفریدی قبیلے کے جنگجو تھے جن سے شہباز خان کی لڑائی ہوتی رہی۔ چونکہ خوشخال خان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اسلئےاس نےچونکہ اپنےوالدسےآفریدی قبیلےکی بہادری کےقصےسُنےتھے۔اسلئے خوشحال خان نےمغلوں سےانتقام لینےکیلئےاسی آفریدی قبیلے کےجنگجووں سےہاتھ ملایا۔تویہاں کہاجاسکتا ہےکہ دریاخان آفریدی کےساتھی ایمل خان بھی آفریدی تھا نا کہ مہمند  

لیکن شاید ایمل خان آفریدی کو چند تاریخ دان مہمند قبیلے سے اسلئے سمجھنے لگے کہ 1672 میں ایک مہمند صافی خاتونسے مغل فوج کے موجودہ کنٹر کے علاقے کے فوجدار حسین بیگ خان کے سپاہیوں نے بدتمیزی اور انہیں جنسی حراساں کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جس پر مہمند  سمیت آفریدی قبیلےنےبھی سخت ناراضگی ظاہر کی تھی۔ جس کا بدلا لینے کیلئے صافی قبیلےکے لوگوں نےان سپاہیوں کو قتل کردیا۔ مغل حکمرانوں نے ان سپاہیوں کےقاتلوں کوحوالےکرنےکا مطالبہ کیا۔جو پشتون قبائل نے رد کردیا۔جس کی وجہ سے حسین بیگ خان نے صافی قبیلے پر حملے شروع کردئے۔ جس کے نتیجے میں تقریبن تمام پشتون قبائل میں اشتعال پیدا ہوگیا۔ جو بعد میں  مغل سلطنت کے خلاف افغان بغاوت میں تبدیل ہوگیا۔جس کی سربراہی ایمل  خان کررہے تھے اور اس بغاوت میں انکے ساتھ آفریدی ، شینواری اورمہمند قبائل  شامل تھے

علی مسجد

اسی سال ایک دن ایک دن  مغلوں کے مغرور گورنر محمد امین خان اپنی فیملی پوری فوج کے ساتھ کابل جاررہے تھے کہ ایمل خان آفریدی اور اسکے سپاہیوں نے علی مسجد کے علاقے میں ایک تنگ گھاٹی میں گھات لگا کربیٹھ گئے گورنر کا کافلہ پہنچتے ہی پشتون جنگجووں نے ہر طرف سے  مغل کافلے پر تیر ، گولیاں اور پتھر برسانہ شروع کردیا۔ گورنر امین خان اور اس کے افسر تو پشاور کی طرف بھاگتے ہوئے جان بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن ان کی 40000 فوج قبائلی جنگجووں کی تلواروں اور تیروں کی ذد میں آگئے۔ اور 2 کروڑ روپے نقد کیش مال غنیمت بھی قبضے میں لے لئے۔ اس کے علاوہ 20000 کے لگ بھگ مرد وعورت گرفتار کرکے قیدی بنائے۔جن گونر امین خان اور انکی بیوی بھی شامل تھی ۔ جو
بھاگتے ہوئے پشاور کے قریب سےزندہ پکڑے گئے تھے۔
     

ان 20000قیدیوں کو سنٹرل ایشاٗ فروخت کرنے کیلئے بیج دیا گیا جبکہ خود گورنر محمدامین خان اور اسکی بیوی نے ایک بڑی رقم تاوان کے عوض خود کو رہا کروادیا۔

یہ مارکہ چونکہ آفریدی قبیلے کے علاقے خیبر پاس اور علی مسجد کے علاقے میں ہوا۔ اسلئے یہ ثابت کرتا ہے۔کہ ایمل خان اس علاقے کے چپے چپے سے باخبر تھا اور اس علاقے کے لوگوں کی مغلوں کے خلاف انکو بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ورنہ قبائلی دستور کے مطابق ایک قبیلے کے لوگ دوسروں قبیلے کے لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ آکر انکے علاقے میں حکومت اور سلطنت یا کسی اور کے خلاف کے خلاف ایسی بڑی کاروائی کرے۔ کیونکہ ایسی کاروائی سےان علاقے کے لوگوں کیلئے حکومت کی طرف سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تو لہذا یہ واقع بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمل خان مہمند  نہیں بلکہ آفریدی تھا اسلئے ان کی لشکر کو آفریدیوں کے علاقے میں حکومت وقت کے خلاف اتنی بڑی کاروائی کا اجازت دی گئی تھی۔

خیبر پاس کی اس عظیم  فتح کے بعد قبائلی جنگجوں کے سردار ایمل خان آفریدی نے خود سلطان قراردیا اور خود کو ایمل شاہ کا خطاب دیا۔ اور اپنےنام سے ایک سکہ بھی جاری کردیا۔ اور تمام پشتوں کو سمن کے ذریعے اطلاع دی کہ مغل سلطنت کے خلاف انکی اس قومی بغاوت میں ان کے ساتھ شامل ہوجائے۔


اس عظیم فتح کے بعد ایمل خان آفریدی کو بےپناہ دولت حاصل ہوئی اور انکے کارناموں کی خبریں افغانوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جس کے بعد بہت سے نوجوانوں نے انکی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 

چونکہ یہ پشتون بغاوت  ایک صافی خاتون جومہمند قبیلےسےتعلق رکھتی تھی۔ کے واقع سے سےشروع ہوئی۔ اوراس بغاوت کی سربراہی ایمل خان  کررہےتھےاسلئےچند مورخین سمجھتےہیں کہ ایمل خان بھی مہمند  قبیلے سےتھا اسلئے کہ اس  بغاوت نےمہمند  سے شروع ہوکر زور پکڑی تھی۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا کیونکہ مغل فوج  قاتل حوالے نہ کرنے پر اس علاقے پر حملے کررہے تھے اسلئے ان قاتلوں کو ایمل خان کے قبیلے نے پناہ دے دی۔ اور مزید حالات خراب ہونے کی صورت میں  اُس وقت تمام پشتون قبائلیوں نے  اسے نگ وناموس کا مسئلہ سمجھ کرمغلوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔

نوشہرہ کی لڑائی 
ایمل خان آفریدی اور دریا خان آفریدی کے لشکر جس میں خوشحال خٹک کی سربراہی میں خٹک قبیلہ اوربعد میں یوسفزئی قبیلہ بھی شامل ہوگیا تھا۔ انکی 8000 افراد پر مشتمل لشکر نے نوشہرہ میں مغل قلعہ پر حملہ کردیا اور پیر پائی کے علاقے کو نست وناد کردیا اورسارمال غنیمت اپنےقبضےمیں لےلیا۔اس لڑائی میں مغل فوج کو بڑی جانی ومالی نقصان سےدوچارہونا پڑا۔نوشہرہ کی لڑائی فتح کرنےکےبعد چارسدہ کےقریب دوآبہ کےمقام پرمغل کمانڈرمیرحسین کوبھی شکست سےدوچا کردیا۔

دوآبہ کے شکست کے بعد مغل بادشاہ اونگزیب اُس وقت پشاور کے گورنر مہابت خان جو 70 سال کے قریب تھے۔ سے بلکل ناخوش تھے۔ کیونکہ وہ اونگزیب کی خواہش کے مطابق ایمل خان کی سربراہی میں افغان لشکر کے خلاف کچھ نہیں کرسکا۔ اسلئے اونگزیب نے شجاعت خان کو پشاور میں مغلوں کا وقار بحال کرنے کیلئے بیجا۔ اُس نے توڑے عرصے کیلئے پشاور میں قیام کیا۔ بعد میں وہ گنداب وادی کی طرف روانہ ہوئے راستے میں انہیں معلوم ہوا کہ ایمل خان نے کڑپہ کا پاس بند کررکھا ہے۔ وہاں پہنچتے ہی ایمل خان کی لشکر نے مغل فوج پر حملہ کردیا جس کے نتیجے مین شجاعت خان سمیت ہزاروں مغل فوجی قتل کئے گئے۔

جون 1675میں باجوڑ کے علاقے کاپوش میں بھی مغل فوج کیلئے ایمل خان آفریدی کی فوج گھات لگا کرحملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں مغل کمانڈر شمشیر خان قتل کیا گیا تھا جبکہ مکرم خان شدید زخمی ہوکر بھاگ نکال اور باجوڑ میں موجود مغل فوج کے بیس کیمپ میں پہنچ گیا۔

چونکہ ہمارا بحث یہ بھی ہے کہ ایمل خان مہمند نہیں بلکہ آفریدی قبیلے سے تھا۔ جس کیلئے ہم چند واقعات کے حوالے اوپر دے چکے ہیں۔ لیکن مذید ہمارے اس دعوے کو تقویت دینے کیلئے کہ ایمل خان آفریدی تھا کے حوالے سے مزید چند واقعات اورحوالاجات درج ذیل پیش کرتے ہیں۔

ایک دن مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر لاہور جاررہے تھے اس دن کوہاٹ کے علاقے گھمبٹ میں خوشحال خان خٹک اور مغلوں کے حمایتی شیر محمد بنگش کے درمیان شدید لڑائی ہوئی جس میں خوشخال خان خٹک اور انکا بیٹا عبدالقدید شدید زخمی ہوئی جس کے نتیجے میں خوشحال خان خٹک کو اس لڑائی میں شکست ہوئی۔ اس لڑائی کے بعد مغل بادشاہ اونگزیب سے اس افغان بغاوت کو کچلنے کیلئے ختمی فیصلہ کرلیا اور اگلے سال عامر خان اور دیگر اہم فوجی جرنلوں کی ہمراہ شہزادہ معظم کو روانہ کیا۔ جہاں عامر خان نے کابل کے گورنر کے ساتھ مل کرکامیاب حکمت عملی بنائی ۔ جس کے تحت قبائل کو بڑے پیمانے پر مراعات دینا شروع کردیا۔ اور خفیہ طورپر قبائل اور ایمل خان کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش شروع کردی۔ لیکن مغلوں کے آلہ کار عامر خان تب کامیاب ہوئے جب  ایمل خان آفریدی کا انتقال ہوا۔ تو عامر خان اور آفریدی قبیلے کے درمیان چند شرائط معاہدے طے پایا گیا۔اور آفریدی قبیلے نے خیبر پاس کول دیا۔  یہاں یہ واقع بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر ایمل خان آفریدی نہیں مہمند  تھا کہ مغلوں کے نمائندے عامر خان کیلئے آفریدی قبیلے اور ایمل خان کے درمیان اختلافات پیدا کرنا کیوں ضروری تھا؟۔ اگر ایمل خان آفریدی نہیں تھا تو انکے انتقال ہی کے بعد مغلوں اور آفریدی قبیلے کے درمیان معاہدہ کیوں وجود میں آیا تھا۔؟ اورخیبرپاس آفریدی قبیلے نے کیوں کھولا؟ اگر ایمل خان مہمند تھا تو آفریدی قبائل ایمل خان کی زندگی میں بھی انہیں علاقہ بدرکرکے مغلوں کےساتھ معاہدہ کرسکتے تھے؟ لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اور ایسا اسلئےنہیں ہوا کہ ایمل خان آفریدی اسی آفریدی قبیلےسےتھا اوراسلئےانکی حمایت اُسےحاصل تھی اسلئے ان ہی کی حمایت سےایمل خان یہ ساری لڑائیاں لڑ تارہا  اور اپنی سلطنت قائم کررکھی تھی۔

ایمل خان مہمند  نہیں بلکہ آفریدی تھے اس متعلق 1884 میں میجر رورٹی نے خوشحال خان خٹک کی ڈائری کا ترجمہ کرتے ہوئے بھی ایمل خان کا ذکر کرتے ہوئے آفریدی کہا تھا بلکہ ایک جگہ پر انہوں نے ایم خان کو دریا خان آفریدی کا بھائی بھی کہا ہے۔ اور 1958 میں سراولف کرک پٹرک کاریو نے ایمل خان کو ایمل خان آفریدی کے نام سے ذکر کیا تھا۔ جبکہ دوست محمد کامل ایمل خان کو آفریدی نہیں بلکہ مہمند سمجھتے ہے۔

اس کے علاوہ عالمگیر نامہ اور اخبارات المول جن کو انتہائی مستند ریکارڈ مانا جاتاہے۔ ان میں بھی اجمیر کے قریب دیورائی کی لڑائی کےبارے میں بتاتےہوئےایمان آفریدی کا ذکرآیا ہے۔جس میں کہاجارہا ہےکہ ایمان آفریدی مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرکا ایک بہادر سپاہی تھا یہاں ممکن ہے کہ ایمل خان آفریدی کی جگہ ایمان آفریدی لکھا گیا ہو۔کیونکہ یہ ایمان نام نہیں ہوسکتا کیونکہ ایمان زنانہ نام ہے اور پختونوں میں زنانہ نام مردوں کیلئےمایوب سمجھاجاتاہے۔تو یہاں میں یقین سےکہہ سکتا ہے ہوں کہ یہ ایمان آفریدی نہیں بلکہ ایمل آفریدی ہے۔

سراولف کرک پٹرک کاریومزید کہتےہیں  کہ آفریدی علاقےدرہ آدم خیل میں داخل ہوتےوقت ایک قلعہ یا تھانہ ہےجوایمل خان آفریدی کےنام سےمنسوب ایمل چبوترا کہلاتاہےاورجسے آجکل سپینہ تھانہ بھی کہاجاتاہے۔
 

یہ قلعہ اُس وقت پشاور کے کمشنر کرنل میکسن نے درہ آدم خیل کے آفریدی قبائل کو کنٹرول کرنے کیلئے بنایا تھا۔ لیکن 1852میں جب آفریدی قبیلے کے جنگجووں نے جب کمشنر کرنل میکسن کو قتل کردیا۔ تو اس حکومت نے اس قلعہ کا نام  میکسن کے نام سے منسوب کردیا۔ جو بعد میں پشاور کے کمشنر  کرنل ایڈورڈ نے اس کا نام ایم چبوترا رکھ دیا۔ اب ظاہر ہے کہ حکومت کی طرف سے آفریدی قبائل کے علاقے میں اس قلعہ کا نام ایمل کے نام سے منسوب کرنے کی کوئی وجہ ہوگی۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ ایمل خان آفریدی چونکہ آفریدی قبائل کا ہیرو تھا اور اس نے مغل سلطنت کے خلاف بغاوت بھی کررکھی تھی۔ اور چونکہ انگریز خود مغل سلطنت کے خلاف تھے اسلئے مغلوں کے مخالفین ان کے بھی ہیروز تھے۔ اسلئے ایک انگریز کمشنر کرنل ایڈورڈ نے اس قلعہ کا نام درہ آدم خیل کے آفریدی قبیلےکو خوش کرنے کیلئے ان  کے ہیرو ایمل خان کے نام سے منسوب کیا ۔ تاکہ آفریدی قبائل انگریز حکومت کے خلاف جنگ بندی کرے اور کمشنر ایڈورڈ کے ذیر انتظام علاقے میں امن ہو۔

حوالہ

1.       Studies in Mughal History -  Ashvini Agrawal
2.       Mughal Empire in India -  A Systematic Study Including Source Material  - S.R.Sharma
3.       Mughal Rule in India – Stephen Meredyth Edwardes
4.       The Mughal Empire From babar to Aurangzeb – SM Jaffar
5.       History of Aurangzib – Jadunath Sarkar

18 comments:

Samiullah_Matta said...

تھووڑا اور تحقیق کرلے شاید خوشحال خان خٹک , اورنگزیب عالمگیر اور سر اولف کیرو بھی آفریدی نکل أئے

Anonymous said...

یہ مشورہ دینے کی بجائے اگر آپ کسی ثبوت کے ساتھ ان کے موقف اور تحقیق کو غلط ثابت کرلیتے تو انکی بھی اصلاح ہوجاتی اور ہمارے علم بھی اضافہ ہوجاتا۔
باقی ایمل خان کے حوالے سے دلائل تو انکے لوجیکل ہے

Noor Afridi said...

جناب من، آپ پورا پڑھ لیجئے، آپ کی غلط فہمی اگر ہے تو دور ہوجائیگی۔
آپ تنقیدکرے لیکن برائے اصلاح کرے۔ ہم نے تو پہلے پیراگراف کہہ دیا اگرآپ کے پاس کوئی مستند تاریخ ہے جو ہماری تاریخ کو غلط ثابت کرسکتا ہے تو ہماری اصلاح کیلئے شئیر کیجئے۔

محمد بلال said...
This comment has been removed by the author.
محمد بلال said...


محترم نے جس واقعے کا ذکر کیا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ دوست محمد خان کامل کی کتاب خوشحال خان خٹک سوانح و حیات نہیں پڑھی۔ اور اگر اس کتاب کا صفحہ نمبر 181 سے مطالعہ شروع کریں تو ان کی اس بات پر تو تسلی ہو جائے گی، کہ وہاں دوسرے قبائل کے سرداروں کا کیا کردارتھااور کیا کہنا تھا۔ اور باقی رہی بات آفریدی اور مہمند کی تو اس بات کو جن دلائل سے ثابت کیا ہے، ان پر بحث کی ضرورت نہیں، ملاحظہ ہو دوست محمد خان کامل کی کتاب کا صفہ نمبر 175۔ ایمل خان کا نام اور قبیلہ۔

sk said...
This comment has been removed by the author.
sk said...

محمدبلال آپ کے پاس صرف دوست محمدکامل کا سہارا ہے اور کوئ مستند دلیل نہیں

Unknown said...

دریا خان سوک وو ټول جنګ هغه کړي وو خوشحال پلار نیکه دي مغلو وفادار وو

محمد بلال said...
This comment has been removed by the author.
محمد بلال said...


اچھا تو آپ نے کون سی دلیل دی ہے مجھے تو نظر نہیں آئی، اور رہی بات دوست محمد خان کامل کی تو لیجۓ خود خوشحال خان خٹک، انہوں نے جو کچھ ایمل خان کے بارے میں کہا ہے، کیلیے ان کی کلیات کی طرف رجوع کریں، تو پتہ چل جائے گا۔۔۔ بطور مثال کچھ جزیات پش خدمت ہیں،شپگم جنگ مکرم خان شمشیر خان دواڑہ

چہ ایمل کڑہ پہ خاپخ کے تارپہ تار

بیالہ پسہ جسونت سنگھ شجاعت دواڑہ

چہ ایمل ئی پہ گنداؤ اوویست دومار

دریا خان مے د کچئی گوتے غمے دے

ایمل خان مے د پگڑئی شملکے دے

آفریدو شینوارو زڑہ پہ ولجہ خہ کڑو

ایمل خان مومند پہ ننگ پہ ولجہ دواڑہ

Unknown said...
This comment has been removed by a blog administrator.
Noor Afridi said...

محمد بلال صاحب، ہنگری جارج راورٹی نے خوشحال خٹک کے ڈائری کا ترجمہ کرتے ہوئے ایمل خان کو دریا خان آفریدی کا بھائی بتایا ہے۔
قطع نظر ان سب کے، ہم نے اپنے تحریر میں مختلف حوالے اور دلائل پیش کئے ہیں۔اور یہ بھی بتایا کہ اگرکسی کے پاس ہمارے دلائل ثبوت کے ساتھ غلط ثابت کرسکتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بہتر ہے کچھ حوالاجات اور دلائل دیجئے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرسکے۔ آپ مسلسل دوست محمد کامل کا حوالہ دے رہے ہیں۔ تو جناب دوست محمد کی کتاب کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ اس میں کوئی غلطی نہ ہو۔
آپ ایک دوست محمد کامل کی کتاب کا حوالے دے رہے ہیں جبکہ ہمارے اتنے سارے دلائل اور حوالاجات کو جھٹلا رہے ہیں۔ ہم آپ کی اس حوالے سے نیت پر کیسے یقین کرے؟

محمد بلال said...
This comment has been removed by the author.
محمد بلال said...

جس صحیفے کا آپ نے حوالہ دیا ہے، یہ ایک مستشرق ہے اور تاریخی میں ان مستشرقین کا کیا کردار اور مقاصد رہیں ہیں، اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جارج راورٹی اور ان جسے لوگوں نے اس خطے کی تاریخ سے کیا کھلواڑ کیا ہے، اس پر بھی زرا تحقیق کرلیں، اور رہی بات آپ کے حوالہ جات کی تو مجھے تو کوئی حوالہ نظر نہیں آیا علاوہ گھسی پٹی قبائلی روایات کے قدیم مفروضے کہ کہ قبائل یہ نہیں کرنے دیتے اور وہ اجازت نہیں دیتے۔۔اور رہی راورٹی کی کہ اس نے دونوں کو بھائی کہا ہے، تو اس کے سمجھنے سے تاریخ کو نہیں جھٹلایا جا سکتا، یہ قصہ خود خوشحال خٹک نے ختم کیا ہے جو اس جنگ میں مغل کی طرف سے پشتونوں کے خلاف لڑ رہا تھا۔۔۔۔ اب اگر آپ کو یہ گورا نہیں کہ خوشحال نے درست نہیں کہا اور راورٹی اور دوسرے انگریز مورخین نے درست کہا ہے، تو وہ آپ کے لیے حجت ہے، میرے لیے نہیں۔۔۔

محمد بلال said...

Henry George Raverty نام کی تصحیح کرلیں ، آپ نے ہنگری لکھا ہے

Anonymous said...

اپ کی بات میں وزن ہے ۔۔۔۔اصل یہ لڑائی صافی قوم کا تھا جب ان تین مغل سپاہیوں کو صافی قوم نے قتل کیا تو مغل لشکر صافی قوم سے لڑائی کے لے اے تو سب سے پہلے صحافیوں کا ساتھ آفریدیوں نے دیا ۔۔۔اس واقعہ سے چند مہینے پہلے صافی قوم اور مومند قوم میں لڑائی ہوئ تھی جس میں مومند قوم کے بہت دارے افراد مارے گے تھے تو مومند آپس میں اس بات پر جرگے کر رہے تھے کہ ایا صافی قوم کا ساتھ دے کہ نا دے جب پشاور کے اربابوں نے بھی در پردہ صافیوں کا ساتھ دیا تو پھر ننگ میں اکر مومندو نے صافی قوم کا ساتھ دیا کیونکہ مومند ایجنسی میں مومند اور صافی قوم اکٹھے رہتے ہیں اور جن کی لڑائ تھی یعنی صافی قبیلہ وہ مومند ایجنسی کے بلکل گاونڈ کونڑ میں تھے تو گاونڈی قبیلے کے ناطے مومندو نے بھی صافی قوم کا ساتھ دیا ۔۔۔صافیوں نے آفریدیوں کی پختون ولی کی وجہ سے ایمل خان کو لشکر کس سربراہ بنا دیا اور آج تک صافی قوم آفریدیوں کے اس پختون ولی کو نہیں بھولے ۔

Anonymous said...

وائ طورا دی لالا وخی او نوڑی دی عبداللہ ۔۔۔۔یہ لڑائی صافی قبیلے اور مغلوں کے درمیان لڑی گئ تھی نہ مومندو کی لڑائ تھی اور نہ آفریدیوں کی ان سب اقوام نے صافی قوم کا ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اصل میں صافی ہی لڑے تھے اور میں اکسر یہ دیکتھا ہو کہ مومند اور بعض اور اقوام اس لڑائی کو اپنے کھاتے میں ڈال تے ہیں

Anonymous said...

اپ کے لکھنے پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اپ کہتے ہو کہ مومند صافی قبیلے کی عورت صافی تو کسی قبیلے کا شاخ تو نہیں ہے صافی قوم پختونوں کے قوم پختونوں کے 5بڑے قبیلوں میں شمار ہوتا ہے ۔۔۔۔اصل لڑائ صافی قبیلے اور مغلوں کے درمیان تھی جب صافی قوم پر مغلوں کی زبانی دھمکیا کام نہ اے اور کم تعداد میں جتنے بھی مغل اے ان سب کو صافی قوم نے ماردیا ۔اس کے بعد جب مغلو کی بہت کی بہت بڑی فوج صافیو سے لڑنے کے لے ارہی تھی تو پر صافی قبیلے نے اپنے گاونڈی افغان قبیلو ،آفریدیوں مومندو اور خٹک قبایئل سے مدد مانگی اور انہو نےصافیو کا مکمل ساتھ دیا ۔۔۔۔افریدیو نے بغیر کسی لعت ولیل ساتھ دیا اس سے کچھ عرصہ پہلے صافی اور مومند قبیلے میں لڑائ ہوئ تھی جس کی بنیاد پر مومند آپس میں سوچھ رہے تھے کہ صافیوں کا ساتھ دیا دیا جائے کہ نہیں تو ایمل خان غازی نے اپنے قوم مومند سے کہا کہ ہر صورت اپنے بھائیوں کا ساتھ دینگے اور اپنے قبیلے کو آمادہ کیا ۔۔۔تو صافی قوم نے ایمل خان غازی کی پختون ولی کو دیکھ کر صافی لشکر جن میں آفریدی مومند شینواری اور خٹک بھی تھے

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |