تاریخِ اسلام کیا ہے؟
تاریخ اسلام کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اگر درست طور اور بہتر انداز میں دیا جائے تو وہ چہرے جن پر برسوں ہوئے خزاں کا عالم ہے بہار بن کر کھلنے لگیں گے۔ ایک عرصہ ہوئے اس قوم نے اپنا راستہ بدلہ۔ یا شاید راستے سے بھٹک گئے لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس وقت اسلام خزاں کے موسم سےگزر رہا ہے۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلام کو جو وقار اور جو بہار بخشی اس کا تصور مختلف ادوار میں ملتِ بیضا کے قافلوں اور قافلہ سالاروں کو ان کامیابیوں کی راہیں دکھاتا رہاجواغیارکوبھی یہ سوچنے پرمجبورکردیتا ہےکہ جس قوم کی خزاں کا یہ عالم ہےاس کی بہار کیا رہی ہوگی۔
ظلم کےخلاف اٹھنے والی تلواروں کا نام تاریخِ اسلام ہے۔ انگنت مظالم کے باوجود درگزر کا نام تاریخِ اسلام ہے۔پیٹ پر پتھر باندھ کر دفاعی خندق کھودنے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔ آگ، کلیسا اور مٹی کی مورتوں کے پجاریوں کو وحدہ لاشریک کا سبق پڑھانے کا نام تاریخ اسلام ہے۔شودروں کو ان کے انسانی حقوق دینے اور ان کو جینے کا ڈھنگ سکھانے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔شہیدوں کے چہروں کی آخری مسکراہٹ سے روشنی لے کر مفتوح فصیلوں پر چراغاں کرنے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔جن مقامات پر حوصلے دم توڑ جات ہیں، تلواریں چھوٹ جاتی ہیں ان مقامات پر سر بکف آگے بڑھ جانے والوں کے اعمال نامے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔مفتوحہ علاقوں میں دشمن کے دلوں پر راج کرنے والی شفقت بھری نگاہوں اور مسکراہٹوں کا نام تاریخِ اسلام ہے۔ظلم کے خلاف سینا سپر ہو جانے کا نام تاریخِ اسلام ہے۔
اسلام کی تاریخ انگنت اور انمٹ ابواب پر مشتمل ہے جن میں صبر و شکر، قربانی، درگزر، اخلاق، شفقت اور دوسرے اخلاقی اقدار شامل ہیں۔ تاریخ اسلام یہ ہے کہ جہاں جہاں سے اسلام کا گزر ہوا اپنا احساس چھوڑ گیا۔ ہماری تاریخ ہمیں بار بار سکھاتی ہے اور دکھاتی ہے کہ اسلام کا اصل ڈھنگ کیا ہے۔ کیوں سندھ پر حملہ آور ہونے کے باوجود عرب کا وہ نو عمر غیر مسلموں کی دلوں دھڑکن تھا، کیوں میسور میں موجود وہ غیر مسلم بیٹیاں فتح علی کو اپنی عزتوں کا محافظ خیال کرتی تھیں؟کیوں برے سےبرا سلوک کرنےکےباوجود اہلِ مکہ کواس بات کا یقین تھا کہ آج ان پر تلوارنہیں پھول نچھاورہونگے؟
یہ سچ تاریخ اسلام ہے کہ ہمارا دین ہمارا مرکز ہے۔ ہمارا شعار ایک، خدا ایک ہے۔ہم ایک ہی درخت کی ٹہنیاں ہیں، ہم ایک ہی جسم کے عضو ہیں۔ ہمارے رہن سہن میں فرق ہو سکتا ہے، ہماری زبانیں ہمارا لباس مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہم سب پھر بھی ایک ہی مرکز کو ماننے والے ہیں۔ اور ہمیں اجتماعی جدو جہد، اجتماعی احساس اور قوم کے لئے اجتماعی فکر کرنا سکھاتا ہے اور یہی تاریخِ اسلام ہے۔
0 comments:
Post a Comment