Operation Gibraltar -1965
1965 آپریشن جبرالٹر کی یادیں
اندازوں کے مطابق کشمیر جانے والی جبرالٹر فورس سات سے 20 ہزار ارکان پر مشتمل تھی
اگست 1965 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بظاہر ایک مسلح مزاحمتی تحریک جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور اس ’بغاوت‘ کے ایک ماہ بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کا یہ حملہ ’بلا اشتعال‘ تھا لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس وقت شروع ہونے والی تحریک واقعی مقامی تھی؟
71 سالہ قربان علی ان ’مزاحمت کاروں‘ میں شامل تھے جنھوں نے اگست 1965 میں بھارتی فوجیوں سے لڑائی کی۔
لیکن پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے رہائشی قربان علی کوئی مزاحمت کار نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی آزاد کشمیر رجمنٹ کے ایک فوجی تھے۔
پاکستان نے آج تک سرکاری طور پر اس قسم کی کسی فوج کی تیاری یا موجودگی کی تصدیق نہیں کی لیکن پاکستانی فوج کے سابق میجر، سکیورٹی امور کے ماہر اور مصنف اکرام سہگل نے اپنے ایک اخباری مضمون میں اس فوج کو ’ آزاد کشمیر رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے فوج کے رضاکاروں اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے بھرتی کیے گئے ان افراد کا مجموعہ قرار دیا ہے جنھیں جلدبازی میں تربیت دے کر جولائی/اگست 1965 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دھکیل دیا گیا۔‘
پاکستانی اور دیگر عسکری مورخین کے مطابق اس منصوبے کو آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا تھا اور اس کے خالق خطے
کے فوجی کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک تھے۔
قربان کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ 180 افراد پر مشتمل تھا جن میں سے بیشتر عام شہری رضاکار تھے
منصوبہ یہ تھا کہ گوریلا لڑائی لڑتے ہوئے بھارتی مواصلاتی نظام کو تباہ کیا جائے اور مرکزی مقامات پر حملے کر کے بھارتی فوج کو باندھ کر رکھ دیا جائے۔قربان علی اور ان کے گروپ نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہونے کے لیے شمال سے طویل اور دشوارگزار راستہ اختیار کیا۔
یہ لوگ کئی دن اسلحہ، گولہ بارود اور خشک راشن کمر پر لادے پیدل چلے، پہاڑ چڑھتے اترتے رہے جن میں سے کئی برف پوش تھے۔اس سفر کے بعد انھوں نے ضلع کپواڑہ میں چوکی بال کے قصبے کے نزدیک جنگلات میں اپنی کمین گاہیں قائم کر لیں۔ یہ لوگ اپنے دن اور راتیں درختوں کے کھوکھلے تنوں میں یا پھر چٹانوں کی اوٹ میں گزارتے رہے۔انھوں نے وہاں جو ایک ماہ گزارا اس میں ایک پل تباہ کیا اور بھارتی فوج کی سپلائی لائن پر کئی مقامات پر حملے کیے۔
قربان کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ 180 افراد پر مشتمل تھا جن میں سے بیشتر عام شہری رضاکار تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہر دس افراد میں سے چھ عام شہری تھے۔‘
قربان اور ان کے ساتھی نہیں جانتے تھے کہ ان جیسے کئی اور گروپ دیگر مقامات سے کشمیر کے اس حصے میں داخل ہو چکے تھے۔
اگست 1965 کے آخر تک بھارتی فوج نے کشمیر میں داخل ہونے والے بیشتر دراندازوں کو تلاش کر کے پکڑ لیا تھااندازوں کے مطابق کشمیر جانے والی یہ جبرالٹر فورس سات سے 20 ہزار ارکان پر مشتمل تھی۔
ان میں سے ایک محمد نذیر بھی تھے جو اب 64 برس کے ہو چکے ہیں۔
جب انھیں بھرتی کیا گیا تو ان کی عمر 14 برس تھی اور وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے پونچھ میں ایک درجن سے زیادہ بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جب انھوں نے ہمیں تربیتی کیمپ سے نکالا تو ہم نہیں جانتے تھے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ ہم سمجھے کہ یہ بھی ہماری تربیت کا ایک حصہ ہے۔‘
نذیر اور ان کے ساتھی فارورڈ کہوٹہ سے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوئے اور زیادہ تر ضلع پونچھ کے قصبے منڈی کے علاقے میں کارروائیاں کیں۔
نذیر کہتے ہیں کہ ان کے گروپ میں شامل اکثر لوگ خود ان جیسے لڑکے تھے۔ ’اس کم عمری میں سب نے بہت خونریزی دیکھی۔ لیکن ان کے حوصلے بہت بلند تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب کبھی گولیاں چلتیں یا کارروائی ہوتی تو ہمارا جوش و جذبہ بڑھ جاتا۔ جب خاموشی ہوتی تو ہم بوریت کا شکار ہو جاتے۔ اس وقت ہم نے شاید ہی کبھی زندگی اور موت کے بارے میں سوچا ہو۔‘
اس کم عمری میں سب نے بہت خونریزی دیکھی۔ لیکن ان کے حوصلے بہت بلند تھے: محمد نذیر
آپریشن جبرالٹر اس مفروضے کی بنیاد پر کیا گیا کہ یہ گوریلا حملے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی مسلم آبادی کو بغاوت پر اکسائیں گے۔اس سلسلے میں ایک باغی ریڈیو سٹیشن بھی قائم کیا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کشمیر میں کہیں قائم ہے جبکہ وہ راولپنڈی سے نشریات کر رہا تھا جن میں ’مجاہدین‘ کی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تاکہ لوگوں کو مزاحمت پر اکسایا جائے۔لیکن بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی شہری آبادی نہ صرف کسی عام بغاوت کے لیے تیار نہیں تھی بلکہ اسے ان دراندازوں کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا بھی رہا۔
عسکری مورخین نے ایسی کئی مثالیں پیش کی ہیں جن میں ان کی کارروائیوں میں عام شہری مرے یا زخمی ہوئے یا پھر انھوں نے ان مزاحمت کاروں کی مخبری کر دی۔
جبرالٹر فورس کی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کارروائیوں کے بعد بھارت نے نہ صرف کشمیر میں اپنی فوج میں اضافہ کیا بلکہ دراندازی کے مقامات بند کرنے کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی فوج نے ایسے بلند دروں پر بھی قبضہ کر لیا جہاں سے وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔
بھارت کے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے پاکستانی فوجی ستمبر کے پہلے ہفتے میں جموں میں داخل ہوئی تاکہ بھارتی سپلائی لائن کو کاٹا جا سکے۔ یہ کارروائی بھارت کی جانب سے لاہور اور سیالکوٹ کی سرحد سے پاکستان پر حملے کی وجہ بنی۔
یوسف کی ہلاکت کے وقت ان کی اہلیہ نسا بیگم سات ماہ کی حاملہ تھیں
اگست 1965 کے آخر تک بھارتی فوج نے کشمیر میں داخل ہونے والے بیشتر دراندازوں کو تلاش کر کے پکڑ لیا تھا یا پھر وہ لڑائی میں مارے گئے۔
بھارت کی جانب سے لاہور پر حملے کے بعد ان میں سے زندہ بچ جانے والوں کو واپسی کے احکامات ملے۔
قربان علی کے مطابق ’ہمیں بتایا گیا کہ وہ ہمیں مزید کمک نہیں پہنچا سکتے اور ہمیں اب اپنا انتظام خود ہی کرنا ہوگا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے مشن میں سب سے مشکل وقت تھا۔ ہمارے عقب میں جو چوٹیاں تھی جن پر پہلے پاکستانی کنٹرول تھا، وہ اب بھارتی قبضے میں جا چکی تھیں۔ ہم کمزور ہو چکے تھے‘۔
محمد نذیر اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ساتھی جنگجو محمد یوسف کی لاش گھسیٹتے ہوئے پاکستانی پوسٹ پر پہنچے تھے۔
’اس چوکی پر موجود سنتری نے بتایا کہ اس لاش کو گاؤں تک لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ موجود نہیں۔ پھر کچھ شہری کنٹریکٹرز نے میری مدد کی اور میں یوسف کی لاش اس کے اہل خانہ تک لے جا پایا۔‘
یوسف ایک 23 سالہ نوجوان تھا اور جب وہ جبرالٹر فورس کا حصہ بنا تو اس کی شادی کو ایک برس ہی ہوا تھا۔ ایک جھڑپ میں پسپائی کے دوران یوسف ایک مارٹر گولہ لگنے سے مارا گیا تھا۔
ایک خیال یہ ہے کہ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی نے پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان کو توڑ کر رکھ دیا تھا
ان کا کہنا ہے کہ ’جب وہ دور تھے تو میں ان کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کیا کرتی تھی لیکن پھر ایک دن ان کی لاش آئی۔‘
نسا کے مطابق خدا نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ’اس نے مجھے ایک بیٹا دیا اور ہمت دی کہ میں اسے تعلیم دلواؤں، اس کی شادی کروں اور اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھوں۔‘
یہ لڑائی بظاہر نسا بیگم کو توڑنے میں ناکام رہی لیکن بہت سوں کا کہنا ہے کہ اس نے آپریشن جبرالٹر کی اجازت دینے والے پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔
اس جنگ کے بعد ان کا اقتدار کمزور ہوتا گیا اور تین برس بعد انھیں حکومت چھوڑنا پڑی۔ ایوب خان 1974 میں انتقال کرگئے لیکن اپنے پیچھے عسکری مہم جوئی کا ورثہ چھوڑ گئے۔
1965 میں پاکستانی فضائیہ کی کمان کرنے والے ریٹائرڈ ایئر مارشل نور خان نے ڈان اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ برّی فوج نے ’قوم کو ایک بڑا جھوٹ بول کر گمراہ کیا کہ یہ جنگ پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے چھیڑی تھی اور پاکستان کو اس میں بڑی فتح ملی۔‘
ان کے مطابق اب چونکہ اس ’جھوٹ‘ کی تصحیح نہیں کی گئی اس لیے فوج اپنی ہی بنائی ہوئی کہانی پر یقین کرنے لگی ہے اور غیر ضروری جنگیں لڑ رہی ہے۔‘ ۔
*********
0 comments:
Post a Comment