Ads

Saturday, November 5, 2016

پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے روٹ

Change in Pak-China Economic Corridor (CPEC) route is a test for Pashtun leadership..!
پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے روٹ کی تبدیلی پشتون قیادت کیلئے کسوٹی

کہتے ہیں وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پہ سمجھ نہیں ہوتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا،بحیثیت پشتون ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ آج محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی، آفتاب شیرپاؤ، مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف پشتون قوم کے کتنے خیر خواہ ہیں؟؟ ہمارے مستقبل کے بچاؤ کیلئے وہ کس حد تک جاسکتے؟؟ کیونکہ آج پشتون قوم سے پرائے تریاق کا وہ گھونٹ بھی چھین لیا گیا جس سے ہمارے زہر آلود وجود کا علاج ممکن تھا۔۔۔۔اس میں کوئی دو رائے نہیں رہی کہ پاک چائنا ٹریڈ کاریڈور کا روٹ تبدیل کردیا گیا ہے۔۔۔

پاک چائنا کاریڈور کے روٹ کی تبدیلی کے خلاف سینیٹ سے پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے واک آوٹ، مذکورہ دونوں صوبوں میں سول سوسائٹی کی تحریک، اولسی جرگہ کے تحت پشاور میں تمام سیاسی جماعتوں کے احتجاجی سیمینار یا پھرپختونخوا چیمبر آف کامرس اور پشاور ہائی کورٹ بار کی مخالفانہ قرارداروں، حتی کہ صوبہ پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کی روٹ کو تبدیل نہ کرنے کی قراراد کی منظوری کو بھی جوتی کی نوک پر رکھا گیا اور روٹ کی تبدیلی کے فیصلے پر کوئی نظر ثانی نہیں کی۔۔

حکومتی کا متعصبانہ رویہ انکے بیانات سے واضح ہے جہاں ایک طرف پشتونوں کو طفل تسلیاں دی جارہی ہیں کہ یہ راستہ عارضی طور پر پنجاب سے گزرے گا تو دوسری طرف پرانے روٹ کا کاغذی نقشہ تک دستیاب نہیں اور نہ کسی کو فیزیبیلٹی بنانے کا کہا گیا ہے، پنجابی وزراء الفاظ کی جگالی میں فرما رہے ہیں کہ فی الحال دستیاب روٹ سے منصوبے کا آغاز کردیاجائے گا اور بعدمیں آرام سے اس مختصر روٹ پر آہستہ آہستہ کام ہوگا ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ایک دفعہ متبادل روٹ استعمال کیا جانے لگ جائےاور پھر بعد میں دوبارہ چین مزید اربوں ڈالر خرچ کرکے دوسرا روٹ تعمیر کرے؟؟

پشتون یاد رکھیں یہ راستہ صرف ایک تجارتی راستہ نہ تھا، یہ عالمی معیار کا موٹروے تھا، جدید ریلوے ٹریک تھا،روڈ کے ساتھ ساتھ ہائی سپیڈ فائبر وائر کیبلز کا منصوبہ تھا، جگہ جگہ شمسی توانائی کے میگا یونٹس لگائے جانے تھے، مخصوص کلومیٹرز کے پر صنعتی زونز کی تعمیر تھی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افغانستان کا اس منصوبے میں کچھ سال بعد شامل ہونا ایک لازم جز تھا۔۔۔۔یہ راستہ نہ صرف پشتون علاقوں میں امن کا ضامن تھا بلکہ خوشحالی کا پیش خیمہ بھی۔۔۔مگر افسوس کہ چین کی طرف سے منظور شدہ یہ تجارتی راستہ،پنجابی اشرافیہ کی متعصبانہ سوچ اور پشتون قیادت کی مصلحت آمیز سوچ کی نظر ہو چکا ہے

روٹ کی یہ تبدیلی نام نہاد پشتون لیڈروں، مذہبی و سیاسی اکابرین اور نئے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دعویداروں کے منہ پر نہ صرف ایک طمانچہ ہے بلکہ تاریخ کے اس نازک، مختصر مگر اہم ترین موڑ پر ان سب کے قوت فیصلہ اور حب ملت کیلئے کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔خداوند کریم ہمارا حامی وناصر ہو۔۔۔۔
*********

0 comments:

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |