جب پاکستان نے بھارت کے دس جنگی طیارے تباہ کیے
وہ چھ ستمبر سنہ 1965 کا دن تھا، وقت دوپہر چار بجے اور مقام پاکستان کا پشاور ایئر بیس۔سكوارڈن لیڈر سجاد ’نوذي‘ حیدر پٹھان کوٹ پر فضائی حملہ کرنے کے لیے اپنے ساتھی پائلٹس کو بريف کر رہے تھے۔
اچانک انہوں نے ایک بالٹی میں تازہ پانی طلب کیا اور 4711 نمبر کولون کی بوتل نکال کر اس بالٹی میں انڈیل دی۔
پھر انہوں نے چھوٹے چھوٹے تولیے منگوائے اور انہیں خوشبودار پانی میں ڈبو کر ساتھی پائلٹس کو پکڑا دیا۔
سجاد حیدر ان سے کہا ہو سکتا ہے یہ آپ کا یک طرفہ مشن ہو اور آپ لوٹ کر واپس ہی نہ آئیں۔ میں چاہتا ہوں جب آپ اپنے خالق سے ملیں تو آپ کے اندر سے بہترین خوشبو آنی چاہیے۔‘
ٹھیک ساڑھے چار بجے 8 سیبر جیٹ طیاروں نے پشاور سے ٹیک آف کیا۔ وہ 11000 فٹ کی اونچائی تک گئے اور پھر نیچے غوطہ لگا کر درختوں کی اونچائی کی سطح پر اڑنے لگے۔وارننگ کو نظر اندازکیا
پٹھان کوٹ کی ایئر بیس پر بھارتی جنگی جہازادھر بھارتی ریاست پنجاب کے پٹھان کوٹ کی ایئر بیس پر امرتسر ایئر بیس سے سكوارڈن لیڈر دنڈا کی ایک ارجنٹ ٹیلیفون کال آئی۔
انہوں نے ونگ کمانڈر کورین کو بتایا کہ کچھ سیبر جیٹ طیاروں کوٹیک آف کرنے کے بعد ریڈار کے پردے سے غائب ہوتے ہوئے دیکھاگیا ہے۔
یہ کسی حملے کا اشارہ ہے اور اس پر کورین نے سٹیشن کمانڈرگروپ کیپٹن روشن سوری کو اس خدشہ کے بارے میں آگاہ کیا اور ان سے کیپ یعنی کامبیٹ ایئر پٹرول کی اجازت مانگی۔سوری سے یہاں ایک بڑی غلطی ہوئی۔ انہوں نے کیپ کی اجازت نہیں دی۔مگ 21 شعلوں میں
ٹھیک 5 بج کر 5 منٹ پر پاکستانی سیبر جنگی طیارے پٹھان کوٹ کے اوپر پہنچے۔ اوپر سے انہوں نے دیکھا کہ ایئر بیس پر بہت بڑی تعداد میں بھارتی جنگی طیارے کھڑے ہیں۔
نوذي حیدر نے 500 میٹر کی اونچائی سے بہت سنبھل کر ڈائيو لگائی اور نیچے کھڑے طیارے پر نشانہ لگا کر فكسڈ گن سے حملہ کیا۔پھر انہیں بلکل نئے آئے دو مگ 21 دکھائی دیے۔ اس وقت ان میں ایندھن بھرا جا رہا تھا۔ انہوں نے ان پر بھی نشانہ لگا کر حملہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں نئے طیارے شعلوں میں لپٹ گئے۔
اس گروپ کے باقی پائلٹوں نے بھی ڈائیو لگا کر حملہ کیا۔ انہیں صرف دو بار حملہ کرنے کا حکم ملا تھا لیکن بہت طیاروں کوایک ساتھ دیکھ کر ان کے منہ میں پانی آ گیا اور انہوں نے بھارت کی اس فضائی بیس پر کئی حملے کیے۔ ان کی مزاحمت کرنے کے لیے ایک بھی بھارتی طیارہ اوپر نہیں آیا۔
سب سے اوپر کور دے رہے ونگ کمانڈر تواب نے نیچے کم از کم14 آگ کے گولے پھیلتے ہوئے دیکھے۔
بھارتی ونگ کمانڈر کورین اپنے گھر سے ملحقہ گیراج میں اپنی گاڑی پارک کر رہے تھے کہ انہیں طیارہ تباہ کرنے والی توپ کےگرجنے کی آواز سنائی دی۔
انہوں نے ایئر بیس کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا چار سیبر طیارے نیچے اڑتے ہوئے مشین گن سے گولیاں برسا رہے ہیں اور دو ایف 104 سٹار فائٹر اوپر سے ان کو کور دے رہے ہیں۔
جیسے ہی چار سیبر وہاں سے ہٹے دوسرے چار سیبر طیاروں نے ان کی جگہ لے لی۔ تقریباً اسی وقت جنک کپور اپنے نیٹ کو بلاسٹ پین کے اندر لے جا رہے تھے۔ ایک جونیئر افسر نے چلا کرکہا ’سر اوپر دیکھیے۔ وہ حملہ کر رہے ہیں۔‘
اسی دوران ایک سیبر نے مردیشور کے نیٹ کو بھی بلاسٹ پین میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اس پر گولیوں کی بوچھار کردی۔ مردیشور جہاز سے نیچے کود کر بھاگے اور تبھی انہوں نےدیکھا کہ ان کا نیٹ آگ کے شلعوں میں جل کر راکھ ہو رہا ہے۔
ایئر بیس کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا چار سیبر طیارے نیچے اڑتے ہوئے مشین گن سے گولیاں برسا رہے ہیں اور دو ایف 104
سٹار فائٹر اوپر سے ان کو کور دے رہے ہیں
ادھر 3 سكوارڈن کے فلائٹ لیفٹیننٹ ترلوچن سنگھ اپنا مسٹيرئس جہاز بلاسٹ پین میں پارک کر کے نیچے اتر ہی رہے تھے کہ ایک سیبر نے ان کے جہاز پر حملہ کیا۔ انہوں نے دوڑ کر ایک بنکر میں پناہ لی۔
ان کے دوسرے نمبر کے فلائنگ افسر رسل مونٹیس اب بھی ہوائی جہاز کے اندر تھے اور انہوں نے اپنی سیٹ بیلٹ بھی نہیں کھولی تھی۔ نیچے ایئر مین ان کے جہاز کے پہیے کے نیچے كلاک لگا ہی رہے تھے کہ گولیوں کی ایک برسٹ ان کی طرف آئی۔
ایئر مین نے رسل کی طرف شکایت بھری نظروں سے دیکھا۔انہیں لگا کہ رسل نے ہی غلطی سے پین کے اندر گولیاں چلا دی ہیں۔ بڑی مشکل سے رسل نے اپنی سیٹ بیلٹ کا سٹریپ کھولا۔ جب وہ طیارے سے نیچے اترنے لگے تو انہوں نے پایا کہ ایئر مین نے ان کے طیارے میں سیڑھی ہی نہیں لگائی ہے۔ انہوں نےاپنی جان بچانے کے لیے کاک پٹ سے ہی چھ فٹ نیچے چھلانگ لگائی۔
سبرامنیم آگے لکھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے چار نیٹ فضا میں بھیج دیے ہوتے تو پاکستانی اتنا نقصان نہیں کر پاتےاس وقت پٹھان کوٹ کی بیس کا صرف ایک مسٹيریئس طیارہ ہوا میں تھا۔ اور اسے فلائگ افسر مائیک میکموہن اڑا رہے تھے۔ انہوں نے کچھ روز پہلے ہی ایئر فورس جوائن کیا تھا اور وہ ایک تربیتی مشن پر تھے۔ انہیں ریڈیو ٹریفک نے ہدایت دی کہ وہ پٹھان کوٹ سے دور رہیں اور پاکستانی حملہ مکمل ہونے کے بعد ہی نیچے اتریں۔پاکستانی حملہ آور میكموہن کو نہیں دیکھ پائے۔ وہ بال بال بچے اور بعد میں بھارتی فضائیہ کے ایئر مارشل بنے۔اس وقت پٹھان کوٹ میں تعینات ایئر مارشل راگھویندرن سبرامنیم اپنی سوانح عمری ’پینتھر ریڈ ون‘ میں لکھتے ہیں ’ہم تقریباً چھ سات پائلٹ ایک گڑھے میں ایک کے اوپر ایک لیٹے ہوئے تھے۔ سب سے نیچے والا پائلٹ چلّایا میرا بوجھ سے دم گھٹاجا رہا ہے۔ سب سے اوپر والے پائلٹ نے، جس کی پیٹھ گڑھے کے اوپر دکھائی دے رہا تھی، جواب دیا، مجھ سے اپنی جگہ بدلوگے؟‘
سبرامنیم آگے لکھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے چار نیٹ فضا میں بھیج دیے ہوتے تو پاکستانی اتنا نقصان نہیں کر پاتے۔ اسی دن پاکستانی طیاروں نے ہلوارا اور آدم پور پر بھی حملہ کیا۔ لیکن وہاں بھارتی طیارے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ پاکستانی طیارے ان دونوں ایئر بیس کے اوپر تک سے بھی نہیں گزر پائے۔سارے سیبر کامیاب حملہ کر کے محفوظ نکل گئے۔ اس حملے میں بھارت کے دس طیارے زمین پر ہی تباہ کر دیے گئے۔
سارے سیبر کامیاب حملہ کر کے محفوظ نکل گئے۔ اس حملے میں بھارت کے دس طیارے زمین پر ہی تباہ کر دیے گئے
اس حملے میں شامل ہر ایک پاکستانی پائلٹ کو ’ستارہ جرات‘ جیسے اعزاز سے نوازا گیا۔
ان آٹھ پائلٹس میں سے مشہور گلوکار عدنان سمیع کے والد فلائنگ افسر ارشد سمیع بھی شامل تھے۔
*******
0 comments:
Post a Comment