Ads

Thursday, April 26, 2018

ترکی کی ترک استقلالِ چناکلے (گیلی پولی) کا تاریخی پس منظر


ترکی کی ترک استقلالِ چناکلے (گیلی پولی) کا تاریخی پس منظر

کل 25 اپریل تھا۔ ملت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک روشن ترین دن جب ترکوں نے اپنے لہو سے حریت و شجاعت کی تاریخ رقم کی۔ اس دن کو ترک استقلالِ چناکلے (گیلی پولی) کے طور پر مناتے ہیں۔ برطانیہ، روس، فرانس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں یہ یوم سوگ و شکست ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ 25 اپریل کو یوم آسٹریلیا و نیوزی لینڈ آرمڈ کور ANZACڈے بھی کہتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں نے تاریخ میں پہلی بار ملک سے باہر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا اور شرمناک شکست 
سے دوچار ہوئے۔ 


آج کی تحریر ہمارے نوجوان احباب کیلئےہےجنھیں بار بار یہ بتایا جارہا ہےکہ مسلمانوں کی تاریخ شکست اور پسپائی کے سوا اور کچھ نہیں ۔شام، ایران و ہسپانیہ کی فتوحات، طارق بن زیاد، خالد بن ولید سب افسانوی باتیں ہیں اور جاہل ملا محمد بن قاسم، احمد شاہ ابدالی ومحمودغزنوی جیسے لٹیروں کوجھوٹ کےسہارے ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ Modernize the Islamic Historyکے نام سے انٹرنیٹ پر باقائدہ ایک تحریک جاری ہے۔ اس مختصر تعارف کے بعد اسقلالِ چناکلے کی کہانی۔ بہت سے احباب نے اسے ہماری پوسٹ پر گزشتہ سال بھی پڑھا ہوگا۔
جدید انسانی تاریخ میں عزم وہمت اور گیلی پولی جنگ کو معرکے کے بجائے ایک مکارانہ شب خون کہنا زیادہ مناسب ہوگا جب 103 برس پہلے برطانیہ، روس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس کی 78000 فوج نے ترکی کے جزیرہ نمائے چنا کلے المعروف گیلی پولی پر پانچ سمت سےحملہ کیا۔ اس لشکر کشی کا مقصد قسطنطنیہ (استنبول) پر قبضہ کرکے عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ حملہ آور فوج میں ہندوستان کے گورکھا اور سرزمین فلسطین کے یہودی سپاہی بھی شامل تھے جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ عثمانی سلطنت کے خاتمے پر آزاد اسرائیلی ریاست قائم کردی جائیگی۔25اپریل 1915کو اتحادی فوجوں نے بحر یونان کے راستےپانچ مقامات پر اپنی فوجیں اتاردیں۔ ترک اس حملے کیلئے تیار نہ تھے انکا خیال تھا کہ اتحادی باسفورس اور ڈارڈینیلس کے آبی راستوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ گیلی پولی پر حملہ ہوگا۔ اتحادیوں نے ساحل پر اترتے ہی پانچ اطراف سے ترک فوج کو گھیر لیا جبکہ ساحلوں پر قائم عسکری تنصیبات اور اسلحے کے ذخائر پہلے ہی تباہ کئے جاچکے تھے۔ گیلی پولی پر تعینات ترک فوج کی قیادت مصطفے کمال پاشاکر رہے تھے جو اسوقت ایک لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ گیلی پولی میں بے مثال شجاعت اور بے خوف قیادت ہی نے مصطفےٰ کمال کو اتاترک (ترکوں کا بابائے قوم)بنا دیا حالانکہ اسوقت موصوف کی عمر صرف 34سال تھی۔ مکمل گھیراو ، اسلحے کے ذخائر کی تباہی اور امداد کے راستے مسدود ہوجانے کے باوجود مصطفےٰ کمال نے مضبوط آعصاب اور حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے باسفورس اور ڈارڈینیلس پر قبضہ برقرار رکھا۔ دلچسپ بات کہ سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے اتاترک نے اس مزاحمت کومقدس جہاد قراردیا۔ اتاترک کا وہ تاریخی خطاب آج بھی انکے مقبرے پر قائم عجائب گھر میں موجود ہے جس میں انھوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ" اسلحہ ختم ہوچکا مگر جان ابھی باقی ہے۔ اب لڑنے کا نہیں مرنے کا وقت ہے۔ قسطنطنیہ سے کمک روانہ ہوچکی ہے اور اسکی آمد تک باسفورس اور ڈارڈینیلس کا راستہ کھلا رہنا ضروری ہے جسکے لئے ہمیں اپنی لاشوں سے ایک ناقابل تسخیر دیوار تعمیر کرنی ہوگی۔ رائفلوں میں گولیاں ختم ہوچکیں تو غم کیسا ان پر لگی سنگینیں ابھی قابل استعمال ہیں۔ ہمارے آباواجداد تلواروں ہی سے لڑاکرتے تھے" اور ترک سپاہیوں نےایسا ہی کیا۔ گولیوں اور گولوں کی بوچھاڑ میں وہ سنگینیں سونت کر اتحادی مورچوں میں کود گئے اور اپنی لاشوں کے پہاڑ تعمیر کرکے طوفان کا رخ موڑدیا۔ ترک پیادہ فوج کا ستاونواں رجمنٹ پورا کا پورا ختم ہوگیا اور ان شہدا کے اعزاز میں یہ رجمنٹ آج بھی خالی ہے۔ اسکا نشان اور پرچم پوری شان کے ساتھ لہرارہا ہے لیکن اس رجمنٹ کیلئے فوجی بھرتی نہیں کئے جاتے تاکہ گیلی پولی جہاد کی یاد باقی رہے۔ جس مجاہدانہ کردار اور اسلامی حمیت کا مظاہرہ کمال اتاترک نےگیلی پولی معرکے میں کیا اگر انکی یہ فکر اور نظریاتی سوچ برقرار رہ جاتی تو آج دنیائے اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ترک سپاہیوں کی ناقابل یقین مزاحمت اور خنجرزنی نے اتحادیوں کو خوفزدہ کردیا اور جب قسطنطنیہ سے تازہ دم کمک گیلی پولی پہنچی تو حملہ آوروں کے اعصاب جواب دے گئے۔ بحری جہازوں سے گولہ باری اور ہوائی حملوں کے باوجود اتحادی اپنے مورچوں سے باہر نہ نکل سکے۔ لندن، پیرس، ماسکو، اور آکلینڈ کے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑگئی ۔ برطانوی تکبر جنگ بندی کی راستے میں رکاوٹ بنا رہا لیکن ترکوں کے جان لیوا حملوں نے بالآخر اتحادیوں کی کمر توڑ کر رکھدی اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔ پسپا ہوتی سپاہ پر ترک فوج کے ساتھ موسم کا کوڑا بھی برس گیا۔ دسمبر و جنوری کی شدید ترین سردی اور طوفانی بارشوں نے مغربی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ہزاروں اتحادی اپنے زیرزمین مورچوں ہی میں غرق ہوگئے۔ سردی سے ٹھٹھر کر مرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ آٹھ ماہ کی اس مہم میں اتحادی فوج کا جانی نقصان ڈھائی لاکھ سے زیادہ تھا جبکہ اتنی ہی تعداد میں ترک سپاہی بھی خلافت عثمانیہ کے دفاع میں کام آگئے۔ٓمغرب ہرسال اس عظیم الشان شکست کی یاد مناتا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ جب 2015 میں گیلی پولی کی 100 ویں سالگرہ منائی گئی تو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ترکی کے بجائے لندن کی تقریب میں شرکت کی اور ان درندوں کی قبروں پر پھولوں کی چادر چڑھائی جو محض فتنہ و فساد پھیلانے کی غرض سے ایک آزاد و خودمختار ملک پر حملہ آور ہوئے تھے۔
****************

0 comments:

Post a Comment

 
| Bloggerized by - Premium Blogger Themes |