ہمارےحکمران اوریوم حساب: ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی ایمان تازہ کردینےوالی تحریر
’’یوم حساب‘‘ کو لوگ عموماًیوم قیامت سمجھتے ہیں اور کلام مجید میں بھی اکثر ’’اُس دن‘‘ کا ذکر ہے جس دن سب اللہ رب العزت کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور منکر و نکیر فرشتے ہر شخص کے اعمال پڑھ کر سنائیں گے، جیسا کہ سورۃ کہف میں فرمان الٰہی ہے چھوٹی سی چھوٹی بات بھی چھپی نہ رہے گی اور لوگ گھبرائیں گے، شرمائیں گے، خوفزدہ ہوں گے کہ اب ان کا کچا چٹھا سب کے سامنے ہے اور وہ سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔
یہاں یوم حساب سے میرا اشارہ اس مختصر وقفے سے ہے جہاں ہم کوئی گناہ، کوئی ظلم، کوئی جبر، کوئی جرم کرتے ہیں اور اللہ رب العزت ہمیں (انتباہ کے طور پر) فوراً ہی اس کی سزا دے دیتا ہے اور ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ابھی وقت ہے سنبھل جائو ورنہ روزِ قیامت بہت ہی سخت، شدید، تکلیف دینے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں اس کالم میں کم اور طویل مدّت کے بعد کے حساب کی بات کرہا ہوں۔سورۃ مومن، آیات 16-18 ، 21 میں اللہ رب العزّت نے بنی نوع انسان کو یوم حساب کی شدّتِ تکلیف و عذاب سے متنبہ کیا ہے، ’’آج کے دن ہر شخص کو اسکے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا آج کسی کے حق میں بے انصافی نہیں ہوگی ، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے اور ان کے قریب آنے والے دن سے (اے محمدؐ) ان کو ڈرائو جبکہ دل غم سے بھر کر گلوں تک آرہے ہوں گے اور ظالموں (گنہگاروں) کا کوئی دوست نہ ہوگا اور نہ کوئی سفارش جس کی بات قبول کی جائے گی۔وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو باتیں سینوں میں پوشیدہ ہیں ان کو بھی۔‘‘ کیا اُنھوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا
وہ ان سے زور اور زمین میں نشانات (محلات، باغات وغیرہ) بنانے کے لحاظ سے کہیں بڑھ کر تھے تو اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا اور ان کو اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں تھا‘‘۔ سورۃ البقرہ، آیت 196 میں اللہ رب العزت فرماتا ہے، ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ اعمال بد کی پاداش میں سخت گرفت کرنے والا (اور سخت عذاب دینے والا) ہے۔ہمارے ملک اور قوم کی تباہی کی جو نشانیاں سامنے ہیں ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے یوں اشارہ کیا ہے۔’’جب ہم کسی قوم(ملک) کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال (امیر) لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور اس میں نافرمانیاں (ظلم، بے ایمانی، رشوت ستانی وغیرہ) کرنے لگتے ہیں اور پھر عذاب و تباہی کا فیصلہ اس ملک و قوم پر چسپاں ہوجاتا ہے اور ہم اس کو برباد کرکے رکھ دیتے ہیں (سورۃ بنی اسرائیل، آیت 16)۔ اور اسی طرح ہم ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو (حکمراں) لگا دیتے ہیں کہ وہاں اپنے مَکروفریب کا جال پھیلائیں دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں مگر وہ یہ بات سمجھنے کا شعور نہیں رکھتے ۔ (سورۃ الانعام، آیت 123 )۔
میں یہ چند احکامِ الٰہی موجودہ سیاست دانوں اور موجودہ صورتِ حال کی مناسبت سے پیش کررہا ہوں تاکہ جو اصحاب اقتدار اپنے کئے کی سزا پر سوال کرتے ہیں کہ ان کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔’’ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمھارے لئے یہاں سامان زیست فراہم کیا مگرتم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 10)۔ ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اُسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر (غرور سے) پھول جاتا ہے اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اُس پر اُلٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے‘‘ (یعنی لوگوں سے اور اللہ سے شکایتیں کرنے لگتا ہے) (سورۃ الشوریٰ، آیت 48 )۔ ’’اگر (اے لوگو!) تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘ (سورۃ اِبراہیم، آیت 34 )۔ ’’(اے لوگو!) تمھیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے‘‘ (سورۃ الاحزاب، آیت 55 )۔گناہوں اور ظلم کرنے اور حقوق العباد کی پامالی سے بچنے کے لئے بھی اللہ رب العزت نے بار بار خبردار کیا ہے، منع کیا ہے اور شدید، تکلیف دینے والے عتاب و عذاب سے ڈرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولؐ سے فرمایا،
’’(اے نبی) تم تو اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ اسے مغفرت اوراجر کریم کی بشارت دیدو (سورۃ یٰسین، آیت ۱۱)۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’نصیحت، ہدایت تو عقل و فہم (اور خوف ، ڈر) رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں‘‘ (سورۃ الزُمر، آیت 9 )۔ ناشکری اور احسان فراموشی کے بارے میں حکم اِلٰہی ہے۔ ’’اور جس نے اپنے رب کے سامنے پیش ہونے اور کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا وہ جنت میں جائے گا۔ (سورۃ النّٰزِعٰت، آیات 40-41 )۔(اے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہے (یعنی احکام اِلٰہی پر عمل نہیں کرتا، غیر اخلاقی اعمال میں مبتلا ہے) سو اللہ بھی اُسے ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے خواہ عذاب ہو یا مقررہ ساعت، وہ تب معلوم کرلیں گے کہ کون مرتبے (قوّت، طاقت) میں بڑا ہے اور لشکر کس کا کمزور ہے ۔(سورۃ مریم، آیت 75 )۔ ’’(اے پیغمبر!) کیا آپ نے ان لوگوں (حکمرانوں) کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے میں ناشکری کی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں ڈالا جو دوزخ ہے وہ سب اسی میں داخل ہوں گے
اور وہ واقعی بے حد بُری جگہ ہے رہنے کی۔آپؐ کہدیجئے کہ کچھ مدّت تک دنیا کے نفع (مزے) اُڑا لو پھر تمھیں پھر آگ (دوزخ) کی جانب ہی لوٹنا ہے (سورۃ ابراہیم، آیات 28-30)۔اللہ تعالیٰ نے پھر سخت انتباہ یوں کیا ہے۔ ’’اور تم (حکمرانوں) یہ گمان مت کرو کہ اللہ ان کاموں سے غافل ہے جو ظالم (اصحاب اقتدار، حکمراں) لوگ کرتے ہیں اللہ نے انھیں صرف اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس روز ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ آواز (صور) پر دوڑتے جارہے ہوں گے سر اُٹھائے ہوئے۔ ان کی نظر ان کی طرف لوٹ کر نہ آئے گی اور ان کی حرکت قلب بند ہوجائے گی۔ اور آپ (اے نبی ) ان لوگوں کو اس دن سے ڈرائیے جب عذاب ان پر آپڑے گا پھر یہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا ہوگا (غیراسلامی اعمال کے مرتکب ہوں گے) کہیں گے کہ اے پروردگار ایک قلیل مدّت تک ہمیں اور مہلت دے دے ہم تیرا کہنا مان لیں گے اور تیرے پیغمبروں کا اتباع کریں گے انھیں جواب دیا جائے گا کہ کیا تم اس سے پہلے قسمیں نہیں کھا چکے ہو اس بات پر کہ تمھیں (لوٹ کر) کہیں جانا ہی نہیں ہے۔(سورۃ ابراہیم، آیات 42-45 )۔
اور اللہ پاک نے فرمایا ہے، ’’تو کیا یہ وہ لوگ جو بری تدبیریں (تمام غیراسلامی اعمال کی)کرتے ہیں اس بات سے نڈر ہوگئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے یا ان پر عذاب لے آئے اسی جانب سے جہاں ان کو گمان بھی نہ ہو یا انھیں چلتے پھرے پکڑ لے۔ (سورۃ النحل، آیات 45-47 )۔ دیکھئے اللہ رب العزّت نے کتنے غیرمبہم الفاظ میں ہمیں انتباہ کیا ہے کہ ’’اگر اللہ انسانوں کی (یعنی گنہگاروں، ظالموں کی) ان کی بے انصافیوں (جرائم، گناہوں) پر گرفت کرے تو زمین پر کسی بھی انسان کو نہ چھوڑے لیکن وہ ان کو مہلت دیتا ہے کہ ایک معیادمُعینہ تک کے لئے پھرجب ان کا وقت آجاتا ہے (یعنی ظالموں کے جرائم کا پیالہ بھر جاتا ہے) تو وہ ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘ (سورۃ النحل، آیت61 )۔ اللہ رب العزّت مزید فرماتا ہے، ’’اگر تم احکام الٰہی سے روگردانی کروگے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمھارے بجائے دوسرے لوگوں کو تمہاری جگہ لے آئے گا پھر وہ تمھاری طرح نہ ہوں گے‘‘ (سورۃ محمدؐ، آیت 13 )۔آزمائش و سزا کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے، ’’انسان تو ایسا ہے کہ جب اس کا پروردگار اُسے (اپنے اعمال کی وجہ سے) آزمائش میں ڈالتا ہے پھر اُسے عزّت و نعمت عطا فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے عزّت بخشی،
لیکن جب اُسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ پکار اُٹھتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کردیا۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ یہ ذلّت تمہیں اس لئے نصیب ہوئی ہے کہ تم یتیم (غریب، بیمار، اپاہچ، فاقہ کش) کا خیال نہیں کرتے اور نہ مسافر، خانہ بدوش مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو اور مرنے والوں کا ترکہ کھا جاتے ہو اور مال و دولت سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو‘‘ (سورۃ الفجر، آیات 15-20 )۔یہ تو چند احکامات الٰہی ہیں جن سے ہمارے اصحاب اقتدار، اصحاب مال و دولت اور حکمراں روگردانی کرتے ہیں اور بقول میرے مرحوم بڑے بھائی:ظالموں نے سمجھ یہ رکھا ہے۔۔۔جیسے دنیا میں اب خدا ہی نہیں.حکمرانوں کو چاہئے کہ حضرت عمر فاروقؓ کا نظام حکومت پڑھ لیا کریں، کچھ مطالعہ قرآن کا بمع ترجمہ کرلیاکریں۔ کسی بھی حکمراں کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ کروڑوں غربا کی رہائش، صحت کی ضروریات، خوراک، صاف پانی کے بارے میں سوچیں۔ سب یقیناً یہاں سے جانے کے بعد اللہ کے عتاب کا شکار ہوں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر بغداد میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس و بھوک سے مرگیا تو اللہ کے حضور عمرؓ کو جوابدہی کرنا ہوگی۔ نہ عوام کو کپڑا، نا مکان، نا روٹی، نا نوکری۔ کیا جواب دو گے؟
*************
0 comments:
Post a Comment