مکہ اور خانہ کعبہ کی تاریخ
مکہ
عیسائی مؤرخ لکھتے ہیں کہ مکہ کا ذکر قدیم تاریخ میں کہیں نہیں ملتا، مسلمانوں نے اپنے دین کی وجہ سے اسے مشہور کر رکھا ہے، خیر ان سے کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ زمانہ قدیم سے یہود و نصاریٰ مکہ کی تذلیل کے درپے رہے ہیں لیکن اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے
إن أول بيت وضع للناس للذي ببكة مباركا وهدى للعالمين
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو بکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے۔ـ ترجمہ از محمد جوناگڑھی
اس آیت مبارکہ میں مکہ کا نام بکہ ارشاد ہوا ہے اور مزید یقین دہانی کے لئے اللہ کے گھر کا ذکر بھی ہوا ہے تو اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا کہ خانہ کعبہ جہاں موجود ہے وہی مکہ شہر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے، اس کے علاوہ زبور میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں
بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بتاتے، برکتوں سے مورۃ کو ڈھانپ لیتے، قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔#زبور
زبور قرآن سے بھی پہلے کی الہامی کتاب ہے بلکہ حضرت عیسٰیؑ سے بھی بہت پہلے کی کتاب ہے جس میں مکہ کا وہی نام ملتا ہے جو قرآن میں ملتا ہے یعنی “بکہ”۔ زبور کی اس آیت سے پہلے کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
حضرت داؤد خدا سے فرماتے ہیں اے فوجوں کے خدا، تیرے مسکن کس قدر شیریں ہیں، میرا نفس خدا کے گھر کا مشتاق بلکہ عاشق ہے، اے خدا، تیرے قربان گاہ میرے مالک اور میرے خدا ہیں، مبارکی ہو ان لوگوں کے لئے جو تیرے گھر میں ہمیشہ رہتے ہیں اور تیری تسبیح پڑھتے ہیں۔ #زبور
اس آیت کے بعد وہ آیت ہے جو اوپر بیان ہوئی جس میں بکہ کا نام لیا گیا ہے اور اس سے پہلے جو حضرت داؤد نتے حسرت ظاہر کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا گھر ایک تو قربان گاہ ہے، دوسرے حضرت داؤد کے شہر سے دور ہے اس لئے ان کو سفر کرنا پڑتا ہے اور وہاں جانے کے خواہشمند ہیں اور تہسرے اس جگہ کا نام بکہ ہے چوتھے اس آیت میں مورۃ کا ذکر ہوا ہے جو کہ دراصل وادی مروۃ ہے۔ ثابت ہوا کہ مکہ کی تاریخ قدیم ترین ہے اور عام سے بات ہے جہاں کہیں بھی کسی بھی مذیب سے تعلق رکھنے والوں کا کوئی معبد ہو اس کے آس پاس آبادی ضرور موجود ہوتی ہے اس لئے مکہ نہ صرف ایک قدیم ترین شہر ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی قدیم ترین ہیں۔ یہود و نصاریٰ تو ویسے ہی الفاظ کو ادل بدل کرنے کے ماہر ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:
من الذين هادوا يحرفون الكلم عن مواضعه
ترجمہ: بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں۔
حضرت اسماعیلؑ کو لیکر حضرت ابراہیمؑ مکہ آئے، یہ وقت وہ وقت تھا جب ساری دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی کہیں اللہ کا خالص دین موجود نہ تھا، شرک کا اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا ایسے میں منصبِ نبوت پر فائض ہونے کے جب حضرت ابراہیمؑ نے جب کلدان میں وحدہ لاشریک لہ کی صدا بلند کی تو جواب میں آگ کے شعلے سامنے تھے، مصر آئے تو خطرات نے گھیر لیا، فلسطین چلے گئے وہاں کسی نے حال تک نہ پوچھا، پیچھے صرف حجاز کا صحرا بچا جہاں تک شرک کا اندھیرا نہ پہنچا تھا، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو لیکر مکہ پہنچے۔ حضرت اسماعیل جوان ہوئے تو منصبِ نبوت میں ایک مزید ہاتھ کا اضافہ ہوا اور پھر خانہ خدا کی بنیاد ڈالی گئی۔
خانہ کعبہ
وإذ يرفع إبراهيم القواعد من البيت وإسماعيل ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم
ترجمہ: ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں کوئی آباد نہ تھا، اعلان کے ذرائع اس وقت تھے ہی نہیں ایسے میں وحی آتی ہے کہ
وأذن في الناس بالحج يأتوك رجالا وعلى كل ضامر يأتين من كل فج عميق
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اعلان و اشتہار کے وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ صدا کہاں کہاں پہنچی اس بات کی گواہ آج ساری دنیا ہے۔خانہ کعبی کی پہلی تعمیر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنے ہاتھوں سے کی اور پہلی تعمیر، روایات کے مطابق کچھ اس طرح سے تھی
زمین سے چھت تک اونچائی: 9 گز
طول: ہجرِ اسود سے رکنِ شامی تک: 32 گز
عرض: رکنِ شامی سے غربی تک: 22 گز
اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ مجھے ایک پتھر لا دو جسے میں نصب کر دوں کہ نشانی ہو کہ لوگ طواف کہاں سے شروع کریں۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کی برکت سے لوگ مکہ میں آکر آباد ہونا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے قبیلہ جرہم آباد ہوا جس قبیلہ میں حضرت اسماعیلؑ نے مضاض بن عمرو جرہمی کی بیٹی سے شادی کی، ان سے حضرت اسماعیلؑ کے بارہ بچے ہوئے۔حضرت اسماعیلؑ کے بات ان کے بیٹے نابت نمے کعبہ کی تولیت شروع کی لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے نانہ مضاض کعبہ کے متولی ہوئے اور کعبہ کی تولیت خاندانِ اسماعیلؑ سے نکل کر خاندانِ جرہم میں منتقل ہو گئی۔ان کے بعد قبیلہ بنو خزاعہ آیا جس نے کعبہ پر قبضہ کر لیا اور عرصے تک اس کے متولی رہے، حضرت اسماعیلؑ کا خاندان موجود تھا لیکن انہوں نے مزاحمت نہ کی، اس کے بعد قصی بن کلاب کا زمانہ آیا تو کعبے کی تولیے واپس خاندانِ اسماعیلؑ کے پاس آگئی۔انہی کے زمانے میں خانہ کعبہ کی پرانی عمارت کو گرا کر از سرِ نو تعمیر کی گئی، پہلی عمارت جو حضرت ابراہیم کے زمانہ میں تعمیر ہوئی اس کی کوئی چھت موجود نہ تھی نہ ہی کوئی دروازہ موجود تھا۔ قصی بن کلاب نے جب دوبارہ تعمیر کی تو کھجور کے پتوں کی چھت خانہ کعبہ پر رکھی گئی۔
خانہ کعبہ پر یمن کے حمیری بادشاہ اسعد تبع نے چادر چڑھائی جو کہ یمن کی خاص چادریں جنہیں “برو یمانی” کہا جاتا ہے پر مشتمل تھیں۔قصی بن کلاب کے زمانے سے حدودِ کعبہ میں موجود تمام قبائل پر ایک محصول لگا دیا گیا جس سے ہر سال یہ چادریں یا جسے آج غلاف کہتے ہیں تیار ہوتا تھا۔9 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو آپ ﷺ نے خانہ کعبہ میں موجود تمام بُت پاش پاش کر ڈالے اور خانہ کعبہ کو پاک کر کے حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ کو خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا۔عہدِ نبویﷺ اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں خانہ کعبہ ایک عمارت سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا، اس کو مسجدِ حرام کا نام دیا جاتا تھا جو کہ در اصل اسلام سے قبل کا نام ہے لیکن فتح مکہ کے بعد سے لیکر اموی دور تک مسجدِ الحرام اسلام کی سب سے اہم مسجد بن چکی تھی۔ پھر اموی دور آیا تو عبدالملک بن مروان نے 36 ہزار اشرفیاں کعبے کی تزین و آرائش کے لئے بھیجیں.اس سے قبل خانہ کعبہ مسجد الحرام کے درمیان ایک کھلی جگہ پر مشتمل ایک عمارت تھی، عبدالملک بن مروان کے دور میں خانہ کعبہ سمیت تمام مسجد کی تزین و آرائش کی گئی، چاردیواری اونچی کی گئی اور چھت کو از سرِ نو تیار کیا گیا، آٹھویں صدی تک خانہ کعبہ اور مسجد سے لکڑی کا پرانہ کام تقریباً ختم ہو چکا تھا اور اس کی جگہ سنگِ مر مر نے لے لی تھی، ساتھ ہی ساتھ مسجد میں میناروں کا اضافہ بھی کیا گیا۔اموی دور میں اسلام یورپ اور افریقہ کے دور دراز علاقوں تک پھیل چکا تھا اور خانہ کعبہ کی طرف آنے والے عازمینِ حج اور عمرہ کی ادائیگی کے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا تھا جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسجد میں مزید جگہ شامل کی گئی اور تین مزید میناروں کی تعمیر کا حکم دیا گیا۔ کعبہ کی تزین و آرائش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی چنانچہ جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کا زمانہ آیا تو انہوں کے کعبہ کے ستونوں پر سونے کے پتر چڑھائے۔ ، خلیفہ امین الرشید نے 18 ہزار اشرفیاں بھیجیں تا کہ خانہ کعبہ میں دروازہ اور چوکھٹ وغیرہ طلائی کی بنوا دی جائے۔
1570ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان سلیم دوئم نے اس وقت کے مشہور معمار سنان پاشا کو خانہ کعبہ اور مسجدِ حرام کی تعمیر اور تزین و آرائش کا حکم دیا۔ مسجد سے سادہ چھتیں ختم کر کے گنبدوں کا اضافہ کیا گیا جن کے اندر اسلامی خطاطی کی گئی جو سلطنتِ عثمانیہ کی تعمیر کا شاہکار تھے۔پرانے ستونوں کی جگہ نئے ستون تعمیر کئے گئے جو مسجد کے موجودہ ڈیزائن میں اب تک شامل ہیں۔1621ء سے 1629ء کے درمیان میں مکہ میں شدید سیلاب آئے جنہوں نے مسجد کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی دیواروں کو بھی متاثر کیا۔ عثمانیہ سلطنت کے سلطان مُراد چہارم نے مسجد اور خانہ کعبہ اور مسجد کی تزین و آرائش کا حکم دیا، تمام تر فرش پر سنگِ مر مر دوبارہ نصب کیا گیا، تین مزید مینار شامل گئے اور یوں مسجد میں میناروں کی کُل تعداد سات ہو گئی۔
تین صدیوں تک مسجد اسی طرز پر موجود رہی یہاں تک کہ 1955 میں سعودی حکومت نے مسجد میں توسیع کا کام شروع کیا۔ پرانے فرش ختم کر کے مصنوعی پتھر اور نیا سنگِ مر مر نصب کیا گیا، صفہ و مروہ کو باقاعدہ طور پر مسجد کا حصہ بنا دیا گیا اور عازمین کی سہولت کے لئے صفہ اور مروہ کو ایک گیلری میں تبدیل کر کے اسے چھت سے ڈھانپ دیا گیا۔اس توسیع میں عثمانی دور کے ستونوں کو ختم کر دیا گیا۔چار مزید مینار شامل گئے اور یوں میناروں کی تعداد 11 تک پہنچ گئی۔1982ء سے 1988ء تک مسجد میں مزید توسیع کی گئی اور مسجد میں ایک نیا حصہ شامل کیا گیا جسے بابِ فہد کا نام دیا گیا۔تسیری توسیع 1988ء سے 2005ء تک چلتی رہی جو کہ بیک وقت منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں شروع ہوئی، مسجد میں نمازیوں کے لئے مزید جگہ شامل کی گئی، مزید اٹھارہ دروازوں کا اضافہ ہوا اور تین مزید گنبد شامل کئے گئے۔ ساتھ ساتھ پانی کا جدید نظام، گرمی میں ایئر کنڈیشننگ کا جدید نظام شامل کیا گیا۔
موجودہ وقت میں بھی مسجد کی توسیع کا کام جاری ہے جو کہ 2007ء میں شروع ہوا تھا اور جس کے مکمل ہونے کا اندازہ 2020ء تک لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ توسیع کے خاتمے تک مسجد میں بیس لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔مسجد کی جگہ تین لاکھ چھپن ہزار مربع میٹر سے بڑھا کر چار لاکھ مربع میٹر کی گئی ہے، دو نئے مینار شامل کئے گے اور ایک مزید دروازہ شامل ہوگا، مطاف (کعبہ کے گرد وہ جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے) میں بھی توسیع کی جائے گی اور جتنی بھی جگہ بند ہے اسے گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کئے ایئر کنڈیشننگ کا جدید نظام نصب کیا جائے گا۔
خانہ کعبہ وحدانیت کا شاہکار ہے، ویران اور بنجر صحرا میں جس عمارت کی تعمیر دو افراد نے کی تھی آج وہاں پچاس لاکھ افراد سالانہ صرف حج کی غرض سے آتے ہیں اس کے علاوہ عمرہ ادا کرنے والوں کی سالانہ تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ خانہ کعبہ، اسلام کا قبلہ ہے دنیا بھر کی تمام مساجد اسی کا رخ کرتی ہیں اور مسلمان دن میں پانچ بار ایک اللہ کی عبادت کے لئے اسی جانب منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم بالثواب۔
***************
0 comments:
Post a Comment