اب دوسرا لالہ نہیں آئے گا
شارجہ میں جب شاہد آفریدی نے یہ واضح کیا کہ اب ان کا انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا کوئی ارادہ نہیں، تو یہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں تھی محض ایک طے شدہ حقیقت کا اعتراف تھا۔
20 سال سے زیادہ عرصے پہ محیط اس کریئر کا آغاز جتنا ڈرامائی تھا، انجام اتنا ہی غیر دلچسپ ثابت ہوا۔ شاید یہ فیصلہ شاہد آفریدی کو کچھ سال پہلے کر لینا چاہیے تھا۔
ایسا نہیں کہ انہوں نے پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی ہو۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مواقع پہ دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں مگر اس بار ان کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
اگر اعدادوشمار سے ہٹ کر دیکھا جائے تو آفریدی نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین کریئر دیکھا ہے۔ ان کی فارم جو بھی رہی، قوم نے ہمیشہ اپنی امیدیں انھی سے وابستہ رکھیں۔ کوئی بھی میچ ہو، دنیا کا کوئی بھی میدان ہو، خطرناک سے خطرناک بولر سامنے ہو لیکن آفریدی کے کریز پر آتے ہی ایسا لگتا تھا کہ کچھ انہونی سی ہونے کو ہے۔
عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب ایک کھلاڑی مسلسل تین چار میچوں میں کارکردگی نہ دکھا پائے تو لوگ اس سے مایوس ہونے لگتے ہیں، ٹیم میں اس کی جگہ پہ سوال اٹھنے لگتے ہیں اور کرکٹ شائقین بھی اسے بھولنے لگتے ہیں مگر آفریدی کے مداحوں نے اس مسلمہ اصول کو بھی غلط ثابت کر دکھایا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ آج سے دس سال پہلے پوری قوم آفریدی کو پسند کرتی تھی۔ جس ٹیم میں انہوں نے ڈیبیو کیا، وہ بڑے ناموں سے بھری ہوئی تھی اور آفریدی پہ زیادہ ذمہ داریاں نہیں تھی مگر جوں جوں وہ بڑے نام ایک ایک کر کے ڈریسنگ روم سے رخصت ہوتے گئے، آفریدی پر ذمہ داری کا بوجھ پڑتا گیا اور ان کی فارم اس بوجھ تلے ماند پڑتی گئی۔
جس دور میں آفریدی نے ون ڈے کی تیز ترین سینچری بنائی تب نہ تو کوئی پاور پلے ہوا کرتے تھے، نہ دونوں اینڈ سے نئے گیند استعمال ہوتی تھی اور نہ ہی اس طرح کے بیٹ موجود تھے جو آج کرس گیل، ڈی ویلیئرز اور وارنر جیسوں کے پاس ہیں اور پھر وہ سینچری ہی آفریدی کی پہچان بن گئی۔
کرکٹ سٹارڈم کو اگر ٹی وی ریٹنگز کے پیرائے میں دیکھا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جیسے ایک ٹی وی پروڈیوسر کی مجبوری ہوتی ہے کہ اسے کوالٹی سے قطع نظر صرف ریٹنگ پیدا کرنی ہے، ویسے ہی کرکٹ سٹارز کو بھی میچ کی صورت حال اور ٹیم کی ضروریات سے ماورا ہو کر صرف اپنی گیم کرنا پڑتی ہے۔
آفریدی کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ ایک طرف ٹیم کی ضروریات تھیں اور دوسری طرف مداحوں کی خواہشات۔ آفریدی نے زیادہ تر مداحوں کی خواہشات کا ہی احترام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کہیں میچ ہو رہا ہو اور آفریدی بیٹنگ پر آئیں تو سبھی اچانک سکرین کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن اس لیے نہیں کہ لالہ میچ جتائے گا، انتظار ہوتا ہے تو صرف اس بات کا کہ آج لالہ کتنے چھکے لگائے گا۔
مگر ہمیشہ ایسا بھی معاملہ نہیں رہا۔ کئی مواقع پہ آفریدی نے توقعات سے کہیں بڑھ کر ذمہ داری کا ثبوت بھی دیا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009 کے سیمی فائنل اور فائنل میں جو اننگز آفریدی نے کھیلیں، وہ نہ صرف ان کے اپنے کریئر کی بلکہ بحیثیت مجموعی آئی سی سی ایونٹس میں بھی کسی پاکستانی کی بہترین اننگز تھیں۔
یہ بات گو بحث کی متقاضی ہے کہ کیا آفریدی نے اپنے ٹیلنٹ سے بھرپور انصاف کیا یا نہیں؟
ایشیا کپ کے میچ میں پاکستان اور بھارت مدمقابل ہیں۔ آخری اوور میں جیت کے لیے دس رنز درکار ہیں اور شاہد آفریدی کریز پر موجود ہیں، کروڑوں شائقین کی سانسیں رکی ہوئی ہیں۔ ایشون آئے، پہلی بال پہ سعید اجمل بولڈ ہوئے، دوسری پہ جنید خان نے سنگل لیا اور آفریدی سٹرائیک پر آ گئے۔
تیسری اور چوتھی گیند کہاں سے آئی کیسے آئی، نہیں یاد۔ یاد ہے تو بس اتنا کہ چوتھی گیند پہ جب آفریدی نے بلا گھمایا تو دس سیکنڈز کے لئے گویا پوری دنیا میں خاموشی چھا گئی۔ اور اس سکوت کو توڑا رمیز راجہ کی آواز نے۔۔۔۔ "آفریدی! یو بیوٹی"
یہ تھا وہ آفریدی جو ان کے مداح دیکھنا چاہتے تھے اور آفریدی نے بھی اپنا کریئر ویسا ہی گزارا جیسا ان کے مداح انھیں دیکھنا چاہتے تھے۔
مگر اب شاید یہ قوم ایسا کوئی کریئر نہیں دیکھنا چاہے گی اور اب کوئی دوسرا لالہ بھی نہیں آئے گا۔
سمیع چوہدری
کرکٹ تجزیہ کار
بی بی سی اُردو
0 comments:
Post a Comment