اور رواج کا ڈھکوسلہ FCR
جب بھی فاٹا کی انتظامی حیثیت کے تعین کا مرحلہ آتا ہے تو فاٹا کی جعلی قیادت، مخصوص فرمائشی قلمکار اور مفاداتی ٹولہ سب مل کر مختلف اطراف سے دو طرح کا ڈھول پیٹنا شروع کردیتے ہیں اول یہ کہ "ایف سی آر میں ہمارے رواج اور جرگے کا تحفظ ہے، اس کے خاتمے کا مقصد، ہماری ثقافت، رواج اور جرگے کاخاتمہ ہے"، دوئم عدالتی نظام اور تھانہ کچہری کی چمڑی میں ہوا بھرکر آئین پاکستان سے عام قبائلی کو ڈرایا جاتا ہے نتیجتا عام قبائلی تذبذب کا شکار ہے اور جعلی قیادت خودساختہ ترجمان قبائل بن کرخوب مفادات بٹوررہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام مثالی نہیں رہا اور نہ ہے، تاہم FCR اور آئین پاکستان کے افتراق کا راز ثقافتی جڑوں میں پنہاں ہے،یہ حقیقت ریکارڈ پر رہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں ثقافتی جڑیں مضبوط ہیں وہاں تھانہ، کچہری اور عدالت سے عوام کا رجوع بلکل نہ ہونے کے برابر ہے، مثلاسندھی قبائل تالپور،سومرو،شیرلانی گبول،مجوکہ، پلیجو‘ زرداری‘ ابڑواور بھٹووغیرہ،بلوچ قبائل جکھرانی، بزنجو، بگٹی، رئیسانی،رند،کورائی،مری،مینگل‘ بادینی، جمالدینی،پرکانی،لہڑی،لغاری،محمد حسنی،کرد،نوتکانی یا نتکانی،چنگواني وغیرہ اور بلوچستان کے پشتون قبائل کاکڑ‘خلجی‘غوری‘اچکزئی، گلزائی، ترین،مندوخیل،شیرانی اور لیونی وغیرہ حتیٰ کہ سرائیکی قبائل یعنی آرائیں، احمدنی، میانہ، میو، چدھڑ وغیرہ تک اپنے فیصلے جرگوں کے ذریعے کرتے ہیں،بلوچ اور سندھی قبائل کے جرگوں کی ثقافتی جڑوں، انکی Implementation کا تفصیلی ذکرمصنف ڈیمز کی کتاب “دی بلوچ ریس” اور مصنف گینکووسکی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں درج ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے جرگے اپنے رواج کے عین مطابق بعینہی فاٹا کے جرگوں کی طرح کام کرتے ہیں،مذکورہ صوبوں میں جرگوں کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری ریسٹ ہاؤسوں میں باوجود سپریم کورٹ کی طرف سے پابندی کے متواتر جرگے جاری رہتے ہیں، جن میں متحارب قبیلوں کے وہ افراد جنہوں نے درجنوں قتل کئے ہوتے ہیں مونچھیں مروڑتے ہوئے شریک ہوتے ہیں، قتل کے عوض قتل اور لاکھوں کروڑوں روپوں کے جرمانے مقرر کئے جاتے ہیں، فیصلہ کنندگان وڈیروں اور سرداروں اور اوطاقوں کے خرچ کی بھاری رقوم بخوشی دی جاتی ہیں، پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسر (آئین پاکستان کے لاگو کنندہ ذمہ دار افسران ہونے کے باوجود) علاقائی ثقافت کی مضبوطی کی بناء پر نہ صرف بطور جرگہ ممبر شریک ہوتے ہیں، بلکہ جرگہ کے فیصلوں کا احترام، توثیق اور لاگو کرنے کیلئے علاقائی سرپنچوں اور مشران کی مدد کرتے ہیں۔ یعنی جرگے کا تحفظ ایک مضبوط ریاستی ادارہ "پولیس" کرتی ہے۔ یہی حال چترال اور گلگت بلتستان کا ہے، جہاں مختلف اقوام حتی کہ مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ،یعنی خوشے،کالاش،رئیسے،بایکے،ڈنزے،حاتم بیگے،رضے،دشمنے وغیرہ،تاہم انکے فیصلے آج بھی جرگوں کے ذریعے ہورہے ہیں، وجہ صرف اور صرف ثقافتی جڑوں کی مضبوطی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کے دیگرعلاقوں میں رواج اور آئین پاکستان اکھٹے چل سکتے ہیں، تو فاٹا میں کیوں
نہیں؟
کیا بندوبستی علاقوں کے کاکڑ‘خلجی‘غوری‘اچکزئی، گلزائی، ترین،مندوخیل اور شیرانی قبائل کا رواج فاٹا کے پشتونوں سے مختلف ہے؟
**************
0 comments:
Post a Comment