What is China Pakistan Economic Corridor (CPEC) and what is the Issue..?
اکنامک کاریڈورکیا ہےاوراصل مسئلہ کیا ہے؟
پاک چین اکنامک کاریڈور اس وقت دنیا کے چند بڑے پراجیکٹس میں سے ایک ھے جس پر مجموعی طور پر 45 بلین ڈالر سے زائد لاگت آئے گی اور جس میں کم از کم 4 ممالک بشمول چائنہ، پاکستان، روس اور ایران کسی نہ کسی طریقے سے شامل ہونگے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی حالت بدل سکتا ہے اور چائنہ کیلئے تو اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ھے کیونکہ یہ نہ صرف چین کو معاشی فوائد دے گا بلکہ دفاعی نقطہ نگاہ سے بھی 'لیوریج' دے گا۔ اسی وجہ سے چین نے کاریڈور پراجیکٹ کو اپنے 16ویں پانچ سالہ ڈیویلپمنٹ پلان میں ایک کلیدی پراجیکٹ کے طور پر شامل کرلیا ہے۔
اس پراجیکٹ کا سنٹرل آئیڈیا ھے گوادر کی پورٹ کو چائنہ سے ملانا تاکہ اسے اپنی انڈسٹریل، کنزیومراور دفاعی ٹریڈ کیلئے ایک سستا، تیز، محفوظ اور آسان ترین راستہ فراہم ہوسکے۔
اس منصوبے کو آپ مختلف ایریاز میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم حصہ ھے ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر جس میں سڑکیں، موٹرویز اور ریلوے نیٹ ورک بنے گا۔
دوسرا اہم ایریا ھے انرجی انفراسٹرکچر جس میں کاریڈور کے مختلف مقامات پر بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹس لگیں گے، اور ان کے ساتھ ساتھ گیس اور تیل کی پائپ لائنز بچھائی جائیں گی جو ایران، روس، سنٹرل ایشیا اور قطر تک جائیں گی۔
منصوبے کا تیسرا اہم ایریا ھے گوادر پورٹ کی ڈیویلپمنٹ، توسیع اور مکمل آپریشنل ہونا۔ چونکہ چین گوادر کو اپنی "ایکسٹینڈڈ" پورٹ کے طور پر لے رہا ھے، اس لئے وہ اسے دبئی پورٹ سے زیادہ فعال اور جدید بنائے گا۔
تو پھر مسئلہ کیا ھے؟ پرویزخٹک کی حکومت اس پراجیکٹ پر اعتراضات کیوں کررہی ھے؟ اس کا جواب جاننے کیلئے
تھوڑا ماضی میں چلیں
١٩٨٨ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی 11 سال بعد میدان سیاست میں آئی اور انتخابی مہم کے دوران اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ الیکشن جیت جائے گی۔ اس وقت نوازشریف بینظیر کا سب سے بڑا مخالف بن کر ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھٹو مخالف ووٹ کو اپنی گرفت میں کرلیا۔ اس وقت اخبارات میں آئی جے آئی کی طرف سے ایک اشتہار چھپتا تھا جس میں نوازشریف کی تصویر ہوتی تھی جس میں وہ پنجابی پگڑی پہن کر ایک ہاتھ اٹھائے کھڑا ھے اور نیچے کیپشن ہوتی تھی "جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگیا داغ"
اس تصویر سے نوازشریف کو کوئی فائدہ ہوا یا نہیں، صوبائی تعصب گہرا ہوگیا اور سندھیوں نے جی بھر کر بی بی کو ووٹ دے دیئے۔
الیکشن کے بعد نوازشریف نے پنجاب کارڈ مزید کھیلا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی صوبے نے اپنا علیحدہ پنجاب بنک بنا لیا اور صوبائی فنانشل ٹرانزیکشنز نیشنل بنک سے نکال کر پنجاب بنک کے حوالے کردیں۔ کیوں؟ کیونکہ نوازشریف سندھ کے مقابلے مٰیں پنجاب کا ووٹ اکٹھا کر رپا تھا اور سیاسی حوالے سے یہ بالکل درست سٹریٹیجی تھی۔
حالیہ سالوں میں شریف برادران کو پاکستان میں ووٹ لینے کی ٹیکنیک سمجھ آچکی ھے۔ مہنگے اور غیرضروری ہی سہی، جاہل عوام موٹروے، میٹرو، اورنج ٹرین، لیپ ٹاپ اور سستی روٹی سکیموں پر ووٹ دیتی ہیں۔ اکنامک کاریڈور کا سارا پیسہ چائنہ دے رہا ھے، اس پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ جو پراجیکٹس حکومت پاکستان نے شروع کرنے ہیں، ان کیلئے 15 بلین ڈالر کا تقریباً بلا سود قرض بھی چائنہ فراہم کرے گا۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہ رقم کاریڈور کے ان علاقوں پر خرچ ہوتی جہاں پسماندگی زیادہ ھے، جہاں دہشتگردی سے انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ھے جس کی وجہ سے انتہاپسندی بڑھتی جارہی ھے لیکن اس خودغرض سیاسی سوچ کا کیا کہیں جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ سوچ شریف برادران کو مجبور کررہی ھے کہ 16 بلین ڈالر کے تمام پراجیکٹس پنجاب کے جی ٹی روڈ پر واقع شہروں یا پھر پنجاب ہی کے ان مقامات پر لگ رہے ہیں جہاں سے شریف برادران اپنے ووٹ پکے کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی طور پر یہ درست سٹریٹیجی ھے کیونکہ جو پنجاب سے جیتتا ھے، مرکز میں حکومت وہی بناتا ھے، اس کا ثبوت 2013 کے انتخابات ہیں۔
اب اگر منصوبہ پورے پاکستان کیلئے بنے اور پھل دار درخت پنجاب میں اپنے ووٹ کیلئے لگائے جائیں اور دوسرے صوبوں کے حصے میں صرف گھاس اور خاردار جڑی بوٹیاں آئیں تو کیا وہ اپنے صوبے کے عوام کو بھوکا رکھ کر پنجاب کو پھلتا پھولتا دیکھیں گے؟
اگر 1988 میں بینظیر کے متوقع وزیراعظم بننے سے نوازشریف پنجابیوں کو ان کی پگ پر داغ لگنے سے ڈراتا ھے تو 2016 کا پرویزخٹک کیا علی باغ سے آیا ھے جو ایک سوکھی سڑک لے کر نوازشریف کو اگلے 10 سالوں کیلئے اپنا ووٹ بنانے کی اجازت دے ڈالے؟
میاں صاحب، جس صوبائی تعصب کو آپ اپنی سیاسی حکمت عملی کہتے ہیں، وہی حکمت عملی اب پرویزخٹک بھی استعمال کرے گا اور سیاسی حوالے سے یہ اس کا بالکل درست فیصلہ ہوگا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پچھلے دس دنوں کے اندر اندر پرویزخٹک نے پختون خواہ کا وہ ووٹر بھی اپنے ساتھ ملا لیا ھے جو کبھی اے این پی اور دوسری قوم پرست جماعتوں کا تھا؟
اس منصوبے کو کالاباغ ڈیم بننے سے روکنا ہوگا اور اس کا واحد حل صرف اور صرف یہ ھے کہ کیک کا ایک حصہ خیبرپختون خواہ، بلوچستان اور سندھ کو بھی دیا جائے۔ آخر یہ صوبے بھی ہمارے صوبے ہیں، یہاں کے عوام بھی ہمارے عوام ہیں، ان کی معاشی بہتری کی ذمے داری بھی نوازشریف پر عائد ہوتی ھے کیونکہ وہ پنجاب کا وزیراعظم نہیں بلکہ پورے ملک کا ھے۔
ایک بات یاد رکھیں، چین اپنا ایک ڈالر بھی کسی متنازعہ منصوبے پر نہیں لگائے گا۔ اگر اسے لگا کہ سیاسی طور پر اس منصوبے میں مسائل ہیں تو وہ پورا کاریڈور اٹھا کر کسی اور ملک لے جائے گا۔
یہ فیصلہ نوازشریف کو کرنا ھے اور وہ پاکستان کیلئے تبھی بہتر فیصلہ کرسکتا تھا اگر اس کی اولاد پاکستان میں ہوتی اور ان کے مستقبل پاکستان میں ہوتے۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ وہ لندن میں ہیں، نوازشریف پورا کیک کھانے کی کوشش کرے گا یا پھر پورا کیک کچرے میں ڈال دے گا۔
مؤرخ دیکھ رہا ھے....!!!
اس تصویر سے نوازشریف کو کوئی فائدہ ہوا یا نہیں، صوبائی تعصب گہرا ہوگیا اور سندھیوں نے جی بھر کر بی بی کو ووٹ دے دیئے۔
الیکشن کے بعد نوازشریف نے پنجاب کارڈ مزید کھیلا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی صوبے نے اپنا علیحدہ پنجاب بنک بنا لیا اور صوبائی فنانشل ٹرانزیکشنز نیشنل بنک سے نکال کر پنجاب بنک کے حوالے کردیں۔ کیوں؟ کیونکہ نوازشریف سندھ کے مقابلے مٰیں پنجاب کا ووٹ اکٹھا کر رپا تھا اور سیاسی حوالے سے یہ بالکل درست سٹریٹیجی تھی۔
حالیہ سالوں میں شریف برادران کو پاکستان میں ووٹ لینے کی ٹیکنیک سمجھ آچکی ھے۔ مہنگے اور غیرضروری ہی سہی، جاہل عوام موٹروے، میٹرو، اورنج ٹرین، لیپ ٹاپ اور سستی روٹی سکیموں پر ووٹ دیتی ہیں۔ اکنامک کاریڈور کا سارا پیسہ چائنہ دے رہا ھے، اس پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ جو پراجیکٹس حکومت پاکستان نے شروع کرنے ہیں، ان کیلئے 15 بلین ڈالر کا تقریباً بلا سود قرض بھی چائنہ فراہم کرے گا۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہ رقم کاریڈور کے ان علاقوں پر خرچ ہوتی جہاں پسماندگی زیادہ ھے، جہاں دہشتگردی سے انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ھے جس کی وجہ سے انتہاپسندی بڑھتی جارہی ھے لیکن اس خودغرض سیاسی سوچ کا کیا کہیں جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ سوچ شریف برادران کو مجبور کررہی ھے کہ 16 بلین ڈالر کے تمام پراجیکٹس پنجاب کے جی ٹی روڈ پر واقع شہروں یا پھر پنجاب ہی کے ان مقامات پر لگ رہے ہیں جہاں سے شریف برادران اپنے ووٹ پکے کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی طور پر یہ درست سٹریٹیجی ھے کیونکہ جو پنجاب سے جیتتا ھے، مرکز میں حکومت وہی بناتا ھے، اس کا ثبوت 2013 کے انتخابات ہیں۔
اب اگر منصوبہ پورے پاکستان کیلئے بنے اور پھل دار درخت پنجاب میں اپنے ووٹ کیلئے لگائے جائیں اور دوسرے صوبوں کے حصے میں صرف گھاس اور خاردار جڑی بوٹیاں آئیں تو کیا وہ اپنے صوبے کے عوام کو بھوکا رکھ کر پنجاب کو پھلتا پھولتا دیکھیں گے؟
اگر 1988 میں بینظیر کے متوقع وزیراعظم بننے سے نوازشریف پنجابیوں کو ان کی پگ پر داغ لگنے سے ڈراتا ھے تو 2016 کا پرویزخٹک کیا علی باغ سے آیا ھے جو ایک سوکھی سڑک لے کر نوازشریف کو اگلے 10 سالوں کیلئے اپنا ووٹ بنانے کی اجازت دے ڈالے؟
میاں صاحب، جس صوبائی تعصب کو آپ اپنی سیاسی حکمت عملی کہتے ہیں، وہی حکمت عملی اب پرویزخٹک بھی استعمال کرے گا اور سیاسی حوالے سے یہ اس کا بالکل درست فیصلہ ہوگا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پچھلے دس دنوں کے اندر اندر پرویزخٹک نے پختون خواہ کا وہ ووٹر بھی اپنے ساتھ ملا لیا ھے جو کبھی اے این پی اور دوسری قوم پرست جماعتوں کا تھا؟
اس منصوبے کو کالاباغ ڈیم بننے سے روکنا ہوگا اور اس کا واحد حل صرف اور صرف یہ ھے کہ کیک کا ایک حصہ خیبرپختون خواہ، بلوچستان اور سندھ کو بھی دیا جائے۔ آخر یہ صوبے بھی ہمارے صوبے ہیں، یہاں کے عوام بھی ہمارے عوام ہیں، ان کی معاشی بہتری کی ذمے داری بھی نوازشریف پر عائد ہوتی ھے کیونکہ وہ پنجاب کا وزیراعظم نہیں بلکہ پورے ملک کا ھے۔
ایک بات یاد رکھیں، چین اپنا ایک ڈالر بھی کسی متنازعہ منصوبے پر نہیں لگائے گا۔ اگر اسے لگا کہ سیاسی طور پر اس منصوبے میں مسائل ہیں تو وہ پورا کاریڈور اٹھا کر کسی اور ملک لے جائے گا۔
یہ فیصلہ نوازشریف کو کرنا ھے اور وہ پاکستان کیلئے تبھی بہتر فیصلہ کرسکتا تھا اگر اس کی اولاد پاکستان میں ہوتی اور ان کے مستقبل پاکستان میں ہوتے۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ وہ لندن میں ہیں، نوازشریف پورا کیک کھانے کی کوشش کرے گا یا پھر پورا کیک کچرے میں ڈال دے گا۔
مؤرخ دیکھ رہا ھے....!!!
********
0 comments:
Post a Comment