Pages

Pages

Wednesday, April 29, 2020

حج پہلے بھی کھبی موقوف ہوا۔۔۔؟

حج پہلے بھی کھبی موقوف ہوا۔۔۔؟

رمضان گزر گیا عید الفطر گزر گئی اگلی عیدعیدالعضیٰ ہے لیکن جب عید العضی کی بات ہوتی ہے تو قربانی کا خیال ضرور ذہن میں آتاہے۔ اس کے علاوہ اس عید پر حج کی بات کرنا تو لازم وملزوم ہے۔ آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون، پروازوں کی معطلی اور سعودی عربیہ مساجد کی بندش سے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال آتاہے کہ کیا اس سال حج ہو پائے گا؟ اگر نہ ہوسکا تو کیا ہوگا؟ اور کیا اسلامی 
تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ حج معطل یا موقوف یا منسوخہوجائیگی؟

آج ہم اسی پر بات کرینگے۔ اللہ کرے کہ حالات جلد ازجلد نارمل ہوجائے اور حج کیلئے تمام روکاوٹین دور ہوجائے۔لیکن اگر خدانخواسطہ اس سال حج نہ ہوکسی یا حج موقوف ہوا تو یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا پہلے بھی کئی بارمختلف وجوہات کے بناپر ہوچکاہے۔ آج ہم اسی بار میں تفصیلی گفتگو کرینگے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اب تک 57 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ لگ بھگ 3 لاکھ 55 ہزار کے قریب جان سے جا چکے ہیں۔سعودی عرب اب تک تقریبن 76 ہزار متاثر ہوئے اور400 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ اس پس منظر میں حج کو معطل کرنے کا فیصلہ ناگزیر اور غیر معمولی لگ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ صدیوں کے دوران ایسے حالات کے باعث جو حج کا انتظام کرنے والوں کے اختیار سے باہر تھے، حج کی ادائیگی میں خلل اور رکاوٹ پہلے بھی پڑی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق حج میں پہلی بار تعطل اس وقت ہوا جب 930 عیسوی میں خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سات اماموں کو ماننے والی اسماعیلی شیعہ کی قرامطہ شاخ نے حج کے آٹھویں دن حاجیوں پر حملہ کر دیا۔تیسری صدی ہجری کا اواخر اور چوتھی صدی ہجری کا شروع اہل قرامطہ کے غضب و عذاب کا دور تھا۔ 7 ذی الحجہ 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال 317ھ کو حج بیت اللہ شریف نہ ہو سکا کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا یہ اسلام میں پہلا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا. اسی ابو طاہر قرامطی نے ’’حجر اسود‘‘ کو خانہ کعبہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لےگیا. پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ فیصلہ کیا اور تیس ہزار دیناردیدیےتب حجراسود خانہ کعبہ کوواپس کیا گیا.

یہ واپسی 339ھ کو ہوئی گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ ’’حجر اسود‘‘ سے خالی رہا. جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث شیخ عبداللہ کو ’’حجر اسود‘‘ کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا. یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچ گئے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس ان کے لیے ایک پتھر خوشبودار، خوبصورت غلاف میں سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں. محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ’’حجر اسود‘‘ میں دو نشانیاں ہیں اگر یہ پتھر اس معیار پر پورا اترا تو یہ ’’حجر اسود‘‘ ہوگا اور ہم لے جائیں گے.

پہلی نشانی یہ کہ پانی میں ڈوبتا نہیں ہے دوسری یہ کہ آگ سے گرم بھی نہیں ہوتا. اب اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا تو سخت گرم ہو گیا. فرمایا ہم اصل ’’حجر اسود‘‘ کو لیں گےپھر اصل ’’حجر اسود‘‘ لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہی ہمارا ’’حجر اسود‘‘ ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے.اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور کہا: یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہ باتیں،ہمیں جناب رسول اللہؐ سے ملی ہیں کہ ’’ ’’حجر اسود‘‘ ‘‘پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہو گا‘‘ ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے. جب ’’ ’’حجر اسود‘‘ ‘‘ مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا. اس اونٹنی میں زبردست قوت آ گئی اس لیے کہ’’حجر اسود‘‘ اپنے مرکز بیت اللہ کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مر جاتا، حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مر گئے. (تاریخ مکہ محمد بن علی بن فضل الطہری المکی )

ان قرامطیوں نےجو اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ حج بت پرستی کا عمل ہے، اس حملے میں قرامطیوں نے تقریبن30 ہزار سے زیادہ حجاج کوشہیدکئے تھے، لاشوں سے چاہِ زمزم کی بے حرمتی کی اور حجرِ اسود لے کر اپنے دارالحکومت (موجودہ دور کے قطیف) فرار ہو گئےتھے۔اس خونی حملے کی وجہ سے آئندہ 10 سال تک حج ادا نہ کیا جا سکا۔

حج کی ادائیگی میں دوسرا خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کے مطابق مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی ہے۔اسی دوران حاجیوں کو مکہ لے کر جانے کے لیے استعمال ہونے والے اونٹ پانی کی قلت کے باعث مرگئے۔اور بہت سے لوگ جو بچ کر مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے تھے وہ حج کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے۔‘

اسکے29 سال بعد بھی مشرق یا مصر سے کوئی حاجی حج کے لیے نہیں آیا۔ 1030 عیسوی میں صرف چند عراقی زائرین ہی حج ادا کرنے مکہ مکرمہ پہنچے۔اس برس جو افراد مکہ حج کرنے آئے تھے ان میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی تھے لیکن 1000 عیسوی میں وہ اس سفر کے متحمل نہیں ہو سکے کیونکہ اس سال مصر میں مہنگائی بہت زیادہ تھی۔اس واقعے کے 9سال بعد عراقی، مصری،وسط ایشیائی اور شمالی عربی مسلمان حج کرنے سے قاصر رہے۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اورفرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔اسی طرح 1099 میں بھی جنگوں کےنتیجےمیں پوری مسلم دنیا میں خوف اورعدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ کی جا سکی۔سنہ 1099میں صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کےفقدان کےباعث مسلمان حج ادا کرنےمکہ نہ آ سکے۔سنہ1168 میں مصریوں اورکرد کمانڈراسد الدین (جوزنکیون حکومت کا دائرہِ کارمصر تک پھیلانا چاہتے تھے)کےدرمیان تنازعےکیوجہ سےمصری مسلمانوں کو حج کی اجازت نہ مل سکی۔

13ویں صدی میں بھی حج ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوا 1256 سے 1260 کے دوران کوئی بھی شخص خطۂ حجاز سے حج کی ادائیگی نہ کر سکا۔اس کے بعدسنہ 1798 سے 1801 کے دوران فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے مصر اور شام کے علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیں جن کی وجہ سے مکہ کے راستے زائرین کے لیے غیر محفوظ ہو گئے۔اس کے بعد 1831ء میں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی،جب اس خطے کے افراد حج کی ادائیگی کے لئے مکہ پہنچے تو ان متاثرہ افراد سے دیگر ہزاروں افراد میں بھی یہ وباء پھیل گئی۔تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہو گئے۔ ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے۔چھ سال بعد دوبارہ وباؤں نے سعودی عرب کا رخ کیا، مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق 1837ء سے 1858ء کے دو عشروں کے درمیان وقتاً فوقتاً وبائیں جنم لیتی رہیں، اس وجہ سے اس دوران سات بار حج کے مناسک ادا نہ ہو سکے۔ پہلے 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھُوٹی جس کے باعث 1840ء تک حج ادا نہ ہو سکا۔ 1846ء میں مکہ کے رہائشیوں کو ہیضہ کی وبا نے آن گھیر ا،اس وباء سے پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہو گئے، جس کی وجہ سے 1849ء تک حج کی ادائیگی روک دی گئی۔اس کے بعد 1850ء میں حج کے مناسک ادا کئے گئے۔1858ء میں بھی ہیضہ کی وباء سے کئی ہلاکتیں ہوئیں اس وجہ سے حج مکمل نہ ہو سکا۔اسرپورٹ کے مطابق 1865ء اور 1883ء میں بھی وباء کی وجہ سے لوگ حج ادا نہ کر سکے۔

اس تناظرمیں اس سال اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو اس سال بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا۔کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا'قرآنِ پاک میں  فرمان ہے کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اورپیغمبرِ اسلام ﷺ نے بھی اپنے صحابہ کو وباؤں سے خبردار کیا ہے۔'
حوالے سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ ’اگر آپ کسی جگہ طاعون پھیلنے کی خبر سنیں تو وہاں داخل نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ وبا کسی جگہ پر پھیل جاتی ہے جہاں آپ موجود ہیں تو اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔‘ان کے مطابق ’یہ حدیث طاعون سے بچنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔'

No comments:

Post a Comment